اندرون مکتب ( عثمانی ترکی : اندرون مکتب، جدید ترکی زبان : Enderûn Mektebi) بنیادی طور پر ینی چری کے لیے ایک محلاتی اور اقامتی مکتب تھا میں جس میں طلبہ کو دوشیرمہ [1] ، عیسائی بچوں کو مسلمان بنا کر افسرِ شاہی ، انتظامی اور ینی چری فوجی عہدوں پر عثمانی حکومت کی طرف سے تعینات کرنے کا نظام ، کے ذریعے داخلہ دیا جاتاتھا ۔ [2] صدیوں کے دوران ، اندرون مکتب سلطنت کے مختلف نسلی گروہوں سے طلبہ کا انتخاب کرکے انھیں ایک عام مسلمان کی تعلیم دلا کر عثمانی ریاست کاروں کی تشکیل میں کامیاب رہا۔ یہ مکتب عثمانی محل کی "اندرونی خدمت" ( اندرون ) کے ذریعہ چلایا گیا تھا اور یہ تعلیمی اور فوجی دونوں مقاصد رکھتا تھا۔ [3] فارغ التحصیل افراد سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ اپنے آپ کو سرکاری خدمات میں لگائیں گے اور نچلے سماجی گروہوں کے روابط سے آزاد رہیں گے۔ [4]

اندرون مکتب
قسمشاہی
بانیان
سرپرستِ اعلیٰعثمانی سلاطین
مقامسلطنت عثمانیہ(موجودہ ترکی)
وابستگیاں سلطنت عثمانیہ
ماسکوٹچکما
نو کلاسیکی اندرون لائبریری(کتب خانہ)
توپ قاپی محل میں اندرون کتب خانہ

اندرون اسکول کے ہونہار تعلیمی پروگرام کو دنیا کی پہلی ادارہ جاتی تعلیم کہا جاتا ہے۔ [5] [6] [7]

تاریخ ترمیم

سلطنت عثمانیہ کی نشو و نما سیاست دانوں کے انتخاب اور ان کی تعلیم پر منحصر تھی ۔ محمد فاتح کے رومی سلطنت کو بحال کرنے کے ہدف کا ایک اہم جز سلطنت کے اندر بہترین نوجوانوں کے انتخاب کے لیے ایک خصوصی اسکول قائم کرنا تھا اور انھیں حکومت کے کاموں کے لیے تربیت دینا تھا۔ محمد فاتح نے اپنے والد مراد ثانی کے قائم کردہ محلاتی مکتب کو مزید بہتر بنایا اور استنبول میں اندرون اکیڈمی قائم کی۔ [8]

 
اندرون مکتب کا ڈھانچہ اہرام کی شکل میں

عمارات ترمیم

توپ قاپی محل کا تیسرا صحن شاہی خزانے ،ایوانِ آثارِ نبویؐ اور اندرون ہمایوں مکتب کی عمارات سے گھرا ہوا تھا ، جس سے اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے ساتھ ساتھ خاندانِ آلِ عثمان کے شہزادوں نے تعلیم حاصل کی۔ مکتبِ محل کے اندر سات ہال یا درجات تھے اور ہر ہال کے اندر طلبہ کی ذہنی اور علمی نشو و نما کے لیے 12 اساتذہ تعینات تھے۔ طلبہ نے اپنے نتیجے کے لحاظ سے مخصوص یونیفارم پہن رکھے تھے اور ملر نے مزید بتایا ہے کہ کہ اضافی عمارتوں میں کتب خانہ ، مسجد ، کمرہ موسیقی ، اقامتی خواب گاہ اور حمام شامل تھے۔ [9]

نصاب ترمیم

اندرون نظام میں محل کے باہر تین ابتدائی اسکول تھے جبکہ محل کے اندر صرف ایک اسکول تھا۔ ملر کے مطابق ، [10] تین ابتدائی اندرون مکتبوں میں 1،000-2،000 طلبہ تھے اور محل کے مدرسہ اعلیٰ (ہائی سکول) میں 300 کے قریب طلبہ تھے۔ نصاب کو پانچ اہم حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا: [11] [12] [13]

  • اسلامی علوم؛ عربی ، ترکی اور فارسی زبان کی تعلیم سمیت
  • علومِ سائنس؛ ریاضی ، جغرافیہ
  • تاریخ ، قانون اور انتظامیہ: محل کے رسم و رواج اور حکومتی امور
  • پیشہ ورانہ پڑھائی ، بشمول فنون اور موسیقی کی تعلیم
  • جسمانی تربیت ، بشمول اسلحہ سازی

اندرون نظامِ تعلیم کے اختتام پر ، فارغ التحصیل طلبہ کم از کم تین زبانیں بولنے ، پڑھنے اور لکھنے کے قابل ہوتے تھے ، جو سائنس کی تازہ ترین پیشرفتوں کو بھی سمجھنے کے قابل ہوتے تھے ، کم از کم ایک ہنر یا فن کے ماہر ہوتے تھے اور فوجی کمان بھی کرسکتے تھے۔

