اسماعیل میرٹھی
مولوی اسماعیل میرٹھی (پیدائش: 12 نومبر 1844ء — یکم نومبر 1917ء) کا شمار جدید اردو ادب کے ان اہم ترین شعرا میں ہوتا ہے جن میں مولانا الطاف حسین حالی، مولوی محمد حسین آزاد وغیرہ شامل ہیں۔ "مولوی اسما عیل میرٹھی، ایک ہمہ جہت شخصیتان کا شمار جدید نظم کے ہئیتی تجربوں کے بنیاد گزاروں میں ہونا چاہیے " پروفیسر گوپی چند نارنگ
اسماعیل میرٹھی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 12 نومبر 1844 میرٹھ |
وفات | 1 نومبر 1917 (73 سال) میرٹھ |
عملی زندگی | |
استاذ | مرزا غالب |
پیشہ | شاعر |
درستی - ترمیم ![]() |
پیدائش ترميم
اسماعیل میرٹھی 12نومبر 1844کو میرٹھ کے ایک محلے مشائخان میں پیدا ہوئے تھے۔ اب یہ علاقہ اسما عیل نگر کے نام سے معروف ہے۔
مولانا اسمٰعیل میرٹھی،12نومبر، 1844 عیسوی کو میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ اب یہ محلہ اسمٰعیل نگر کے نام سے موسوم ہے۔ آپ کے والد کا نام شیخ پیر بخش تھا اور یہی آپکے پہلے استاد بھی تھے۔ اس دور کے رواج کے مطابق مولانا نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی۔ پہلے فارسی اور پھر دس برس کی عمر میں ناظرہ قرآن مجید کی تعلیم مکمل کی۔ 1857 کی جنگِ آزادی کی تحریک کے وقت 14سالہ اسمٰعیل نے محسوس کر لیا تھا کہ اس وقت اس مردہ قوم کو جگانے اور جگائے رکھے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ اسی مقصد کے تحت انھوں نے دینی علوم کی تکمیل کے بعد جدیدعلوم سیکھنے پرتوجہ دی، انگریزی میں مہارت حاصل کی، انجنیئرنگ کا کورس پاس کیا، مگر ان علوم سے فراغت کے بعد اعلیٰ ملازمت حاصل کرنے کی بجائے تدریس کا معزز پیشی اختیار کیا تاکہ اس راہ سے قوم کو اپنے کھوئے ہوئے مقام تک واپس لے جانے کی کوشش کریں۔
1857ء سے پہلے اردو شاعروں نے خیالات کے میدان میں گھوڑے دوڑانے کے علاوہ کم ہی کام کیا تھا، مگر اسمٰعیل میرٹھی نے، اپنے ہمعصروں، حالی اور شبلی کی طرح اپنی شاعری کو بچوں اور بڑوں کی تعلیم و تربیت کا ذریعہ بنایا۔ مولانا نے 50 پچاس سے زیادہ نظمیں لکھی ہیں جو صرف بچوں کے لیے ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسی ہیں جن کا انہوں نے انگریزی شاعری سے ترجمہ کیا ہے مگر اس کے باوجود یہ نظمیں اپنی زبان اور بیان کے لحاظ سے انتہائی سادہ اور پر اثر ہیں۔ اردو کے علاوہ مولانا نے فارسی ریڈریں بھی ترتیب دیں اور فارسی زبان کی گرامر کی تعلیم کے لیے کتابیں لکھیں۔ مولانا کے دو ہندو دوستوں نے جو سرجن تھے، اردو میں اناٹومی اور فزیالوجی یعنی علمِ تشریح اور علم افعال الاعضا پر کتابیں لکھی تھیں۔ مولانا نے ان دوستوں کی درخواست ہر ان کتابوں پر نظرِ ثانی کی اور ان کی زبان کو ٹھیک کیا۔ اپنے روحانی استاد اور پیر کی حالات پر ایک کتاب ’’ تذکرہ غوثیہ‘‘ کے نام سے لکھی۔ دہلی کے مشہور عالم اور ادیب منشی ذ کاء اللہ نے بھی سرکاری اسکولوں کے لیے اردو ریڈروں کا ایک سلسلہ مرتب کیا تھا، ان کی ان کتابوں میں مولانا اسمٰعیل کی نظمیں شامل تھیں۔ مولانا نے جغرافیہ پر بھی ایک کتاب لکھی جو اسکولوں کے نصاب میں داخل رہی۔ مسلمانوں کے اس عظیم خدمت گزار مصلح نے 73 سال کی عمر میں یکم نومبر 1917ء کو وفات پائی۔ مولانا کی نظمیں، عنقریب پیش کی جائینگی۔
