سورہ الممتحنہ

قرآن مجید کی 60 ویں سورت
(الممتحنہ سے رجوع مکرر)

قرآن مجید کی 60 ویں سورت جس کے 2 رکوع میں 13 آیات ہیں۔

الممتحنہ
دور نزولمدنی
زمانۂ نزولصلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے درمیان
اعداد و شمار
عددِ سورت60
عددِ پارہ28
تعداد آیات13


نام

اس سورت کی آیت نمبر 10 میں حکم دیا گیا ہے کہ جو عورتیں ہجرت کر کے آئیں اور مسلمان ہونے کا دعویٰ کریں ان کا امتحان لیا جائے۔ اسی مناسبت سے اس کا نام الممتحنہ رکھا گیا ہے۔ اس کا تلفظ مَمتَحَنہ بھی کیا جاتا ہے اور مَمتَحِنہ بھی۔ پہلے تلفظ کے لحاظ سے معنی ہیں "وہ عورت جس کا امتحان لیا جائے " اور دوسرے تلفظ کے معنی ہیں "امتحان لینے والی سورت"۔

زمانۂ نزول

اس میں دو ایسے معاملات پر کلام فرمایا گیا ہے جن کا زمانہ تاریخی طور پر معلوم ہے۔ پہلا معاملہ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کا ہے جنھوں نے فتح مکہ سے کچھ مدت پہلے ایک خفیہ خط کے ذریعہ سے قریش کے سرداروں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس ارادے کی اطلاع بھیجی تھی کہ آپ ان پر حملہ کرنے والے ہیں اور دوسرا معاملہ ان مسلمان عورتوں کا ہے جو صلح حدیبیہ کے بعد مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آنے لگی تھیں اور ان کے بارے میں یہ سوال پیدا ہو گیا تھا کہ شرائطِ صلح کی رو سے مسلمان مردوں کی طرح کیا ان عورتوں کو بھی کفار کے حوالے کر دیا جائے؟ ان دو معاملات کے ذکر سے یہ بات قطعی طور پر متعین ہو جاتی ہے کہ یہ سورت صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے درمیانی دور میں نازل ہوئی ہے۔ ان کے علاوہ ایک تیسرا معاملہ بھی ہے جس کا ذکر سورت کے آخر میں آیا ہے اور وہ یہ کہ جب عورتیں ایمان لا کر بیعت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں تو آپ ان سے کن باتوں کا عہد لیں۔ اس حصے کے متعلق بھی قیاس یہی ہے کہ یہ بھی فتح مکہ کے کچھ پہلے نازل ہوا ہے کیونکہ فتح مکہ کے بعد قریش کے مردوں کی طرح ان کی عورتیں بھی بہت بڑی تعداد میں بیک وقت داخل اسلام ہونے والی تھیں اور اسی موقع پر یہ ضرورت پیش آئی تھی کہ اجتماعی طور پر ان سے عہد لیا جائے۔

موضوع اور مباحث

اس سورت کے تین حصے ہیں :

