انیتا غلام علی
پروفیسر انیتا غلام علی (1934 - 2014) پاکستان کی ممتاز ماہرِ تعلیم تھیں۔ انھیں ان کی تعلیمی خدمات کے اعتراف کے طور پر صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی (1999ء) اور ستارہ امتیاز عطا کیا گیا۔
پروفیسر انیتا غلام علی | |
---|---|
پیدائش | 2 اکتوبر 1934 ء کراچی، پاکستان |
وفات | 8 اگست 2014 ء کراچی، پاکستان |
قلمی نام | انیتا غلام علی |
پیشہ | ماہرِ تعلیم ، دانشور ، سوشل ورکر |
زبان | اردو |
نسل | سندھی |
شہریت | پاکستانی |
تعلیم | ایم ایس سی ، مائیکرو بیالوجی |
مادر علمی | کراچی یونیورسٹی |
حالاتِ زندگی
ترمیمپروفیسر انیتا غلام علی 2 اکتوبر، 1934ء کو کراچی، پاکستان میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد کا نام جسٹس فیروز نانا تھا۔ پروفیسر انیتا غلام علی کی والدہ شیریں بیگم، شمس العلماء مرزا قلیچ بیگ کی نواسی تھیں۔[1]
پروفیسر انیتا غلام علی ابتدائی تعلیم سینٹ جوزف کانونٹ اسکول ( پنج گنی، مہاراشٹر، بھارت ) اور سینٹ لارنس کانونٹ اسکول، کراچی سے حاصل کی۔ 1953ء سے آواز کی دنیا میں داخل ہوئیں اور ریڈیو اسٹیشن جاکر آڈیشن دیا، پاس ہوئیں اور باقاعدہ ریڈیو سے منسلک ہوگئیں۔ 1960ء سے 1972ء تک ریڈیو پاکستان سے انگریزی میں قومی خبریں پڑھتی رہیں۔ ریڈیو کے بیس، بائیس سالہ عرصے کے دوران انھوں نے کالج، یونی ورسٹی سے پڑھا، ملازمت کی اور ساتھ ساتھ ریڈیو کے پروگرام کو بھی جاری رکھا۔ ریڈیو پر ابتدا اناؤنسمنٹ سے کی پھر چھوٹی موٹی کمنٹری شروع کی جو دراصل خبروں ہی کا ایک حصہ ہوتی تھی، جس میں سیاسی واقعات کا خلاصہ پیش کیا جاتا تھا۔ تاہم 1973ء میں انھوں نے ریڈیو چھوڑدیا، کیوں کہ خبریں اسلام آباد سے ہونے لگی تھیں۔ انھوں نے بہ طور براڈکاسٹر بھرپور دور گزارا۔
1955ء میں ٹوکیو میں ہونے والے ورلڈ یونیورسٹی سروس سیمینار میں پاکستانی طلبہ کے وفد کی نمائندگی کرنے والی واحد ایشیائی طالبہ تھیں۔ 1957ء میں ڈی جے سائنس کالج سے بی ایس سی کیا۔ 1960ء میں کراچی یونی ورسٹی سے ایم ایس سی (مائیکرو بیالوجی) سیکنڈ پوزیشن سے کیا۔
عملی زندگی و خدمات
ترمیم1961ء سے پروفیسر انیتا غلام علی نے عملی زندگی کا آغاز سندھ مسلم سائنس کالج میں درس و تدریس سے کیا اور ساتھ ہی 1961 سے 1983 تک پاکستان کالج ٹیچرز ایسوسی ایشن سے سرگرم کارکن، نائب صدر اور صدر کی حیثیت سے بھی منسلک رہیں۔ وہ کالجوں کو قومیائے جانے کی تحریک کا حصہ بھی رہیں۔ 1980ء میں اقوام متحدہ کی کانفرنس میں پاکستانی وفد کی ڈپٹی لیڈر تھیں۔ یونیسکو کے لیے تعلیم کی سفیر بنیں اور دنیا کی واحد خاتون تھیں جو انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن اور یونیسکو کی جوائنٹ کمیٹی آف ایکسپرٹس کے ساتھ رکن اور صدر کی حیثیت سے منسلک رہیں۔
1983ء میں سندھ ٹیچرز فاؤنڈیشن کی منیجنگ ڈائریکٹر بنیں۔ 1990ء میں سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن قائم ہوا تو انیتا غلام علی اس کی منیجنگ ڈائریکٹر مقرر ہوئیں تو انھوں نے اپنی انتھک محبت سے سندھ کے مضافات میں عوامی اور نجی سیکٹر کے اشتراک سے تیرہ سو سے زائد اسکول کھلوائے حتی کہ منچھر جھیل کی کشتیوں میں بھی تعلیم کا سلسلہ رواں ہوا۔ (انٹرویو : گوہر تاج ) [2]
1992ء میں وہ اپنی سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوئیں اور جنوری 2014ء تک مسلسل سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی منیجنگ ڈائریکٹر کے طور پر کام کرتی رہیں۔
انیتا غلام علی کی فروغ تعلیم اور اساتذہ کے حقوق، سندھ کی ثقافت، تہذیب و تمدن کے لیے خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ ان کی اعلیٰ تعلیمی خدمات کے اعتراف میں انھیں تمغاِ حسن کارکردگی، ستارہ امتیاز اور بے نظیر ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ بے شمار اعزازات اور اسناد سے بھی نوازی گئیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے متعدد ملکی اور بین الاقوامی کانفرنسوں، بالخصوص اقوام متحدہ کے زیراہتمام تعلیم اور خواتین سے متعلق کانفرنسوں میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ نیز تعلیمی اور معاشرتی مسائل پر سیکڑوں مضامین، مقالات اور تحقیقی رپورٹیں بھی لکھیں۔ پروفیسر ام سلمیٰ زمن نے انیتا غلام علی کے دس پندرہ مضامین کو کتابی صورت اور اردو ترجمہ کرکے 'دکھتی رگ' کے عنوان سے شائع کیا۔
بلاشبہ پروفیسر انیتا غلام علی کی زندگی ہمہ جہتی، رنگا رنگ، بھرپور اور بیک وقت سادگی اور جدوجہد کا بہترین نمونہ تھی۔
وفات
ترمیمپروفیسر انیتا غلام علی کا انتقال 8 اگست2014میں کراچی میں ہوا۔[3]