اسرائیلی قانون شہریت [1] وہ معیار طے کرتا ہے جس کے تحت کسی شخص کو اسرائیل کی شہریت عطا کی جا سکتی ہے۔ اس قانون میں یہودی تارکین وطن کے واپسی کا حق کی گنجائشیں بھی شامل ہیں۔ عمومًا اسرائیلی قانون شہریت میں شہریت میں خونی شہریت تسلیم کی جاتی ہے جب کہ پیدائشی شہریت کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ جدید اسرائیل کی ریاست کے شہریوں کو اسرائیلی کہا جاتا ہے۔

اسرائیلی شہریت ایکٹ
کنیست
نفاذ بذریعہکابینہ اسرائیل

یہ بات کئی بار موضوع نزاع بن چکی ہے۔ اس وجہ سے کچھ مشاہیر اسرائیل پر نسل پرستی کا بھی الزام عائد کر چکے ہیں۔ فلسطین کی عرب آبادی، جن میں سے اکثر لوگ پشت در پشت اسرائیل کے زیر قبضہ علاقہ جات میں رہے ہیں، وہ اتنے حقوق نہیں رکھتے جتنے کہ افریقا، ایشیا یا دنیا کے اور حصوں سے نو آمد شدہ یہودی رکھتے ہیں۔ اس کی ایک مثال روسی یہودی تاجر ہیں جنہیں بہت کم وقت میں اسرائیلی شہریت دی گئی تھی۔ رومان ابرامووچ، جو انگلستان کے فٹ بال کلب چیلسی کے مالک تھے۔ اور روس اور برطانیہ کے مابین پائے جانے والے بیسویں صدی کے شروع میں سفارتی تناؤ کی وجہ سے انھیں ایک روسی شہری کے طور پر برطانیہ میں قیام کے لیے اپنے ویزے کی مدت میں توسیع کروانے کے سلسلے میں شدید مشکلات کا سامنا تھا۔ مگر اسرائیل نے انھیں پہنچتے ہی شہریت دی جس سے ان کے مشکلات کا خاتمہ ہو گیا۔

مشرقی یروشلم کا مسئلہ اور شہریت

ترمیم

1967ء میں مشرقی یروشلم پر قبضے کے بعد سے اسرائیل نے رسمی طور پر وہاں کے مکینوں کو اسرائیلی شہریت کے لیے درخواست دینے کا اختیار دیا۔ شاذ و نادر ہی کسی نے شہریت کی درخواست دی تھی کیوں کہ بیش تر خود کو فلسطینی سمجھتے تھے۔ 2000ء کے بعد سے کئی فلسطینیوں نے اسرائیلی شہریت کی درخواست دی تھی۔ ٹائمز آف اسرائیل کی اطلاع کے مطابق 2003ء سے 2013ء کے بیچ مشرقی یروشلم کی آدھی کے قریب درخواستوں کو رد کر چکا ہے یا ان پر کارروائی تاخیر میں رکھی۔ بعد میں وہ کوئی ایسی درخواست ہی نہیں لے رہا ہے۔[2]

حوالہ جات

ترمیم