  1. پہلا حصہ آغازِ سورت سے آیت 9 تک چلتا ہے اور سورت کے خاتمہ پر آیت 13 بھی اسی سے تعلق رکھتی ہے۔ اس میں حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کے اس فعل پر سخت گرفت کی گئی ہے کہ انھوں نے محض اپنے اہل و عیال کو بچانے کی خاطر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ایک نہایت اہم جنگی راز سے دشمنوں کو خبردار کرنے کی کوشش کی تھی جسے اگر بروقت ناکام نہ کر دیا گیا ہوتا تو فتح مکہ کے موقع پر بڑا کشت و خون ہوتا، مسلمانوں کی بھی بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہوتیں، قریش کے بھی بہت سے وہ لوگ مارے جاتے جو بعد میں اسلام کی عظیم خدمت انجام دینے والے تھے، وہ تمام فوائد بھی ضائع ہو جاتے جو مکہ کو پرامن طریقے سے فتح کرنے کی صورت میں حاصل ہو سکتے تھے اور اتنے عظیم نقصانات صرف اس وجہ سے ہوتے کہ مسلمانوں میں سے ایک شخص اپنے بال بچوں کو جنگ کے خطرات سے محفوظ رکھنا چاہتا تھا۔ اس شدید غلطی پر تنبیہ فرماتے ہوئے اللہ تعالٰی نے تمام اہل ایمان کو یہ تعلیم دی ہے کہ کسی مومن کو کسی حال میں اور کسی غرض کے لیے بھی اسلام کے دشمن کافروں کے ساتھ محبت اور دوستی کا تعلق نہ رکھنا چاہیے اور کوئی ایسا کام نہ کرنا چاہیے جو کفر و اسلام کی کشمکش میں کفار کے لیے مفید ہو۔ البتہ جو کافر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف عملاً دشمنی اور ایذا رسانی کا برتاؤ نہ کر رہے ہوں ان کے ساتھ احسان کا رویہ اختیار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
  2. دوسرا حصہ آیت 10 – 11 پر مشتمل ہے۔ اس میں ایک اہم معاشرتی مسئلے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو اس وقت بڑی پیچیدگی پیدا کر رہا تھا۔ مکہ میں بہت سی مسلمان عورتیں ایسی تھیں جن کے شوہر کافر تھے اور وہ کسی نہ کسی طرح ہجرت کر کے مدینہ پہنچ جاتی تھیں۔ اسی طرح مدینہ میں بہت سے مسلمان مرد ایسے تھے جن کی بیویاں کافر تھیں اور وہ مکہ ہی میں رہ گئی تھیں۔ ان کے بارے میں یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ ان کے درمیان رشتۂ ازدواج باقی ہے یا نہیں۔ اللہ تعالٰی نے اس کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہ فیصلہ فرما دیا کہ مسلمان عورت کے لیے کافر شوہر حلال نہیں ہے اور مسلمان مرد کے لیے بھی جائز نہیں کہ وہ مشرک بیوی کو اپنے نکاح میں رکھے۔ یہ فیصلہ بڑے اہم قانونی نتائج رکھتا ہے۔
  3. تیسرا حصہ آیت 12 پر مشتمل ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ہدایت فرمائی گئی ہے کہ جو عورتیں اسلام قبول کریں ان سے آپ ان بڑی بڑی برائیوں سے بچنے کا عہد لیں جو جاہلیتِ عرب کے معاشرے میں عورتوں کے اندر پھیلی ہوئی تھیں اور اس بات کا اقرار کرائیں کہ آئندہ وہ بھلائی کے ان تمام طریقوں کی پیروی کریں گی جن کا حکم اللہ کے رسول کی طرف سے ان کو دیا جائے۔

