سورۃ المائدہ مدنی سورۃ ہے جبکہ اِس کی آیت نمبر 3 حجۃ الوداع کے موقع پر عرفات کے مقام پر نازل ہوئی تھی۔

حُرِّمَت عَلَيكُمُ المَيتَةُ وَالدَّمُ وَلَحمُ الخِنزيرِ وَما أُهِلَّ لِغَيرِ اللَّهِ بِهِ وَالمُنخَنِقَةُ وَالمَوقوذَةُ وَالمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطيحَةُ وَما أَكَلَ السَّبُعُ إِلّا ما ذَكَّيتُم وَما ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَن تَستَقسِموا بِالأَزلامِ ۚ ذٰلِكُم فِسقٌ ۗ اليَومَ يَئِسَ الَّذينَ كَفَروا مِن دينِكُم فَلا تَخشَوهُم وَاخشَونِ ۚ اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتي وَرَضيتُ لَكُمُ الإِسلامَ دينًا ۚ فَمَنِ اضطُرَّ في مَخمَصَةٍ غَيرَ مُتَجانِفٍ لِإِثمٍ ۙ فَإِنَّ اللَّهَ غَفورٌ رَحيمٌ

ترجمہ

ترمیم

تم پر حرام کیا گیا مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور جس پر اللہ کے سواء دوسرے کا نام پکارا گیا ہو اور جو گلا گھٹ جانے سے مرا ہو اور جو کسی ضرب سے مرگیا ہو اور جو اُونچی جگہ سے گر کر مرا ہو اور جو کسی کے سینگ مارنے سے مرا ہو اور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو، لیکن اُسے تم ذبح کر ڈالو تو حرام نہیں اور جو آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو اور یہ بھی کہ قرعہ کے تیروں سے ذریعے فال گیری کرو، یہ سب بدترین گناہ ہیں۔ آج کفار تمھارے دِین سے نا اُمید ہو گئے، خبردار تم اُن سے نہ ڈرنا اور مجھ سے ڈرتے رہنا، آج میں نے تمھارے لیے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا اِنعام بھرپور کر دیا اور تمھارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہو گیا۔ پس جو شخص شدت کی بھوک میں بے قرار ہو جائے بشرطیکہ کسی گناہ کی طرف اُس کا میلان نہ تو یقیناً اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور بہت بڑا مہربان ہے O

مقام نزول

ترمیم

امام ابن جریر طبری نے حضرت قتادہ سے یہ قول نقل کیا ہے کہ ہمارے سامنے یہ ذکر کیا گیا ہے کہ : یہ آیت عرفہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی۔ یہ جمعہ کا دن تھا جب اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کو مسجد الحرام سے دور کر دیا اور حج مسلمانوں کے لیے خالص کر دیا۔[1] امام عبد بن حمید نے امام شعبی سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت اُس وقت نازل ہوئی جب آپ مقام عرفات میں تھے۔ جب آپ کویہ آیات پسند آئیں تو آپ نے انھیں سورت المائدہ کے آغاز میں رکھ دیا اور فرمایا: جبرئیل امین تعلیم دے رہے تھے کہ کیسے حج کیا جائے۔[2]

امام حمیدی، امام احمد بن حنبل، امام بخاری، امام مسلم، امام ترمذی، امام نسائی، امام ابن جریر طبری، امام ابن منذر، امام ابن حبان، امام بیہقی نے اپنی تصانیف یعنی سنن میں حضرت طارق بن شہاب سے روایت نقل کی ہے کہ یہودیوں نے حضرت عمر بن خطاب سے عرض کی: آپ اپنی کتاب میں ایک آیت پڑھتے ہیں، اگر وہ آیت ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اُس دن کو عید بنا لیتے۔ حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا: وہ کونسی آیت ہے؟ تو انھوں نے یہ آیت تلاوت کی۔ حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں اُس دن کو خوب جانتا ہوں جس میں یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی، جس گھڑی میں وہ نازل ہوئی، اُسے بھی جانتا ہوں۔ یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جمعہ کے دن یوم عرفہ کو نازل ہوئی۔[2]

امام ابن جریر طبری اور امام طبرانی نے حضرت عمرو بن قیس سکونی سے روایت نقل کی ہے کہ انھوں نے حضرت معاویہ بن ابی سفیان کو منبر پر بیٹھ کر اِس آیت کو مشکل سے پڑھتے ہوئے سنا، یہاں تک کہ انھوں نے اِس آیت کو ختم کر لیا۔ پھر فرمایا: یہ آیت 9 ذوالحجہ جمعہ کے دن نازل ہوئی۔[3][4]

امام بزار، امام طبرانی اور ابن مردویہ نے حضرت سمرہ سے روایت نقل کی ہے کہ: یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی جبکہ آپ مقام عرفات میں جمعہ کے روز وقوف کیے ہوئے تھے۔[4][5]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. ابن جریر طبری: تفسیر طبری، جلد 6، صفحہ 96، سورہ المائدہ، آیت 3۔ مطبوعہ لاہور۔
  2. ^ ا ب جلال الدین السیوطی: الدر المنثور، جلد 2، صفحہ 706، سورہ المائدہ، آیت 3۔ مطبوعہ لاہور۔
  3. امام طبرانی: المعجم الکبیر، جلد 19، صفحہ 392۔ مطبوعہ مکتبۃ العلوم والحکم، بیروت، لبنان
  4. ^ ا ب جلال الدین السیوطی: الدر المنثور، جلد 2، صفحہ 708، سورہ المائدہ، آیت 3۔ مطبوعہ لاہور۔
  5. امام طبرانی: المعجم الکبیر، جلد 7، صفحہ 220۔ مطبوعہ مکتبۃ العلوم والحکم، بیروت، لبنان۔