مولانا نے مدرسۃ البنات کے نام سے 1909ء میں لڑکیوں کا ایک اسکول میرٹھ میں قائم کیا، یہ درس گاہ آج بھی قائم ہے اور اس کا نام اسماعیلیہ ڈگری گرلز کالج ہے۔ ان تمام تعلیمی اور علمی مصروفیات کے باوجود آپ مسلمانوں کی سیاسی تربیت سے غافل نہیں رہے، انہی سیاسی خدمات کے پیشِ نظر انہیں 1911ء میں میرٹھ شہر کی مسلم لیگ کا نائب صدر منتخب کیا گیا تھا، اسی طرح وہ انجمن ترقی اردو کی مجلسِ شوریٰ کے رکن بھی رہے۔
سلسلہ نسب ترميم
ان کا سلسلہ نسب محمد بن ابو بکر سے جا ملتا ہے۔ ان کے کسی بزرگ نے ترکستان کے قدیم شہر خجند میں سکونت اختیار کی تھی اور وہاں سے آپ کے مورث اعلیٰ میں سے قاضی حمید الدین خجندی بادشاہ ظہیر الدین بابر کے ہمراہ ہندوستان آئے تھے۔ معروف ادیب و شاعر حضرت مولانا محمد اسماعیل میرٹھی علیہ الرحمہ جن کی نظمیں آج بھی داخل نصاب ہیں، محمد عبدالعلیم صدیقی کے والد ماجد کے چھوٹے بھائی تھے، دونوں بھائیوں کی عمروں میں 14 سال کا فرق تھا۔ - [1] ’’حیات اسماعیل‘‘ میں درج شدہ معلومات کی روشنی میں حضرت مولانا قاضی صوفی حمید الدین صدیقی خجندی علیہ الرحمہ تک، مبلغ اعظم کا شجرہ نسب یہ ہے ’’شاہ محمد عبد العلیم بن شاہ عبد الحکیم جوش بن شیخ پیر بخش بن شیخ غلام احمد بن مولانا محمد باقر بن محمد عاقل بن مولانا محمد شاکر بن مولانا عبد اللطیف بن مولانا یوسف بن مولانا داؤد بن مولانا احمد بن مولانا قاضی صوفی حمید الدین صدیقی خجندی رحمتہ اﷲ تعالیٰ علیہم‘‘ (محمد اسلم سیفی بن مولانا محمد اسماعیل میرٹھی (خ [2]
ملازمت ترميم
تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسما عیل میرٹھی نے سررشتہ تعلیم میں ملازمت اختیار کی جہاں ان کی ملاقات قلق میرٹھی سے ہوئی۔ قلق میرٹھی نے انگریزی کی پندرہ اخلاقی نظموں کا منظوم ترجمہ ’جواہر منظوم‘ کے نام سے کیا تھا۔ اس منظوم ترجمے نے اسما عیل میرٹھی کو بہت متاثر کیا، جس سے نہ صرف ان کی شاعری میں بلکہ جدید اردو نظم میں وہ انقلاب برپا ہوا کہ اردو ادب جدید نظم کے نادر خزانے سے مالامال ہو گیا۔
ادبی خدمات ترميم
یہ اشعار مولوی اسماعیل میرٹھی کے ہیں جو انھوں نے بچوں کے لیے لکھے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ صرف بچوں کے شاعر تھے۔
تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا۔ ۔۔۔ کیسی زمیں بنائی کیا آسماں بنایا
ادب سے ہی انسان انسان ہے۔ ۔۔۔ ادب جو نہ سیکھے وہ حیوان ہے
بگڑتی ہے جس وقت ظالم کی نیت۔ ۔۔۔ نہیں کام آتی دلیل اور حجت
ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں۔ ۔۔۔ ناؤ کاغذ کی کبھی چلتی نہیں
ملے خشک روٹی جو آزاد رہ کر۔ ۔۔۔ تو ہے خوف و ذلت کے حلوے سے بہتر
جو بات کہو صاف ہو ستھری ہو بھلی ہو۔ ۔۔۔ کڑوی نہ ہو کھٹی نہ ہو مصری کی ڈلی ہو
معروف نقاد پروفیسر گوپی چند نارنگ کہتے ہیں :”بچوں کا ادب اسماعیل میرٹھی کی ادبی شخصیت کا محض ایک رخ ہے۔ ان کا شمار جدید نظم کے ہئیتی تجربوں کے بنیاد گزاروں میں بھی ہونا چاہیے۔ آزاد اور حالی نے جدید نظم کے لیے زیادہ تر مثنوی اور مسدس کے فارم کو برتا تھا۔ اسماعیل نے ان کے علاہ مثلث، مربع، مخمس اور مثمن سے بھی کام لیا ہے۔ ترقی پسند شاعروں نے آزاد نظم اور نظم معرٰی کے جو تجربے کیے، ان سے بہت پہلے عبد الحلیم شرر، نظم طباطبائی اور نادر کاکوروی اور ان سے بھی پہلے اسماعیل میرٹھی ان راہوں سے کانٹے نکال چکے تھے۔ “
نئی نظم کے معمار
’’حالی اور آزاد کے ہمعصر، انّیسویں صدی کے
بہترین شاعرمولوی اسمٰعیل میرٹھی ہیں جن کی
نظمیں محاسن شاعری میں آزاد وحالی دونوں سے
بہتر ہیں‘‘
پروفیسرحامد حسین قادری
اردو کو جدید نظم سے روشناس کرانے والوں میں اسمٰعیل میرٹھی کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ 1857ء کی ناکام جنگ آزادی کے بعد سر سیّد تحریک سے عقلیت پسندی اور ذہنی بیداری کی جو فضا قائم ہوئی تھی اس میں بڑوں کے لہجہ میں باتیں کرنے والے تو بہت تھے لیکن بچّون کے لہجہ میں سامنے کی باتیں کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ اس وقت تک اردو میں جو کتابیں لکھی جا رہی تھیں وہ سماجی یا سائنسی علوم پر تھیں اور اردو زبان پڑھانے کے لئے جو کتابیں لکھی گئی تھیں وہ غیر ملکی حکام اور ان کے عملے کے لئے تھیں۔ پہلے پہل اردو کے قاعدوں اورابتدائی کتابوں کی ترتیب کا کام پنجاب میں محمد حسین آزاد نے اور ممالک متّحدہ آگرہ و اودھ میں اسمٰعیل میرٹھی نے کیا۔ لیکن بچّوں کا ادب اسمٰعیل میرٹھی کی شخصیت کا محض ایک رُخ ہے۔ وہ اردو کے ان شاعروں میں ہیں جنھوں نے جدید اردو نظم میں اوّلین ہیئتی تجربات کئے اور معریٰ نظمیں لکھیں۔
یوں تو نظم جدید کے میر کارواں کے طور پر آزاد اور حالی کا نام لیا جاتا ہے لیکن آزاد کی کاوشوں سے، انجمن تحریک پنجاب کے تحت 9 اپریل 1874ء کو منعقدہ تاریخ ساز مشاعرہ سے بہت پہلے میرٹھ میں قلق اور اسمٰعیل میرٹھی نظم جدید کے ارتقاء کے باب رقم کر چکے تھے۔ اس طرح اسمٰعیل میرٹھی کو محض بچّوں کا شاعر سمجھنا غلط ہے۔ ان کی تمام تحریروں کا خطاب بڑوں سے نہ سہی، ان کے مقاصد بڑے تھے۔ ان کی شخصیت اور شاعری کثیر الجہت تھی۔ بچوں کا ادب ہو، جدید نظم کے ہیئتی تجربات ہوں یا غزل، قصیدہ، مثنوی، رباعی، اور دوسری اصناف سخن، اسمٰعیل میرٹھی نے ہر میدان میں اپنا لوہا منوایا۔ اسمٰعیل میرٹھی کی نظموں کا اوّلین مجموعہ " ریزۂ جواہر" کے نام سے 1885ء میں طبع ہوا تھا جس میں کئی نظمیں انگریزی نظموں کا ترجمہ ہیں۔ ان کی نظموں کی زبان نہایت سلیس و سادہ ہے اور خیالات صاف اور پاکیزہ۔ وہ صوفی منش تھے اس لئے ان کی نظموں میں مذہبی رجحانات کی جھلک ملتی ہے۔ ان کا خاص مقصد اک خوابیدہ قوم کوذہنی، فکری اور عملی حیثیت سے، بدلتے ہوئے ملکی حالات سے ہم آہنگ کرنا تھا۔ اسی لئے انھوں نے بچوں کی ذہن سازی کو خاص اہمیت دی۔ ان کی خواہش تھی کہ بچے صرف علم نہ سیکھیں بلکہ وہ اپنی تہذیبی اور اخلاقی روایات سے بھی با خبر رہیں۔
اسمٰعیل میرٹھی 12 نومبر 1844ء کو میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام شیخ پیر بخش تھا۔ ان کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی جس کے بعد فارسی کی اعلی تعلیم مرزا رحیم بیگ سے حاصل کی جنھوں نے مرزا غالب کی قاطع برہان کے جواب میں ساطع برہان لکھی تھی۔ فارسی میں اچھی استعداد حاصل کرنے کے بعد وہ میرٹھ کے نارمل اسکول (ٹیچرس ٹریننگ اسکول) میں داخل ہو گئے اور وہاں سے مدرسی کی اہلیت کی سند حاصل کی۔ نارمل اسکول میں اسمٰعیل میرٹھی کو علم ہندسہ سے خاص دلچسپی تھی اس کے علاوہ اس اسکول میں انھوں نے اپنے شوق سے فزیکل سائنس اور علم ہیئت بھی پڑھا۔ اسکول سے فارغ ہو کر انھوں نے رڑکی کالج میں اوور سیئر کے کورس میں داخلہ لیا لیکن اس میں ان کا جی نہیں لگا اور وہ اسے چھوڑ کر میرٹھ واپس آ گئے اور 16 سال کی ہی عمر میں محکمۂ تعلیم میں بطور کلرک ملازمت کر لی۔ 1867ء میں ان کا تقرر سہارنپور میں فارسی کے استاد کی حیثیت سے ہو گیا جہاں انھوں نے تین سال کام کیا اور پھر میرٹھ اپنے پرانے دفتر میں آ گئے۔ 1888ء میں ان کو آگرہ کے سنرل نارمل اسکول میں فارسی کا استاد مقرر کیا گیا۔ وہیں سے وہ 1899ء میں ریٹائر ہو کر مستقل میرٹھ میں مقیم ہو گئے۔ ملازمت کے زمانہ میں ان کو ڈپٹی انسپکٹر آف اسکولز کا عہدہ پیش کیا گیا تھا لیکن انھوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ اس میں سفر بہت کرنا پڑتا ہے۔ مولانا کی صحت کبھی اچھی نہیں رہی۔ ان کو بار بار درد گردہ اور درد قولنج کی شکایت ہو جاتی تھی۔ حقّہ بہت پیتے تھے جس کی وجہ سے برانکائٹس میں بھی مبتلا تھے۔ یکم نومبر 1917ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔
اسمٰعیل ممیرٹھی کو شروع میں شاعری سے دلچسپی نہیں تھی لیکن معاصرین بالخصوص قلق کی صحبت نے انھیں شعر گوئی کی طرف مائل کیا۔ ابتدا میں کچھ غزلیں کہیں جنھیں فرضی ناموں سے شائع کرایا۔ اس کے بعد وہ نظموں کی طرف متوجہ ہوئے۔ انھوں نے انگریزی نظموں کے ترجمے کئے جن کو پسند کیا گیا۔ پھر ان کی ملاقاتوں کا سلسلہ منشی ذکاءاللہ اور محمد حسین آزاد سے چل پڑا اور اس طرح اردو میں ان کی نظموں کی دھوم مچ گئی۔ ان کی قابلیت اور ادبی خدمات کے صلے میں حکومت وقت نے ان کو "خان صاحب " کا خطاب دیا۔