منتخب آیات

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم میری راہ میں جہاد کرنے کے لیے اور میری رضا جوئی کی خاطر (وطن چھوڑ کر گھروں سے ) نکلے ہو تو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔ تم ان کے ساتھ دوستی کی طرح ڈالتے ہو، حالانکہ جو حق تمھارے پاس آیا ہے اس کو ماننے سے وہ انکار کر چکے ہیں اور ان کی روش یہ ہے کہ رسول اور خود تم کو صرف اس قصور پر جلا وطن کرتے ہیں کہ تم اپنے رب، اللہ پر ایمان لائے ہو۔ تم چھپا کر ان کو دوستانہ پیغام بھیجتے ہو، حالانکہ جو کچھ چھپا کر کرتے ہو اور جو علانیہ کرتے ہو، ہر چیز کو میں خوب جانتا ہوں۔ جو شخص بھی تم میں سے ایسا کرے وہ یقیناً راہ راست سے بھٹک گیا (1)
ان کا رویہ تو یہ ہے کہ اگر تم پر قابو پا جائیں تو تمھارے ساتھ دشمنی کریں اور ہاتھ اور زبان سے تمھیں آزار دیں۔ وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ تم کسی طرح کافر ہو جاؤ (2)
قیامت کے دن نہ تمھاری رشتہ داریاں کام آئیں گی نہ تمھاری اولاد اس روز اللہ تمھارے درمیان جدائی ڈال دے گا اور وہی تمھارے اعمال کا دیکھنے والا ہے (3)
انہی لوگوں کے طرز عمل میں تمھارے لیے اور ہر اُس شخص کے لیے اچھا نمونہ ہے جو اللہ اور روزِ آخر کا امیدوار ہو۔ اس سے کوئی منحرف ہو تو اللہ بے نیاز اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے۔ (6)
بعید نہیں کہ اللہ کبھی تمھارے اور ان لوگوں کے درمیان محبت ڈال دے جن سے آج تم نے دشمنی مول لی ہے۔ اللہ بڑی قدرت رکھتا ہے اور وہ غفور و رحیم ہے (7)
اللہ تمھیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاؤ کرو جنھوں نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے (8)
وہ تمھیں جس بات سے روکتا ہے وہ تو یہ ہے کہ تم ان لوگوں سے دوستی کرو جنھوں نے تم سے دین کے معاملہ میں جنگ کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نکالا ہے اور تمھارے اخراج میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے۔ ان سے جو لوگ دوستی کریں وہی ظالم ہیں۔ (9)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو جب مومن عورتیں ہجرت کر کے تمھارے پاس آئیں تو (ان کے مومن ہونے کی) جانچ پڑتال کر لو اور ان کے ایمان کی حقیقت اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ پھر جب تمھیں معلوم ہو جائے کہ وہ مومن ہیں تو انھیں کفار کی طرف واپس نہ کرو۔ نہ وہ کفار کے لیے حلال ہیں اور نہ کفار ان کے لیے حلال۔ ان کے کافر شوہروں نے جو مہر ان کو دیے تھے وہ انھیں پھیر دو اور ان سے نکاح کر لینے میں تم پر کوئی گناہ نہیں جبکہ تم ان کے مہر ان کو ادا کر دو اور تم خود بھی کافر عورتوں کو اپنے نکاح میں نہ روکے رہو۔ جو مہر تم نے اپنی کافر بیویوں کو دیے تھے وہ تم واپس مانگ لو اور جو مہر کافروں نے اپنی مسلمان بیویوں کو دیے تھے انھیں وہ واپس مانگ لیں۔ یہ اللہ کا حکم ہے۔ وہ تمھارے درمیان فیصلہ کرتا ہے اور اللہ علیم و حکیم ہے (10)
اور اگر تمھاری کافر بیویوں کے مہروں میں سے کچھ تمھیں کفار سے واپس نہ ملے اور پھر تمھاری نوبت آئے تو جن لوگوں کی بیویاں اُدھر رہ گئی ہیں ان کو اتنی رقم ادا کر دو جو ان کے دیے ہوئے مہروں کے برابر ہو۔ اور اس خدا سے ڈرتے رہو جس پر تم ایمان لائے ہو (11)
اے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، جب تمھارے پاس مومن عورتیں بیعت کرنے کے لیے آئیں اور اس بات کا عہد کریں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں گی، چوری نہ کریں گی، زنا نہ کریں گی، اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گی، اپنے ہاتھ پاؤں کے آگے کوئی بہتان گھڑ کر نہ لائیں گی اور کسی امرِ معروف میں تمھاری نافرمانی نہ کریں گی، تو ان سے بیعت لے لو اور ان کے حق میں اللہ سے دعائے مغفرت کرو، یقیناً اللہ درگزر فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے (12)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ان لوگوں کو دوست نہ بناؤ جن پر اللہ نے غضب فرمایا ہے، جو آخرت سے اسی طرح مایوس ہیں جس طرح قبروں میں پڑے ہوئے کافر مایوس ہیں۔ (13)