اقبال عظیم
اردو زبان کے نابینا شاعر، محقق اور شارح۔
پروفیسر اقبال عظیم بینائی سے محروم محقق، ادیب، شاعر[2]ہیں۔[3]
اقبال عظیم | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 8 جولائی 1913ء [1] میرٹھ |
وفات | 22 ستمبر 2000ء (87 سال) کراچی |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر ، نعت خواں ، محقق |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
درستی - ترمیم |
نام
ترمیمنام سید اقبال احمد قلمی نام اقبال عظیم والد سید مقبول عظیم عرش ہیں۔
ولادت
ترمیم8 جولائی 1913ء میں یہ شاعر اور ادیب میرٹھ بھارت میں پیدا ہوئے۔
مختصر حالات زندگی
ترمیملکھنؤ یونیورسٹی سے بی اے اور آگرہ یونیورسٹی سے ایم۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔ ہندی اور بنگلہ کے اعلیٰ امتحانات پاس کیے۔ ساڑھے گیارہ سال یوپی کے سرکاری مدارس میں معلمی کی۔ جولائی 1950ء میں مشرقی پاکستان آئے اور تقریباً بیس سال سرکاری ڈگری کالجوں میں پروفیسر اور صدر شعبہ اردو کی حیثیت سے کام کیا۔ اپریل 1970ء میں بینائی زائل ہونے کے سبب اپنے اعزہ کے پاس کراچی آ گئے۔
وفات
ترمیماقبال عظیم کی وفات22 ستمبر 2000ء کو کراچی(سندھ)، پاکستان میں ہوئی
تصانیف
ترمیم- مضراب (1975ء) غزلوں کے مجموعہ
- لب کشا نعتوں کا مجموعہ
- قاب قوسین ،کراچی،ایوانِ اُردو،جون 1977ء، 136 ص نعتوں کا مجموعہ ہے۔
- مشرقی بنگال میں اردو آپ کی نثری تصنیف ہے۔ جس میں بنگال کی دو سو سالہ لسانی اور ادبی تاریخ کا جائزہ لیاگیا ہے۔
- حکیم ناطق مرتب کردہ دیوان ہے
- بوئے گُل شاعری
- نثر وحشت
- زبور حرم کلیات نعت
- محاصل ناشر،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس۔ دہلی، 1987ء (شعری کلیات)
- مضراب و رباب شاعری
- نادیدہ شاعری
- چراغ ِآخری شب شاعری
- سات ستارے سوانح [4]
نمونۂ کلام
ترمیمنعت
ترمیم- فاصلوں کو تکلف ہے ہم سے اگر ، ہم بھی بے بس نہیں ، بے سہارا نہیں
- خود اُنھی کو پُکاریں گے ہم دُور سے ، راستے میں اگر پاؤں تھک جائیں گے
- ہم مدینے میں تنہا نکل جائیں گے اور گلیوں میں قصداً بھٹک جائیں گے
- ہم وہاں جا کے واپس نہیں آئیں گے ، ڈھونڈتے ڈھونڈتے لوگ تھک جائیں گے
- جیسے ہی سبز گنبد نظر آئے گا ، بندگی کا قرینہ بدل جائے گا
- سر جُھکانے کی فُرصت ملے گی کِسے ، خُود ہی پلکوں سے سجدے ٹپک جائیں گے
- نامِ آقا جہاں بھی لیا جائے گا ، ذکر اُن کا جہاں بھی کیا جائے گا
- نُور ہی نُور سینوں میں بھر جائے گا ، ساری محفل میں جلوے لپک جائیں گے
- اے مدینے کے زائر خُدا کے لیے ، داستانِ سفر مُجھ کو یوں مت سُنا
- بات بڑھ جائے گی ، دل تڑپ جائے گا ، میرے *محتاط آنسُو چھلک جائیں گے
- اُن کی چشمِ کرم کو ہے اس کی خبر ، کس *مُسافر کو ہے کتنا شوقِ سفر
- ہم کو اقبالؔ جب بھی اجازت ملی ، ہم بھی آقا کے دربار تک جائیں گے
نعت
ترمیم- مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ
- جبیں افسردہ افسردہ قدم لغزیدہ لغزیدہ
- چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانبِ طیبہ
- نظر شرمندہ شرمندہ بدن لرزیدہ لرزیدہ
- کسی کے ہاتھ نے مجھ کو سہارا دے دیا ورنہ
- کہاں میں اور کہاں یہ راستے پیچیدہ پیچیدہ
- کہاں میں اور کہاں اس روضہ اقدس کا نظارہ
- نظر اس سمت اٹھتی ہے مگر دزدیدہ دزدیدہ
- غلامانِ محمدؐ دور سے پہچانے جاتے ہیں
- دلِ گرویدہ گرویدہ سرِ شوریدہ شوریدہ
- مدینے جا کے ہم سمجھے تقدس کس کو کہتے ہیں
- ہوا پاکیزہ پاکیزہ فضا سنجیدہ سنجیدہ
- بصارت کھو گئی لیکن بصیرت تو سلامت ہے
- مدینہ ہم نے دیکھا ہے مگر نادیدہ نادیدہ
- وہی اقبال جس کو ناز تھا کل خوش مزاجی پر
- فراقِ طیبہ میں رہتا ہے اب رنجیدہ رنجیدہ
- مدینے کا سفر ہے اور میں نمدیدہ نمدیدہ
- جبیں افسرہ افسردہ قدم لرزیدہ لرزیدہ
حوالہ جات
ترمیم- ↑ https://www.rekhta.org/authors/iqbal-azeem
- ↑ "پروفیسر اقبال عظیم کا تذکرہ جن کا نعتیہ کلام بہت مقبول ہوا"۔ web.archive.org۔ 2024-09-22۔ 22 ستمبر 2024 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 اکتوبر 2024
- ↑ "اقبال عظیم کی غزلیات کا موضوعاتی مطالعہ"۔ jang.com.pk۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 اکتوبر 2024
- ↑ Bio-bibliography.com - Authors