گریجویشن ترمیم

اندرون اسکول چھوڑنے والے طلبہ کی گریجویشن کی تقریب کو چکما کے نام سے جانا جاتا تھا۔ [14] فارغ التحصیل طلبہ کو چکما کہا جاتا تھا۔ [15] [16] چکما کا لفظی مطلب ہے "جو نکل گیا "۔یہ خدام مکتب محل اور محل کی خدمت چھوڑ دیتے تھے تاکہ عملی خدمات میں اپنی تربیت جاری رکھیں۔ [17] یہ "منتقلی" ہر دو سے سات سال بعد یا نئے سلطان کی تخت نشینی کے بعد واقع ہوتی تھی۔ [18]

کامیاب فارغ التحصیل افراد کو ان کی صلاحیتوں کے مطابق ان دو مرکزی میدانوں میں تعینات کر دیا جاتا : سرکاری یا سائنس ، [19] اور جو آگے جانے میں ناکام ہو جاتے انھیں فوج میں بھیج دیا جاتا۔ [حوالہ درکار] مکتب کی سب سے خاص خصوصیات میں سے ایک اس کا میرٹ سسٹم تھا جو احتیاط سے درجہ بند انعامات اور سزاؤں پر مشتمل تھا۔ [20]

حوالہ جات ترمیم

  1. Farhad Malekian، Kerstin Nordlöf (17 January 2012)۔ The Sovereignty of Children in Law۔ Cambridge Scholars Publishing۔ صفحہ: 249–۔ ISBN 978-1-4438-3673-9 
  2. Kemal H Karpat "Social Change and Politics in Turkey: A Structural-Historical Analysis" page 204
  3. https://tamu.academia.edu/SencerCorlu/Papers/471488/The_Ottoman_Palace_School_Enderun_and_the_Man_with_Multiple_Talents_Matrakci_Nasuh
  4. Kemal H Karpat "Social Change and Politics in Turkey: A Structural-Historical Analysis" page 204
  5. Senel, H. G. (1998). Special education in Turkey. European Journal of Special Needs Education 13, 254–261.
  6. Cakin, N. (2005). Bilim ve sanat merkezine zihinsel alandan devam eden ogrencilerin akranlari ile okul basarilari acisindan karsilastirilmasi. Unpublished masters thesis, Afyon Kocatepe Universitesi, Afyon, Turkey.
  7. Melekoglu, M. A., Cakiroglu, O. & Malmgren, K. W. (2009). Special education in Turkey. International Journal of Inclusive Education 13(3), 287–298. ERIC EJ857857
  8. Corlu, M. S., Burlbaw, L.M., Capraro, R. M., Han, S., & Corlu, M. A. (2010). The Ottoman palace school and the man with multiple talents, Matrakçı Nasuh. Journal of the Korea Society of Mathematical Education Series D: Research in Mathematical Education, 14(1), p. 19-31.
  9. Miller, B. (1973). The palace school of Muhammad the Conqueror (Reprint ed.). NY: Arno Press.
  10. Miller, B. (1973). The palace school of Muhammad the Conqueror (Reprint ed.). NY: Arno Press.
  11. Ipsirli, M. (1995). Enderun. In Diyanet Islam ansiklopedisi (Vol. XI, pp. 185–187). Istanbul, Turkey: Turkiye Diyanet Vakfi.
  12. Akkutay, U. (1984). Enderun mektebi. Ankara, Turkey: Gazi Üniversitesi Eğitim Fak. Yay.
  13. Basgoz, I. & Wilson, H. E. (1989). The educational tradition of the Ottoman Empire and the development of the Turkish educational system of the republican era. Turkish Review 3(16), 15.
  14. Rhoads Murphey (20 October 2011)۔ Exploring Ottoman Sovereignty: Tradition, Image and Practice in the Ottoman Imperial Household, 1400-1800۔ A&C Black۔ صفحہ: 345۔ ISBN 978-1-4411-0251-5۔ ...exiting from the palace service (çıkma)... 
  15. Ga ́bor A ́goston، Bruce Alan Masters (1 January 2009)۔ Encyclopedia of the Ottoman Empire۔ Infobase Publishing۔ صفحہ: 452۔ ISBN 978-1-4381-1025-7 
  16. Türk dünyası kültür atlası: The Seljuk period۔ Türk Kültürüne Hizmet Vakfı, Turkish Cultural Service Foundation۔ صفحہ: 207۔ After a set period of training and instruction, most of the graduates (Çıkma) were assigned to mil- itary units; the very ... 
  17. Christine Woodhead (15 December 2011)۔ The Ottoman World۔ Routledge۔ صفحہ: 167۔ ISBN 978-1-136-49894-7 
  18. John Jefferson (17 August 2012)۔ The Holy Wars of King Wladislas and Sultan Murad: The Ottoman-Christian Conflict from 1438-1444۔ BRILL۔ صفحہ: 84۔ ISBN 90-04-21904-8 
  19. Armagan, A. (2006). Osmanlı’da ustün yetenekliler fabrikası: Enderun Mektebi. Yeni Dünya Dergisi 10, 32.
  20. Akkutay, U. (1984). Enderun mektebi. Ankara, Turkey: Gazi Üniversitesi Eğitim Fak. Yay.

مزید دیکھیے ترمیم

بیرونی روابط ترمیم