احمد کسروی

ایرانی دانشور اور محقق

احمد کسروی [1] کا شمار ایران[2] کے مشہور شخصیات[3] میں ہوتا ہے جنھوں نے بیسویں صدیں عیسوی میں بہت سے لوگوں کو متاثر کیا[4] ۔آپ نے مختلف زبانوں عربی،فارسی،آذری اور ترکی زبان پر مختلف تحقیقی کتب لکھی ہیں۔[5] احمد کسروی نے ایران میں ایک مشہور نظریہ "پاک دینی"[6] پیش کیا۔

سید احمدکسروی تبریزی
 

معلومات شخصیت
پیدائش 13 دسمبر 1909(1909-12-13)
تبریز، پہلوی حکومت
وفات 11 مارچ 1946(1946-30-11) (عمر  36 سال)
تہران، انقلاب اسلامی
وجہ وفات تیز دار ہتھیار کا گھاؤ   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات قتل   ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قومیت ایرانی
دیگر نام سید احمد تبریزی
عملی زندگی
پیشہ مصنف ،  ماہرِ لسانیات ،  مورخ ،  صحافی ،  فلسفی ،  الٰہیات دان ،  مفسرِ قانون ،  منصف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان فارسی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل لسانيات ،  تاریخ ،  سیاست ،  الٰہیات ،  فلسفہ   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت جامعہ تہران   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ولادت و ابتدائی زندگی

ترمیم

احمد کسروی 29 ستمبر 1890 عیسوی کو ایک گاؤں ہمکاور[7] تبریز،ایران میں ایک مذہبی گھرانے میں [8] پیدا ہوئے۔اور 1897 عیسوی میں ابتدائی تعلیم کے لیے اسکول میں داخلہ لیا اور 1902 عیسوی میں جب آپ کے والد فوت ہو گئے تو آپ نے وہ اسکول چھوڑ دیا۔ [9]

  • انھوں نے عربی و فارسی اور آذری زبان میں یہ کتب [9] لکھیں[11]:
  • کتاب قهوه سوراه ب
  • کتاب حقایق عن اسپرانتو ب
  • کتاب آذری یا زبان باستان آذربایجان منتشر شد٠
  • جزوه کارنامه اردشیربابکان به زبان پهلوی با برگردان
  • کتاب باب نامهای شهرها و دیه های ایران
  • جزوه تاریخچه شیر و خورشید
  • کتابهای آیین،
  • قانون دادگری،
  • تاریخ پانصد ساله خوزستان،
  • مقدمه بر عفافنامه،
  • تاریخ هیجده ساله آذربایجان،
  • گلچینی از کتاب پلوتارخ،
  • راه رستگاری
  • تاریخ مشروطه ایران
  • امروز چه باید کرد؟
  • پیام به دانشمندان اروپا و آمریکا،
  • حافظ چه میگوید،
  • خدا با ماست،
  • در پیرامون رمان،
  • در پیرامون اسلام،
  • در پیرامون خرد،
  • ورجاوند بنیاد،
  • صوفی گری،
  • فرهنگ چیست؟
  • زبان پاک،
  • یکم آذر،
  • یکم دی ماه،
  • شیعی گری،
  • پندارها
  • بهایی گری
  • در پاسخ به بد خواهان،
  • سیزدهم مرداد،
  • در پیرامون ادبیات،
  • کار و پیشه و پول،
  • دین و جهان
  • گفت و شنید
  • کتابهای دادگاه،
  • دولت به ما پاسخ دهد،
  • بهمن ماه،
  • فرهنگ است یا نیرنگ؟
  • نهضت افسران ما،
  • خواهران و دختران ما،
  • زندگانی من،
  • ده سال در عدلیه،
  • چرا از عدلیه بیرون آمدم؟
  • تاریخچه چپق و قلیان ،
  • انکیزیسیون در ایران،
  • از ازمان ملل متفق چه نتیجه توان بود؟
  • در راه سیاست،
  • امروز چاره چیست؟
  • مردم یهود،
  • جنابآقا از میدان در رفت،
  • در پیرامون جانوران،
  • چه خواهد بود؟
  • تاریخ خوزستان

حقیقی اسلام اور خرافاتی اسلام

ترمیم

اپنی کتاب در پیرامون اسلام [12] میں صفحہ 4 تا 7 پر یہی بات دہرایا ہے کہ : "اسلام دو ہیں ایک حقیقی اسلام جو محمد ص لے کر آئے اور آپ کی وفات تک جو اسلام ایمان،اطاعت اور تقوی عمل صالح کا منبع ہے۔ جب کہ دوسرا خرافاتی اسلام ہے جو آپ ص کی وفات کے بعد سے آج کے ہمارے اس دور میں رائج ہے جہاں بدعات و خرافات اور شرک کے اعمال و عقآئد اور فرقہ در فرقہ تقسیم.یہ خرافاتی اسلام ہے۔ایک شخص کو حقیقی اسلام کو اختیار کرنا چاہیے."