اسمٰعیل میرٹھی کے کلام کے مطالعہ سے ہمیں اک ایسے ذہن کا پتہ چلتا ہے جو مخلص اور راست گو ہے۔ جو خیالی دنیا کی بجائے حقیقی دنیا میں رہنا پسند کرتا ہے۔ انھوں نے کائنات کے حسن کی تصویریں بڑی چابکدستی سے کھینچی ہیں۔ ان کے ہاں انسانی ابتلاء اور کلفتوں کے نقوش میں اک نرم دلی اور خلوص کی لہریں موجزن نظر آتی ہیں۔ وہ زندگی کی ناپائداری کے قائل ہیں لیکن اس کے حسن سے منہ موڑنے کی تلقین نہیں کرتے۔ ان کے کلام میں اک روحانی خلش اور اس کے ساتھ حزن کی اک ہلکی سی تہہ نظر آتی ہے۔ وہ خواب و خیال کی دنیا کے شاعر نہیں بلکہ اک عملی انسان تھے۔
تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا (اسماعیل میرٹھی) ترميم
تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا -----------------کیسی زمیں بنائی کیا آسماں بنایا
پاؤں تلے بچھایا کیا خوب فرش خاکی -----------------اور سر پہ لاجوردی اک سائباں بنایا
مٹی سے بیل بوٹے کیا خوش نما اگائے -----------------پہنا کے سبز خلعت ان کو جواں بنایا
خوش رنگ اور خوشبو گل پھول ہیں کھلائے -----------------اس خاک کے کھنڈر کو کیا گلستاں بنایا
میوے لگائے کیا کیا خوش ذائقہ رسیلے -----------------چکھنے سے جن کے مجھ کو شیریں دہاں بنایا
سورج بنا کے تو نے رونق جہاں کو بخشی -----------------رہنے کو یہ ہمارے اچھا مکاں بنایا
پیاسی زمیں کے منہ میں مینہ کا چوایا پانی -----------------اور بادلوں کو تو نے مینہ کا نشاں بنایا
یہ پیاری پیاری چڑیاں پھرتی ہیں جو چہکتی -----------------قدرت نے تیری ان کو تسبیح خواں بنایا
تنکے اٹھا اٹھا کر لائیں کہاں کہاں سے -----------------کس خوبصورتی سے پھر آشیاں بنایا
اونچی اڑیں ہوا میں بچوں کو پر نہ بھولیں -----------------ان بے پروں کا ان کو روزی رساں بنایا
کیا دودھ دینے والی گائیں بنائیں تو نے -----------------چڑھنے کو میرے گھوڑا کیا خوش عناں بنایا
رحمت سے تیری کیا کیا ہیں نعمتیں میسر -----------------ان نعمتوں کا مجھ کو ہے قدرداں بنایا
آب رواں کے اندر مچھلی بنائی تو نے -----------------مچھلی کے تیرنے کو آب رواں بنایا
ہر چیز سے ہے تیری کاری گری ٹپکتی -----------------یہ کارخانہ تو نے کب رائیگاں بنایا
{{= ہماری گائے(اسماعیل میرٹھی) =
رب کا شکر ادا کر بھائی ------جس نے ہماری گائے بنائی
اس مالک کو کیوں نہ پکاریں ------جس نے پلائیں دودھ کی دھاریں
خاک کو اس نے سبزہ بنایا ------سبزے کو پھر گائے نے کھایا
کل جو گھاس چری تھی بن میں ------دودھ بنی اب گائے کے تھن میں
سبحان اللہ دودھ ہے کیسا ------تازہ گرم سفید اور میٹھا
دودھ میں بھیگی روٹی میری ------اس کے کرم نے بخشی سیری
دودھ دہی اور میٹھا مسکا ------دے نہ خدا تو کس کے بس کا
گائے کو دی کیا اچھی صورت ------خوبی کی ہے گویا مورت
دانہ دنکا بھوسی چوکر ------------کھا لیتی ہے سب خوش ہو کر
کھا کر تنکے اور ٹھیٹھرے ------دودھ ہے دیتی شام سویرے
