اللہ یار خان
مولانا اللہ یار خان پاکستانی سنی عالم دین،مناظر،محقق ومصنف اور سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کے شیخ طریقت تھے۔ انھوں نے اپنی حیات کا بیشتر حصہ صحابہ کرام کی عظمت کے پرچارودفاع اور تصوف وسلوک میں گزارا۔ آپ شغف علم وعمل اور فن مناظرہ میں مہارت کاملہ رکھتے تھے۔[1]
اللہ یار خان | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | اللہ یار |
پیدائش | 1904ء موضع چکڑالہ ،ضلع میانوالی ،پنجاب |
وفات | 1984ء اسلام آباد |
قومیت | برطانوی ہند پاکستان |
عرفیت | مولانامحمد اللہ یار خان چکڑالوی |
مذہب | اسلام |
رشتے دار | محمد اکرم اعوان (خلیفہ) |
عملی زندگی | |
مادر علمی | دار العلوم دیوبند |
پیشہ | شیخ طریقت،محقق،مصنف |
کارہائے نمایاں | تصانیف: تحذیر المسلمین عن کید الکذبین،سیف اویسیہ،دلائل السلوک |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
اللہ یار خان اعوان خاندان سے تعلق رکھتے تھے ،ملک ساہو خان‘ قطب حیدر اور سالار غازی مسعود نے سلطان محمود غزنوی کے ساتھ مل کر سومنات فتح کیا‘ ان کی اولاد میں اللہ یار خان ظہور پزیر ہوئے۔
ولادت
ترمیماللہ یار خان 1323ھ یا 1322ھ / 1904ء کو موضع چکڑالہ ضلع میانوالی کے زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔
نام ونسب
ترمیموالد کا نام ذو الفقار تھا جو خاندان کے دیگر افراد کی طرح کاشتکاری کے پیشہ سے وابستہ تھے۔ والدہ کا نام عالم خاتون تھا۔ آپ کا خاندان چکڑالہ کے شمال میں اڑھائی تین میل کے فاصلہ پر ایک چھوٹے سے ڈیرے پر قیام پزیر تھا۔ جہاں پر آپ کا بچپن کھیتی باڑی کے امور میں والد کا ہاتھ بٹاتے ہوئے گذرا۔
تعلیم و تربیت
ترمیمپانچویں تک کا نصاب ختم کرنے کے بعد آپ نے دیگر علوم مروجہ کی طرف توجہ مبذول فرمائی۔ اس دور میں باقاعدہ مدارس نہیں تھے۔ کسی گاؤں میں کسی فن میں کمال رکھنے والے استاد کے پاس جا کر طلبہ وہ فن سیکھتے ‘ ان کتابوں کی تکمیل کے بعد کسی اور کے پاس حاضر ہو جاتے۔ آپ نے بھی علم کی جستجو میں مسجد خواجگان ڈلوال‘ چکوال کے قریب انے والا موہڑہ‘ لنگر مخدوم کے قریب چک نمبر 10 بھلوال جیسی کئی جگہوں پررہ کر صرف ونحو‘ فلسفہ ومنطق ‘ عربی علوم وفارسی کی نہ صرف تحصیل کی بلکہ ان میں کمال حاصل کیا۔ مختلف اساتذہ سے استفادہ کے بعد آپ مدرسہ امینیہ دہلی دورہ حدیث کے لیے تشریف لے گئے۔ علوم دینیہ کی تکمیل کے بعد آپ نے علم طب کی کتابیں پڑھیں
تصنیفات
ترمیمتفسیر‘ حدیث‘ فقہ واصول فقہ‘ ادب ولغت‘ عربیت اور کلام وغیرہ تمام علوم دینیہ آپ کی توجہات کا خاص مرکز رہے۔ کئی تحقیقی تصانیف منظر عام پر آئیں ‘ مثلاً
- تحذیر المسلمین عن کید الکاذبین
- الدین الخاص
- ایمان بالقرآن
- تحقیق حلال وحرام
- الجمال والکمال
- نفاذ شریعت وفقہ جعفریہ
- حیات بزرخیہ
- حیات النبی علیہ وسلم
- اسرار الحرمین
- دلائل السلوک
- سیف اویسیہ آپ کی یادگار تصانیف ہیں۔
ذریعہ معاش
ترمیممولانا کی ملازمت کا آغاز میانوالی پولیس میں تعیناتی سے ہوا لیکن طبعی میلان کچھ اور ہی تھا۔ اس لیے وہ نوکری چھوڑ دی۔ پھر پشاور جیل کے عملے میں شامل ہو گئے لیکن وہاں کے ہندو داروغہ سے اس لیے نہ بنی کہ وہ راشی اور قیدیوں کو ملنے والی رقم غبن کرتا تھا۔ آپ نے تعاون نہ کیا اور اس ملازمت سے بھی سبکدوش ہو گئے اس کے بعد آپ نے کوئی ملازمت نہ کی۔
ازدواجی زندگی
ترمیممولانا نے تین عقد فرمائے۔ آپ کی اولاد دو صاحبزادوں اور دو صاحبزادیوں پر مشتمل ہے۔
وفات
ترمیم15 جمادی الاول 1404ھ بمطابق 18 فروری 1984ء بروز سنیچر اسلام آباد میں آپ نے رحلت فرمائی۔[2]