مولوی اسماعیل میرٹھی (پیدائش: 12 نومبر 1844ءیکم نومبر 1917ء) کا شمار جدید اردو ادب کے ان اہم ترین شعرا میں ہوتا ہے جن میں مولانا الطاف حسین حالی، مولوی محمد حسین آزاد وغیرہ شامل ہیں۔ "مولوی اسما عیل میرٹھی، ایک ہمہ جہت شخصیتان کا شمار جدید نظم کے ہئیتی تجربوں کے بنیاد گزاروں میں ہونا چاہیے " پروفیسر گوپی چند نارنگ

اسماعیل میرٹھی

معلومات شخصیت
پیدائش 12 نومبر 1844ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
میرٹھ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 1 نومبر 1917ء (73 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
میرٹھ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت مغلیہ سلطنت
برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعداد اولاد 5   ویکی ڈیٹا پر (P1971) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ مرزا غالب   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ شاعر ،  بچوں کے مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو ،  فارسی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

پیدائش

ترمیم

اسماعیل میرٹھی 12نومبر 1844کو میرٹھ کے ایک محلے مشائخان میں پیدا ہوئے تھے۔ اب یہ علاقہ اسما عیل نگر کے نام سے معروف ہے۔ مولانا اسمٰعیل میرٹھی،12نومبر، 1844 عیسوی کو میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ اب یہ محلہ اسمٰعیل نگر کے نام سے موسوم ہے۔ آپ کے والد کا نام شیخ پیر بخش تھا اور یہی آپ کے پہلے استاد بھی تھے۔ اس دور کے رواج کے مطابق مولانا نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی۔ پہلے فارسی اور پھر دس برس کی عمر میں ناظرہ قرآن مجید کی تعلیم مکمل کی۔ 1857 کی جنگِ آزادی کی تحریک کے وقت 14سالہ اسمٰعیل نے محسوس کر لیا تھا کہ اس وقت اس مردہ قوم کو جگانے اور جگائے رکھے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ اسی مقصد کے تحت انھوں نے دینی علوم کی تکمیل کے بعد جدیدعلوم سیکھنے پرتوجہ دی، انگریزی میں مہارت حاصل کی، انجنیئرنگ کا کورس پاس کیا، مگر ان علوم سے فراغت کے بعد اعلیٰ ملازمت حاصل کرنے کی بجائے تدریس کا معزز پیشی اختیار کیا تاکہ اس راہ سے قوم کو اپنے کھوئے ہوئے مقام تک واپس لے جانے کی کوشش کریں۔
1857ء سے پہلے اردو شاعروں نے خیالات کے میدان میں گھوڑے دوڑانے کے علاوہ کم ہی کام کیا تھا، مگر اسمٰعیل میرٹھی نے، اپنے ہمعصروں، حالی اور شبلی کی طرح اپنی شاعری کو بچوں اور بڑوں کی تعلیم و تربیت کا ذریعہ بنایا۔ مولانا نے 50 پچاس سے زیادہ نظمیں لکھی ہیں جو صرف بچوں کے لیے ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسی ہیں جن کا انھوں نے انگریزی شاعری سے ترجمہ کیا ہے اس کے باوجود یہ نظمیں اپنی زبان اور بیان کے لحاظ سے انتہائی سادہ اور پر اثر ہیں۔ اردو کے علاوہ مولانا نے فارسی ریڈریں بھی ترتیب دیں اور فارسی زبان کی گرامر کی تعلیم کے لیے کتابیں لکھیں۔ مولانا کے دو ہندو دوستوں نے جو سرجن تھے، اردو میں اناٹومی اور فزیالوجی یعنی علمِ تشریح اور علم افعال الاعضا پر کتابیں لکھی تھیں۔ مولانا نے ان دوستوں کی درخواست ہر ان کتابوں پر نظرِ ثانی کی اور ان کی زبان کو ٹھیک کیا۔ اپنے روحانی استاد اور پیر کی حالات پر ایک کتاب ’’ تذکرہ غوثیہ‘‘ کے نام سے لکھی۔ دہلی کے مشہور عالم اور ادیب منشی ذ کاء اللہ نے بھی سرکاری اسکولوں کے لیے اردو ریڈروں کا ایک سلسلہ مرتب کیا تھا، ان کی ان کتابوں میں مولانا اسمٰعیل کی نظمیں شامل تھیں۔ مولانا نے جغرافیہ پر بھی ایک کتاب لکھی جو اسکولوں کے نصاب میں داخل رہی۔ مسلمانوں کے اس عظیم خدمت گزار مصلح نے 73 سال کی عمر میں یکم نومبر 1917ء کو وفات پائی۔ مولانا کی نظمیں، عنقریب پیش کی جائینگی۔
مولانا نے مدرسۃ البنات کے نام سے 1909ء میں لڑکیوں کا ایک اسکول میرٹھ میں قائم کیا، یہ درس گاہ آج بھی قائم ہے اور اس کا نام اسماعیلیہ ڈگری گرلز کالج ہے۔ ان تمام تعلیمی اور علمی مصروفیات کے باوجود آپ مسلمانوں کی سیاسی تربیت سے غافل نہیں رہے، انہی سیاسی خدمات کے پیشِ نظر انھیں 1911ء میں میرٹھ شہر کی مسلم لیگ کا نائب صدر منتخب کیا گیا تھا، اسی طرح وہ انجمن ترقی اردو کی مجلسِ شوریٰ کے رکن بھی رہے۔