الزامات کا جواب

ترمیم

اپنی کتاب"دادگاہ" میں احمد کسروی علما و مجتہدین کی جانب سے اپنے اوپر لگنے والے الزام کا رد کرتے ہیں کہ انھوں نے قرآن مجیدکو جلایا تھا "ملاؤں اور دیگر ان کے حامیوں نے لوگوں کو بڑھکانے کے لیے یہ پھیلایا کہ میں نے قرآن جلایا ہے اور جھوٹ کو تہران تک پھیلایا....حالانکہ قرآن کا ہم نہ صرف احترام کرتے ہیں بلکہ اس کو ہمیشہ اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں اور رکھتے بھی ہیں...قرآن کہاں اور اس کو جلانے کا خیال کہاں؟ ہم انجیل تک کا احترام کرتے ہیں۔وہ کتابیں جو آسمانی مذاہب کی بنیاد ہیں، ہم ان کا پاس (لحاظ) رکھتے ہیں۔قرآن تو ہر زمانے کا دستاویز ہے جو برے اور گمراہ لوگوں کی ہدایت کے لیے ہے،قرآن کی راہ کو مضبوطی کے ساتھ ہاتھ سے تھامنا چاہیے،اور امام علی بن ابی طالب ع نے جنگ صفین میں معاویہ کے چال کے باوجود اسی قرآن کی وجہ سے لحاظ کیا....."[13]

وفات

ترمیم

1945ء عیسوی میں آپ نے ایسی کتب لکھیں جس میں مذہبی پیشواؤں کے اختیارات پر سوال اٹھائے گئے تھے۔اس قسم کی کتابوں کی وجہ سے مختلف مجتہدین جیسے آیت الله بروجردی اور آیت اللہ صدر وغیرہ نے ان کے قتل کا فتوی صادر کیا۔[1][14] آپ پر اپنی کتب میں دینی مقدسات کی توہین کرنے اور مذہبی کتابوں کو جلانے کا الزام لگایا گیا۔اور اسی سلسلے میں 1946ء عیسوی میں آپ کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا کہ وہیں پر فدائیان اسلام سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے قاتلانہ حملہ کیا اور چھڑیوں کے وار سے آپ کو ہلاک کر دیا۔اور آپ کے منشی حداد پور پر بھی حملہ کیا اور دونوں ہی موقع پر جان بحق ہو گئے۔ [9]

اقوال و ارشادات

ترمیم
  • عالم کی مثال ایک چرواہے کی طرح ہے جو اپنی بکریوں اچھے سے اچھے گھاس(چارہ) کی طرف لے جاتا ہے تاکہ ان کو خوب سیر ہونے دیا جائے، نہ کہ بنجر میدان کی طرف ان کو لے جائے،ہمارے علما نے لوگوں کو جہالت،توہمات اور غربت کا راستہ دکھایا ہے-
  • ملاؤں نے مجھ سے دشمنی نکالنے کے لیے کہ مشہور کیا کہ میں نے ایک نئے مذہب کا اعلان کیا ہے۔حالانکہ میں "ورجاوند بنیاد"،"در پیرامون خرد" اور"دین و جھاں" میں جو لکھ چکا ہوں گمراہی کے خلاف وہ ان کے خودساختہ مذہب کے برخلاف ہے،اس لیے ایسا کہتے ہیں...میں نیا مذہب نہیں لایا..میں اسلام کا پیروکار ہوں بھلا میں کب سے اسلام مخالف ہو گیا اور میری کونسی بات اسلام کے خلاف ہے،میں 'دین مبین اسلام کا مخالف' ہوں ایسا کہنا جھوٹ کے سوا کچھ نہیں، میں تو ان مولویوں کے خودساختہ اسلام کے خلاف لکھتا ہوں جو اسلام کے پاک نام کو ناپاک کرتے ہیں۔
  • یہ بحث کرتے ہیں کہ دین لوگوں کے لیے ہے یا لوگ دین کے لیے؟میں کہتا ہوں دین لوگوں کے لیے ہے۔دین اس لیے ہے کہ لوگوں کو شاہراہ زندگی کا پتہ چلے اور دنیا کے فائدہ مند راہ سے آگاہ کرے.اور گمراہی و پراکندگی کی نشان دہی کرے.ہر نیکی اور رستگاری کے کام کو اپنانے کی دعوت دے
  • میں امام علی ع سے محبت یا دوستی اس لیے نہیں رکھتا کہ ان کا نام علی ہے یا وہ رسول ص کے داماد ہیں،بلکہ میں ان سے محبت اس لیے رکھتا ہوں کہ وہ ایک سرتا پاؤں ایک پاکباز شخص تھے جو اپنی خواھشات کے آگے گردن کبھی نہیں جھکاتے تھے۔
  • کیا آپ جانتے ہیں کہ جاہل ترین اور سب سے بدبخت شخص کون ہے؟ وہ شخص جو اپنی جہالت اور دشمنی کے بیچ میں خدا کو لے آئے۔
  • جان لیں کہ اسلام دو ہیں ایک اسلام جسے عرب کے پاک مرد نے 1350 سال پہلے لایا اور کئی صدیوں رائج رھا،اور دوسرا اسلام وہ جو آج ہے گونا گوں رنگوں کے جیسے سنی،شیعی،اسماعیلی،علی اللہی،شیخی،و کریمخانی وغیرہ.ان دونوں کو اسلام کا نام دیا جاتا ہے۔جب کہ یہ ایک نہیں بلکہ دونوں بالکل الگ الگ ہیں اور ایک دوسرے کی ضد.پہلا اسلام وہ جس کو ہم مانتے ہیں،اس کا حصہ ہونے کو ہم اپنے لیے باعث سعادت سمجھتے ہیں،یہ دین بت شکن دین تھا۔اور دوسرے مذاھب سراپا بت پرستی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔اس اسلام نے لوگوں کو ایک جماعت قرار دیا۔اس کی حکمرانی نصف دنیا تک پھنچی تھی اور افتراق و انتشار کو منحوس اور شکست کا ذریعہ سمجھتے ...آج کے مسلمان دنیا میں سب سے زیادہ خوار اور ذلیل ہو رہے ہیں اور غیروں کے زیر تسلط ہیں..درخت کو اس کے پھل سے پہچانا جاتا ہے،دیکھوایک درخت جس کا میوہ میٹھا ہو دوسرا جس کا میوہ کڑوا ہو،کیا ہم ان دونوں کو ایک سمجھیں؟[15]

حوالہ جات

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