نظم طباطبائی
پروفیسر سید علی حیدر المعروف نظم طباطبائی (پیدائش: 29 نومبر 1852ء – وفات: 23 مئی 1933ء) اردو زبان کے نامور شاعر، اردو و فارسی جید عالم، تاجدار اودھ نواب واجد علی شاہ کے اتالیق، کلامِ غالب کے شارح اور نظام کالج ریاست حیدرآباد میں پروفیسر تھے۔ شرح دیوان غالب ان کا سب بڑا کارنامہ مانا جاتا ہے۔
نظم طباطبائی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 29 نومبر 1852ء لکھنؤ ، اتر پردیش ، برطانوی ہند |
وفات | 23 مئی 1933ء (81 سال) ریاست حیدرآباد |
شہریت | برطانوی ہند |
عملی زندگی | |
پیشہ | پروفیسر ، شاعر |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
حالات زندگی
ترمیمنظم طباطبائی 29 نومبر 1852ء کو لکھنؤ، اتر پردیش، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔[1][2][3] عربی، فارسی اور صرف و نحو کی تعلیم کے ساتھ ساتھ عروض و بلاغت کا درس بھی حاصل کیا۔ اپنی ذہانت و قابلیت کے سبب شاہ اودھ کی اتالیقی کے لیے منتخب ہوئے اور مٹیا برج چلے گئے۔ نواب واجد علی شاہ کے انتقال کے بعد 4 فروری 1891ء کو ریاست حیدرآباد میں نظام کالج میں پروفیسر مقرر ہوئے۔ تیس سال کی ملازمت کے بعد کالج سے وظیفہ یاب ہوئے اور نظام دکن کے ولی عہد کی تعلیم کے لیے ان کا انتخاب ہوا۔ سرکارنظام حیدرآباد نے نواب حیدر جنگ کا خطاب عطا کیا۔ اس درمیان جامعہ عثمانیہ کا قیام عمل میں آیا تو ناظر ادبی کی حیثیت سے دارالترجمہ سے منسلک ہو گئے۔ یہاں علمی اصطلاحوں کی تشکیل و توضیح میں ان کی کام نمایاں رہا۔ طباطبائی کی شاعری قدیم اور جدید خیالات کا مجموعہ ہے۔ غزل گوئی سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی مگر روزمرہ محاوروں کے استعمال کا ان کی غزلوں میں اہتمام ملتا ہے۔ ان تخلیقات میں دیوان طباطبائی ،اصطلاحات غالب اور دیوان غالب طباطبائی شامل ہیں۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ شرح دیوان غالب ہے۔ نظم طباطبائی نے انگریزی شاعری کے منظوم اردو تراجم بھی کیے۔ انھوں نے مشہور انگریزی شاعر تھامس گرے کی نظم Elegy Written in a Country Churchyard کا اردو ترجمہ گور غریباں کے نام سے کیا جو ایک کلاسک کی حیثیت رکھتا ہے۔[1]
نمونۂ کلام
ترمیمغزل
کس لیے پھرتے ہیں یہ شمس و قمر دونوں ساتھ | کس کو یہ ڈھونڈتے ہیں برہنہ سر دونوں ساتھ | |
کیسی یارب یہ ہوا صبح شب وصل چلی | بجھ گیا دل مرا اور شمع سحر دونوں ساتھ | |
بعد میرے نہ رہا عشق کی منزل کا نشاں | مٹ گئے راہرو و راہ گزر دونوں ساتھ | |
اے جنوں دیکھ اسی صحرا میں اکیلا ہوں میں | رہتے جس دشت میں ہیں خوف و خطر دونوں ساتھ | |
مجھ کو حیرت ہے شب عیش کی کوتاہی پر | یا خدا آئے تھے کیا شام و سحر دونوں ساتھ | |
اس نے پھیری نگۂ ناز یہ معلوم ہوا | کھنچ گیا سینے سے تیر اور جگر دونوں ساتھ | |
غم کو دی دل نے جگہ دل کو جگہ پہلو نے | ایک گوشے میں کریں گے یہ بسر دونوں ساتھ | |
ناز بڑھتا گیا بڑھتے گئے جوں جوں گیسو | بلکہ لینے لگے اب زلف و کمر دونوں ساتھ | |
بات سننا نہ کسی چاہنے والے کی کبھی | کان میں پھونک رہے ہیں یہ گہر دونوں ساتھ | |
آندھیاں آہ کی بھی اشک کا سیلاب بھی ہے | دیتے ہیں دل کی خرابی کی خبر دونوں ساتھ | |
کیا کہوں زہرہ و خورشید کا عالم اے نظمؔ | نکلے خلوت سے جوں ہی وقت سحر دونوں ساتھ[4] |
غزل
مجھ کو سمجھو یادگار رفتگان لکھنؤ | ہوں قد آدم غبار کاروان لکھنؤ | |
خون حسرت کہہ رہا ہے داستان لکھنؤ | رہ گیا ہے اب یہی رنگیں بیان لکھنؤ | |
گوش عبرت سے سنے کوئی مری فریاد ہے | بلبل خونیں نوائے بوستان لکھنؤ | |
میرے ہر آنسو میں اک آئینۂ تصویر ہے | میرے ہر نالہ میں ہے طرز فغان لکھنؤ | |
ڈھونڈھتا ہے اب کسے لے کر چراغ آفتاب | کیوں مٹایا اے فلک تو نے نشان لکھنؤ | |
اب نظر آتا نہیں وہ مجمع اہل کمال | کھا گئے ان کو زمین و آسمان لکھنؤ | |
مرثیہ گو کتنے یکتائے زمانہ تھے یہاں | کوئی تو اتنوں میں ہوتا نوحہ خوان لکھنؤ | |
عہد پیرانہ سری میں کیوں نہ شیریں ہو سخن | بچپنے میں میں نے چوسی ہے زبان لکھنؤ | |
بوئے انس آتی ہے حیدرؔ خاک مٹیا برج سے | جمع ہیں اک جا وطن آوارگان لکھنؤ [5] |
وفات
ترمیمنظم طباطبائی 23 مئی 1933ء کو ریاست حیدرآباد میں انتقال کر گئے۔[1][2]
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب پ جامع اردو انسائیکلوپیڈیا (جلد اول) ادبیات، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی، 2003ء، صفحہ 554
- ^ ا ب نظم طباطبائی، بائیو ببلوگرافی ڈاٹ کام، پاکستان
- ↑ ادریس صدیقی، اردو شاعری کا تنقیدی جائزہ ، سرسید بُک کمپنی کراچی، 1971ء، ص 532- 531
- ↑ کس لیے پھرتے ہیں یہ شمس و قمر دونوں ساتھ (غزل)، نظم طباطبائی، ریختہ ویب، بھارت
- ↑ مجھ کو سمجھو یادگار رفتگان لکھنؤ (غزل)، نظم طباطبائی، ریختہ ویب، بھارت