سلسلہ نسب

ترمیم

ان کا سلسلہ نسب محمد بن ابو بکر سے جا ملتا ہے۔ ان کے کسی بزرگ نے ترکستان کے قدیم شہر خجند میں سکونت اختیار کی تھی اور وہاں سے آپ کے مورث اعلیٰ میں سے قاضی حمید الدین خجندی بادشاہ ظہیر الدین بابر کے ہمراہ ہندوستان آئے تھے۔ معروف ادیب و شاعر حضرت مولانا محمد اسماعیل میرٹھی علیہ الرحمہ جن کی نظمیں آج بھی داخل نصاب ہیں، محمد عبدالعلیم صدیقی کے والد ماجد کے چھوٹے بھائی تھے، دونوں بھائیوں کی عمروں میں 14 سال کا فرق تھا۔ - [1] ’’حیات اسماعیل‘‘ میں درج شدہ معلومات کی روشنی میں حضرت مولانا قاضی صوفی حمید الدین صدیقی خجندی علیہ الرحمہ تک، مبلغ اعظم کا شجرہ نسب یہ ہے ’’شاہ محمد عبد العلیم بن شاہ عبد الحکیم جوش بن شیخ پیر بخش بن شیخ غلام احمد بن مولانا محمد باقر بن محمد عاقل بن مولانا محمد شاکر بن مولانا عبد اللطیف بن مولانا یوسف بن مولانا داؤد بن مولانا احمد بن مولانا قاضی صوفی حمید الدین صدیقی خجندی رحمتہ اﷲ تعالیٰ علیہم‘‘ (محمد اسلم سیفی بن مولانا محمد اسماعیل میرٹھی (خ [2]

ملازمت

ترمیم

تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسما عیل میرٹھی نے سررشتہ تعلیم میں ملازمت اختیار کی جہاں ان کی ملاقات قلق میرٹھی سے ہوئی۔ قلق میرٹھی نے انگریزی کی پندرہ اخلاقی نظموں کا منظوم ترجمہ ’جواہر منظوم‘ کے نام سے کیا تھا۔ اس منظوم ترجمے نے اسما عیل میرٹھی کو بہت متاثر کیا، جس سے نہ صرف ان کی شاعری میں بلکہ جدید اردو نظم میں وہ انقلاب برپا ہوا کہ اردو ادب جدید نظم کے نادر خزانے سے مالامال ہو گیا۔

ادبی خدمات

ترمیم

یہ اشعار مولوی اسماعیل میرٹھی کے ہیں جو انھوں نے بچوں کے لیے لکھے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ صرف بچوں کے شاعر تھے۔

تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا۔ ۔۔۔ کیسی زمیں بنائی کیا آسماں بنایا

ادب سے ہی انسان انسان ہے۔ ۔۔۔ ادب جو نہ سیکھے وہ حیوان ہے

بگڑتی ہے جس وقت ظالم کی نیت۔ ۔۔۔ نہیں کام آتی دلیل اور حجت

ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں۔ ۔۔۔ ناؤ کاغذ کی کبھی چلتی نہیں

ملے خشک روٹی جو آزاد رہ کر۔ ۔۔۔ تو ہے خوف و ذلت کے حلوے سے بہتر

جو بات کہو صاف ہو ستھری ہو بھلی ہو۔ ۔۔۔ کڑوی نہ ہو کھٹی نہ ہو مصری کی ڈلی ہو

معروف نقاد پروفیسر گوپی چند نارنگ کہتے ہیں :”بچوں کا ادب اسماعیل میرٹھی کی ادبی شخصیت کا محض ایک رخ ہے۔ ان کا شمار جدید نظم کے ہئیتی تجربوں کے بنیاد گزاروں میں بھی ہونا چاہیے۔ آزاد اور حالی نے جدید نظم کے لیے زیادہ تر مثنوی اور مسدس کے فارم کو برتا تھا۔ اسماعیل نے ان کے علاہ مثلث، مربع، مخمس اور مثمن سے بھی کام لیا ہے۔ ترقی پسند شاعروں نے آزاد نظم اور نظم معرٰی کے جو تجربے کیے، ان سے بہت پہلے عبد الحلیم شرر، نظم طباطبائی اور نادر کاکوروی اور ان سے بھی پہلے اسماعیل میرٹھی ان راہوں سے کانٹے نکال چکے تھے۔ “


نئی نظم کے معمار

’’حالی اور آزاد کے ہمعصر، انّیسویں صدی کے

بہترین شاعرمولوی اسمٰعیل میرٹھی ہیں جن کی

نظمیں محاسن شاعری میں آزاد وحالی دونوں سے

بہتر ہیں‘‘


حوالہ جات

ترمیم
  1. "آرکائیو کاپی"۔ 13 اپریل 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 اپریل 2013 
  2. "آرکائیو کاپی"۔ 13 اپریل 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 اپریل 2013