احمدعبدالحق ابدال

شیخ احمد عبد الحق ردولوی
(احمد عبدالحق ردولوی سے رجوع مکرر)

شیخ احمدعبدالحق ردولوی المعروف قطب الابدال جن کے توسط سے سلسلۂ صابریہ چشتیہ کو نئی زندگی ملی اس وجہ سے آپ کو مجدد سلسلۂ صابریہ چشتیہ کہا جاتا ہے آپ شیخ العالم سے بھی معروف ہیں۔

شیخ العالم
احمد
ردولوی
احمد
معلومات شخصیت
پیدائشی نام احمد
اصل نام احمد عبد الحق
تاریخ وفات سنہ 837ء   ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن ردولی
رہائش بھارت
شہریت خلجی خاندان
مذہب اسلام
فرقہ حنفی
اولاد عزیز
مادری زبان فارسی
پیشہ ورانہ زبان عربی ، فارسی
مؤثر جلال الدین محمود عثمانی پانی پتی

نام و نسب

ترمیم

آپ کا نام شیخ احمد، لقب دستگیر بیکساں شیخ العالم اور خطاب عبد الحق و نور الحق ہے۔ والد کا نام شیخ محمد عمر ہے آپ نسباً فاروقی ہیں چند واسطوں سے آپ کا سلسلہ نسب امیرالمؤمنین عمر فاروق تک جا پہنچتا ہے۔ آپ کے دادا شیخ داؤد بلخ سے ترک سکونت کر کے سلطان علاؤ الدین خلجی کے دور حکومت میں ہندوستان تشریف لائے اور صوبہ اودھ کے خطہ ردولی میں سکونت اختیار کی۔[1]

شوق عبادت

ترمیم

شیخ العالم کی آمد کی بشارت آپ کے والدین کو پہلے ہی مل چکی تھی۔ آپ پر بچپن ہی سے ذوق عبادت اور شوق و حال کا غلبہ رہتا تھا۔ آپ اہل حقیقت کے استاد اور ارباب حقیقت کے قبلہ تھے۔ عبد القدوس گنگوہی نے انوار العیون میں آپ کے حالات کے بارے میں لکھا ہے کہ احمدعبدالحق جب سات برس کے تھے تو ہمیشہ اپنی والدہ کے ہمراہ نماز تہجد کے لیے اٹھ جاتے تھے۔ آپ کی والدہ محترمہ نے کئی مرتبہ آپ سے کہا کہ ابھی تم پر نماز فرض نہیں ہے لیکن احمدعبدالحق کو والدہ کی یہ بات دل کو نہ لگتی تھی کہتے تھے کہ جو کام آپ اپنے لیے پسند کرتی ہو اسے میرے لیے کیوں مضر خیال کرتی ہو۔[1]

حصول علم

ترمیم

الغرض جب آپ کی عمر بارہ سال ہوئی تو حق کی تلاش میں گھر سے نکل پڑے۔ اُن دنوں آپ کے بڑے بھائی دہلی میں ایک دینی مدرسے کے سربراہ تھے۔ احمدعبدالحق اس مدرسے میں آ پہنچے۔ آپ کے بھائی نے آپ کو دینی کتابیں پڑھانا شروع کیں جملہ علوم و فنون اپنے بڑے بھائی شیخ نقی الدین سے کسب کیا پھر وہ آپ کو اپنے ہمراہ مزید تحصیل علوم کی خاطر دہلی لے گئے مگر دہلی کے علما و محدثین نے یہ کہہ کر پڑھانے سے معذرت کر دی کہ ان کے پاس ایسا علم ہے کہ ہمارا علم ان کے آگے بے کار ہے۔

