امراؤ بندو خان
استاد امراؤ بندو خان (پیدائش: 1915ء - وفات: 4 اکتوبر، 1979ء) بر صغیر ہند و پاک کے نامور گایک اور سارنگی نواز تھے۔ وہ ہندوستان کے نامور کلاسیکی گایک اور سارنگی نواز استاد بندو خان کے بیٹے تھے جو خیال گایکی کی وجہ سے بین الاقوامی شہرت کے حامل تھے۔
امراؤ بندو خان | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1915ء دہلی |
وفات | 4 اکتوبر 1979ء (63–64 سال) کراچی ، پاکستان |
شہریت | برطانوی ہند پاکستان |
عملی زندگی | |
پیشہ | گائیک ، موسیقار |
درستی - ترمیم |
حالات زندگی
ترمیماستاد امراؤ بندو خان 1915ء کو معروف سارنگی نواز استاد بندو خان کے گھر پیدا ہوئے۔[1] ان کے والد استاد بندو خان راگ کا مجسمہ تھے، انھوں نے کلاسیکی گایکی کے علاوہ سارنگی نوازی میں میں بھی ایک اہم مقام حاصل کیا، بیسویں صدی کی خیال گایکی کا پورا خزانہ ان کے سینے میں محفوظ تھا۔ یہ ساری چیزیں انھوں نے اپنے فرزند امراؤ بندو خان کو سکھا دیں۔ امراؤ بندو خان نے موسیقی کی تعلیم اپنے والد استاد بندو خان کے علاوہ استاد چاند خان سے بھی حاصل کی۔ موسیقی کی اسی تعلیم کی وجہ سے امراؤ بندو خان نے 16 برس کی عمر میں آل انڈیا میوزک کانفرنس میں اپنی گلوکاری کی دھوم مچا دی۔ استاد امراؤ بندو خان خان نے اپنے و الد کی وراثت یعنی سارنگی کو بھی زندہ رکھا اور بے شمار شاگردوں کو موسیقی کی تعلیم دی۔ والد کے انتقال کے بعد امراؤ بندو خان نے سارنگی بجانی بالکل چھوڑ دی اور گانا اختیار کیا۔ جوانی جا چکی تھی، پھر بھی انھوں نے ایسا ستھرا، با سلیقہ اور انوکھی باریکیوں والا گانا خلوص کے ساتھ گایا کہ کیا کوئی گائے گا۔ راگوں کے اندر حسن آفرینی کے رموز اور امکانات سے آپ کو بے مثال واقفیت تھی۔ اچھوب راگ بھی آپ کو خوب یاد تھے۔ ان کی بڑی نا قدری ہوئی۔ آخر عمر میں وہ کراچی کی ایک کٹیا میں پھٹی بنیان اور میلے تہبند میں بیٹھے رہتے تھے یا کراچی کے ریڈیو اسٹیشن کے چائے خانے میں چائے اور سگریٹ سے غم غلط کرتے تھے۔[2] ان کے شاگردوں میں ثریا ملتانیکر، نکہت سیما وغیرہ شامل ہیں۔ استاد امراؤ بندو خان نے بے شمار فلموں کے گیت بھی گائے۔ 1981ء میں حکومت پاکستان نے انھیں صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی دیا۔ استاد امراؤ بندو خان 4 اکتوبر 1979ء میں کراچی، پاکستان میں وافت پا گئے۔[1]