کیا ہی غریب اور کیسی پیاری ------صبح ہوئی جنگل کو سدھاری
سبزے سے میدان ہرا ہے ------جھیل میں پانی صاف بھرا ہے
پانی موجیں مار رہا ہے ------چرواہا چمکار رہا ہے
پانی پی کر چارا چر کر ------شام کو آئی اپنے گھر پر
دوری میں جو دن ہے کاٹا ------بچے کو کس پیار سے چاٹا
گائے ہمارے حق میں ہے نعمت ------دودھ ہے دیتی کھا کے بنسپت
بچھڑے اس کے بیل بنائے ------جو کھیتی کے کام میں آئے
رب کی حمد و ثنا کر بھائی ------جس نے ایسی گائے بنائی
مقبولیت ترميم
ان لوگوں نے اس وقت اردو زبان و ادب کی آبیاری کی جب فارسی زبان و ادب کا بول بالا تھا۔ مدارس میں فارسی کتابوں کا چلن تھا اور گھروں میں صرف انفرادی طور پر اردو کی تعلیم ہوتی تھی۔ اس وقت بچوں کی تدریسی ضرورتوں کا ادراک کرتے ہوئے جس شخص نے باقاعدہ بچوں کے ادب کی طرف توجہ دی وہ مولوی اسما عیل میرٹھی تھے۔ انھوں نے نظمیں بھی لکھیں اور پہلی سے پانچویں جماعت تک کے لیے اردو کی درسی کتابیں بھی تصنیف کیں۔ ابتدائی جماعتوں کے لیے اردو زبان کا قاعدہ بھی مرتب کیا۔ انھوں نے قواعد و زبان پر بھی کئی کتابیں تصنیف کیں۔ انھوں نے لوئر پرائمری، اپر پرائمری اور مڈل جماعتوں کے لیے علاحدہ درسی کتابیں تیار کیں۔ جن میں بچوں کی نفسیات کے مطابق اسباق شامل کرتے ہوئے ان کی عمروں کا بھی خاص خیال رکھا گیا۔ ان کی درسی کتابیں ہزاروں مدارس اور اردو میڈیم اسکولوں کے نصاب میں شامل ہیں۔
ذاتی زندگی ترميم
اسماعیل میرٹھی کی شادی شیخ محبوب بخش کی بیٹی بی بی نعیم النسا سے 1862ء میں ہوئی تھی۔ جوڑے کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ [3][4]
اعزازات ترميم
سماعیل میرٹھی کو 1912ء میں برطانوی حکومت سے ان کی ادبی اور تعلیمی شراکت کے لیے "خان صاحب" کا خطاب ملا۔ [5][6][7]
وفات ترميم
اسماعیل میرٹھی نے 73 سال کی عمر میں یکم نومبر 1917ء کو میرٹھ میں انتقال کیا۔ [8][6][9]
حوالہ جات ترميم
- ↑ "آرکائیو کاپی". 13 اپریل 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 07 اپریل 2013.
- ↑ "آرکائیو کاپی". 13 اپریل 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 07 اپریل 2013.
- ↑ Qadri، Syed Fazalullah (14 جولائی 2021). "مولانا اسماعیل میرٹھی بچوں کے ساتھی۔.۔.". Sada e Waqt.
- ↑ Aleem، Dr. Shadab. جدید شاعری کا نقطہ آغاز (ایڈیشن 2010). Educational Publishing House, Delhi-6. صفحات 13–51. ISBN 978-81-8223-824-4.
- ↑ Sheikh، Tehreem. "اسماعیل میرٹھی". Urdu Notes. اخذ شدہ بتاریخ 8 جون 2022.
- ^ ا ب "Profile of Ismail Merathi". rekhta. اخذ شدہ بتاریخ 8 جون 2022.
- ↑ Qasmi، Tanveer Khalid. "ادب گرو ادیب ساز مولوی اسماعیل میرٹھی". Qindeel. اخذ شدہ بتاریخ 9 جون 2022.
- ↑ "اسماعیل میرٹھی کی برسی". Urdu e Mualla.
- ↑ "مشہور ادیب اور شاعر مولوی محمد اسماعیل میرٹھی کا یومِ وفات". ARY News. 1 نومبر 2020.