علم باطن

ترمیم

آپ مدرسہ چھوڑ کر بیابان میں نکل جاتے اور اللہ کی عبادت میں مشغول رہتے۔ ایک عرصہ تک احمدعبدالحق اسی حالت میں رہےنصیرالدین چراغ دہلوی کے جانشین ان کے فرزند گرامی شیخ محمد عمر کے گھر میں آپ آٹھویں صدی ہجری کے وسط میں ٹھہرے تقریباً اٹھارہ سال کی عمر میں سیر و سیاحت کا آغاز کیا اور مقصود اصلی کی تلاش شروع کی۔ وقت کے کبار علما و مشائخ کی زیارت کی۔ نور قطب عالم پنڈوی اور فتح اللہ اودھی سے ملے مگر جب مقصود حاصل نہ ہوا تو اپنے ہاتھوں قبر تیار کر کے اس میں زندہ درگور ہو گئے اور چھ مہینے تک قبر کے اندر ریاضت و مجاہدہ میں مصروف رہے پھر قبر سے باہر آئے اور اشارۂ غیبی پا کر کبیر الاولیاء،مخدوم جلال الدین پانی پتی کی خدمت میں پہنچے اور سلسلۂ چشتیہ صابریہ میں بیعت و خلافت سے مشرف ہوئے۔ کبیر الاولیاء نے خلوت و جلوت میں ایک زمانہ تک اپنی صحبت میں رکھا بعدہٗ جملہ نعمت و تبرکات دے کر اپنا جا نشین بنایا۔ آپ ایک طویل عرصہ تک سریو ندی میں اتر کر عالم تحیر میں کھڑے رہے اور یہیں آپ کو بحکم رسول کریم ﷺ امیر المؤمنین علی نے دعائے حیدری عطا کی جو آج تمام سلسلوں میں جاری ہے۔

مرشد کا آزمانا

ترمیم

جلال الدین پانی پتی کواحمدعبدالحق کے آنے کی خبر کشف کے ذریعے معلوم ہوئی۔ آپ نے اپنے خادموں کو حکم دیا کہ آج اعلٰی قسم کا کھانا تیار کیا جائے اور کھانے میں کچھ مکرو ہ چیزیں بھی رکھ دی جائیں۔ اس کے علاوہ ہمارے دروازے کے سامنے عمدہ گھوڑے جن پر زریں زینیں آراستہ ہوں کھڑے کر دیے جائیں۔ آج ہمارے پاس ایک مہمان آ رہا ہے جس کا امتحان لینا مقصود ہے۔ احمدعبدالحق جب آپ کے دروازے پر پہنچے تو بڑے عمدہ گھوڑے دیکھے جن پر سونے کی زینیں تھیں۔ پھر اندر داخل ہوئے تو آگے دسترخوان بچھا ہوا تھا جس پر طرح طرح کے کھانے رکھے ہوئے تھے جن میں کچھ مکروہ چیزیں بھی شامل تھیں۔ دل میں خیال آیا کہ جو شخص اتنی شان و شوکت سے رہتا ہے اور جس کے دسترخوان پر مکروہ چیزیں موجود ہیں وہ دنیادار ہے اسے محبت الٰہی سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ چنانچہ احمدعبدالحق فوراً اس جگہ سے واپس ہوئے اور سارا دن چلتے رہے۔ شام ہوئی تو لوگوں سے پوچھا کہ یہ کون سی جگہ ہے۔ لوگوں نے بتایا کہ یہ پانی پت شہر ہے۔ دل میں خیال آیا شاید میں راستہ بھول گیا ہوں۔ رات شہر کے باہر گزاری سارا دن چلتے رہے تو شام کو ایک شہر میں پہنچے جب غور سے دیکھا تو پتہ چلا یہ تو وہی پانی پت شہر ہے۔ تیسرے دن پھر شہر سے نکلے اور ایک جنگل میں پہنچ کر راستہ بھول گئے۔ احمدعبدالحق بڑے پریشان ہوئے اور ایک درخت کے سائے میں بیٹھ گئے۔ اتنے میں احمدعبدالحق نے دیکھا کہ چند سوار چلے آ رہے ہیں جلدی سے اٹھے اور انھیں ہاتھ ہلا کر اپنی طرف متوجہ کیا۔ ان میں سے ایک گھوڑسوار آپ کے نزدیک آیا اور بولا معلوم ہوتا ہے کہ راستہ بھول چکے ہیں۔ آپ نے کہا ہاں۔ وہ گھوڑسوار گھوڑے کو ایڑ لگاتے ہوئے بولا جناب راستہ تو آپ جلال الدین کے ہاں گم کربیٹھے ہیں اور اب لوگوں سے پوچھتے پھرتے ہیں۔ یہ کہہ کر سوار اپنے ساتھیوں سمیت چلا گیا۔ اس گھوڑسوار کے یہ الفاظ آپ کے سینے میں تیر کی طرح لگے اور پھر سوچا کہ ہاں میں وہ راستہ تو جلال الدین کی خانقاہ میں گم کرآیا ہوں۔ فوراً پلٹے اور پانی پت میں جلال الدین کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ اس وقت جلال الدین اپنی ٹوپی شمس الدین ترک کے مزار کی گرد میں لپیٹ رہے تھے۔ چنانچہ آپ نے وہی ٹوپی احمدعبدالحق کے سر پر رکھی اور حلوہ عنایت فرمایا اور آپ کو اپنے حلقہ ارادت میں شامل کیا۔ ایک طویل عرصے تک احمدعبدالحق اسی خانقاہ میں رہے۔[2]

