التوائے مرگ
التوائے مرگ ((پرتگالی: As Intermitências da Morte)) ایک ناول ہے جسے حوزے سارا ماگو نے لکھا اور مبشر احمد میر نے اردو قالب میں ڈھالا۔ پہلی بار اشاعت 2005ء میں پرتگیزی زبان میں ہوئی۔ 2008ء میں مارگریٹ حل کوسٹا نے اس کا انگریزی ترجمہ کیا۔[1]
پہلا اردو ایڈیشن | |
مصنف | حوزے سارا ماگو |
---|---|
اصل عنوان | As Intermitências da Morte |
مترجم | مبشر احمد میر |
ملک | پاکستان |
زبان | اردو |
ناشر | اکادمی ادبیات پاکستان |
تاریخ اشاعت | 2017ء |
تاریخ اشاعت انگریری | 2008 |
صفحات | 176 |
ناول کا مرکزی خیال ہے موت بطور واقعہ اور بطور کردار، دونوں طرح سے دکھائی گئی ہے۔ اس کتاب کا اہم پہلو یہ ہے کہ معاشرہ موت کے دونوں پہلوؤں کو کیسے دیکھتا ہے اور یہ بھی کہ موت نے جن لوگوں کو مارنا ہے، ان کے ساتھ کیسا سلوک کرتی ہے۔
پلاٹ کا خلاصہ
ترمیماس کتاب میں چاروں طرف سے خشکی میں گھرے نامعلوم ملک کے بارے بات کی گئی ہے جو ماضی کے کسی وقت سے متعلق ہے۔ حیران کن طور پر یکم جنوری کو نصف شب کے وقت سے اس ملک میں کوئی انسان نہیں مرے گا۔ شروع شروع میں سارے ملکی افراد نے زندگی کے سب سے بڑے دشمن سے پیچھا چھڑانے پر بہت خوشیاں منائیں۔ پہلے پہل روایتی طور پر یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ لوگ کیسے موت سے بچ نکلے۔ مذہبی حکام، فلسفی اور علما بھی اس کا جواب نہ تلاش کر پائے۔ کاتھولک کلیسیا اس سے بہت پریشان ہوا کہ یہ ان کے بنیادی عقائد کے خلاف ہے کہ یسوع مسیح کی موت اور ان کا دوبارہ ظہو اور رستخیز بے معنی ہو کر رہ جائے گا۔ عام شہری ابدی زندگی سے لطف اندوز ہونے لگے۔
تاہم یہ خوشی قلیل مدتی ثابت ہوئی کہ لافانی زندگی کی وجہ سے آبادی اور معاشی مسائل پیدا ہونے لگے۔ جونہی لوگ مرنا بند ہوئے، نظامِ صحت کے کارکنوں میں یہ خوف بڑھنے لگا کہ معمر افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد جو زندہ تو رہیں گے مگر ان کا وقت ہسپتالوں اور دیگر کیئر ہومز جیسی جگہوں پر شاید ہمیشہ کے لیے رہے گا۔ تدفین سے وابستہ کاروباری افراد کا کاروبار ٹھپ ہو جائے گا اور شاید انھیں مرنے والے جانوروں کی تدفین وغیرہ پر توجہ دینی پڑ جائے۔
لوگوں کو آخرکار مارنے اور ان کے خاندان کے سر سے ناکارہ افراد کا بوجھ ہٹانے کا طریقہ ایک زیرِ زمین خفیہ تنظیم Maphia دریافت کر لیتی ہے۔ ایسے ناکارہ افراد کو وہ اٹھا کر ملک کی سرحد پر لے آتے ہیں جہاں پہنچ کر وہ افراد فوراً مر جاتے ہیں کہ موت نے باقی دنیا میں اپنا کام جاری رکھا ہوتا ہے۔ حکومت اس تنظیم کی بہت شکر گزار ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس کے تعلقات ہمسائیہ ممالک سے جنگ کی نہج تک پہنچ جاتے ہیں۔
کچھ عرصے بعد موت پھر نمودار ہوتی ہے۔ اس بار اس نے ایک خاتون کی شکل اختیار کی ہوتی ہے۔ وہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے یہ اعلان کرتی ہے کہ اس کا تجربہ پورا ہوا اور اب لوگ پھر سے مرنا شروع ہو جائیں گے۔ تاہم اس بار موت نے مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر مرنے والے شخص کو ایک ہفتہ قبل خط بھیج کر مطلع کرنا شروع کر دیا تاکہ لوگ مرنے کو تیار ہو جائیں۔ اب یہ جامنی رنگ کے لفافے ہیجان کا سبب بننے لگے کہ لوگوں کو دوبارہ مرنے کی عادت نہیں پڑی اور اب تو انھیں باقاعدہ خط سے اس کی اطلاع ملنا شروع ہو گئی تھی۔
یہاں سے کہانی عجیب موڑ لیتی ہے اور ایک عام سا موسیقار کہانی میں داخل ہوتا ہے جو مرتا نہیں۔ ہر بار جب موت اسے خط بھیجتی ہے تو خط لوٹ آتا ہے۔ موت کو پتہ چلتا ہے کہ کسی غلطی سے یہ بندہ مرنے سے رہ جاتا ہے۔ پہلے پہل موت اس شخص کا تجزیہ کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ وہ اتنا منفرد کیوں ہے مگر بعد ازاں موت کو اتنی الجھن ہو جاتی ہے کہ وہ اسے انسانی شکل میں ملنے کو تیار ہو جاتی ہے۔ اس کا ارادہ تھا کہ انسانی شکل میں ذاتی طور پر مل کر وہ اسے خط تھما دے گی۔ مگر ملتے ہی اسے محبت ہو جاتی ہے اور زیادہ انسانیت پسند بن جاتی ہے۔ اس کتاب کا آخری جملہ پہلے جملے کی مانند تھا کہ ‘اگلے روز کوئی نہیں مرا‘۔
انداز
ترمیمدیگر کتب کی مانند اس کتاب میں بھی ساراماگو نے گرامر اور رموزِ اوقاف پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ اس کے علاوہ اقتباس کے لیے بھی اس نے رموزِ اوقاف کی بجائے انداز پر توجہ دی ہے۔ اس کے علاوہ لوگوں کے نام کے پہلے حرف کو بڑا لکھنے سے بھی احتراز کیا ہے اور اصل کردار موت یعنی ڈیتھ کو اس نے چھوٹی ڈی سے لکھا ہے۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Max، D. T. (24 اکتوبر 2008)۔ "Stay of Execution"۔ نیو یارک ٹائمز۔ اخذ شدہ بتاریخ 2009-01-30