خرقہ خلافت

ترمیم

ایک روزجلال الدین نے آپکو سینے سے لگاتے ہوئے خرقہ خلافت عطا کیا اور فرمایا کہ تجھ جیسا اس خانقاہ میں کوئی نہیں تو ہی میری خلافت کا مستحق ہے۔ اس کے بعدجلال الدین نے آپ کو عبد الحق کا خطاب دیا۔ کیونکہ احمدعبدالحق ہر وقت حق حق کے نعرے بلند کرتے تھے اس لیے سلسلہ چشتیہ احمدیہ میں لوگ ایک دوسرے کو سلام کرنے کے بعد ایک دوسرے کو تین بار حق حق کہتے ہیں۔ جب کسی کو خط لکھتے ہیں تو اس کے سرنامے پر بھی تین دفعہ حق حق لکھ دیتے ہیں۔ اس خاندان میں آج تک یہ رسم جاری ہے تاہم بعض علمائے کرام نے اس طریقے کار کو خلاف سنت قرار دیا ہے۔ چنانچہ اس سلسلہ کے اکثر علما مشائخ نے اس عادت کو چھوڑ دیا ہے لیکن اب بھی اس سلسلہ کے بعض لوگ یہ عادت اپنائے ہوئے ہیں۔[3] سیرالاقطاب میں لکھا ہوا ہے کہ جب احمدعبدالحق کے گھر پہلا بیٹا پیدا ہوا تو اس کا نام عزیز رکھا گیا۔ پیدا ہوتے وقت اس کی زبان پر حق کا لفظ جاری تھا جو سب لوگوں نے سنا جس سے سارے شہر میں شور مچ گیا۔ احمدعبدالحق نے پوچھا یہ کیسا شور مچا ہوا ہے تو لوگوں نے بتایا کہ آپ کے بیٹے سے جو کرامت ظہورپذیر ہوئی ہے اس کی وجہ سے یہ شور مچا ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا شور نہیں ہونا چاہیے۔ یہ کہہ کر آپ گھر سے باہر نکلے اور قبرستان پہنچ کر ایک جگہ پر نشان لگا کر فرمانے لگے کہ ہمارے بیٹے عزیز کی قبر یہاں پر ہوگی۔ چنانچہ دوسرے ہی دن آپ کا بیٹا عزیز فوت ہو گیا۔[4]

فرمودات

ترمیم

احمدعبدالحق فرمایا کرتے تھے کہ اگر کسی نے خدا سے لو لگانی ہے اور بارگاہ الٰہی تک رسائی پیدا کرنی ہے اسے چاہیے کہ وہ خود کو فنا کرلے کیونکہ خود کو فنا کرنے کے بعد ہی دل میں عشق الٰہی پیدا ہوتا ہے۔ آپ کہا کرتے تھے جس طرح نمک پانی میں مل کر حل ہوجاتا ہے اور اس کی اپنی علاحدہ شناخت ختم ہوجاتی ہے اسی طرح انسان بھی اگر درگاہ خداوندی کا طلب گار ہے تو اپنی ہستی کو ذات الٰہی میں فنا کر دے۔

معاصرین

ترمیم

آپ کے معاصرین میں سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی، نور قطب عالم پنڈوی،شیخ صفی ردولوی، بندہ نواز گیسو دراز، شیخ فتح اللہ اودھی کے اسماء گرامی خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔

وصال

ترمیم

احمدعبدالحق15جمادی الثانی 837ھ کو اس دارفانی سے رخصت ہوئے۔ آپ کی آخری آرام گاہ رودلی بارہ بنکی ضلع انڈیا میں آج بھی منبع فیوض و برکات ہے۔[3]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب خزینۃ الاصفیاءجلد دوم، غلام سرور لاہوری،صفحہ 276مکتبہ نبویہ لاہور
  2. تاریخ مشائخ چشت از محمد زکریا المہاجر المدنی صفحہ 188ناشر مکتبہ الشیخ کراچی,http://www.elmedeen.com/read-book-5168&&page=217&viewer=text#page-194&viewer-text آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ elmedeen.com (Error: unknown archive URL)
  3. ^ ا ب تاریخ مشائخ چشت از محمد زکریا المہاجر المدنی صفحہ 190ناشر مکتبہ الشیخ کراچی
  4. سیرالاقطاب