اوما بائی دابھاڑے
اوما بائی دابھاڑے (وفات: 1753ء) مرہٹوں کے دابھاڑے قبیلہ کی ایک مشہور خاتون تھیں۔ ان کے خاندان کے افراد کو موروثی طور پر "سیناپتی" کا خطاب ملتا تھا اور گجرات کے متعدد خطے ان کے زیر انتظام تھے۔ اوما بائی کے شوہر کھانڈے راؤ اور فرزند تریمبک راؤ کی وفات کے بعد وہی سیاہ سفید کی مالک ہو گئیں جبکہ ان کے نابالغ فرزند یشونت راؤ کو سیناپتی کا خطاب دیا گیا۔ اوما بائی نے اپنے دور اقتدار میں بالاجی باجی راؤ کے خلاف علم بغاوت بلند کیا جو ناکام ہوئی اور دابھاڑے خاندان زوال کا شکار ہو گیا۔
اوما بائی دابھاڑے | |
---|---|
شریک حیات | Khande Rao Dabhade |
نسل | Trimbak Rao Dabhade |
خاندان | Dabhade |
والد | دیوراؤ ٹھوکے دیشمکھ |
پیدائش | نامعلوم ابھونے، ناسک، بھارت |
وفات | 28 نومبر 1753 پونے، مہاراشٹر، بھارت |
ابتدائی زندگی
ترمیماوما بائی دابھاڑے ابھونکر دیوراؤ ٹھوکے دیشمکھ کی بیٹی تھیں۔ ان کی شادی کھانڈے راؤ دابھاڑے سے ہوئی، وہ ان کی تینوں بیویوں میں سب سے کم عمر تھیں۔ کھانڈے راؤ سے ان کے یہاں تین بیٹے (تریمبک راؤ، یشونت راؤ اور سوائی بابو راؤ) اور تین بیٹیاں (شاہ بائی، درگا بائی اور آنندی بائی) پیدا ہوئیں۔ سنہ 1710ء میں اوما بائی نے ناسک کے قریب ایک اونچی پہاڑی پر واقع سپت شرنگی مندر تک پہنچنے کے لیے 470 سیڑھیاں تعمیر کروائیں۔
بحیثیت مادر قبیلہ
ترمیماوما بائی کے شوہر کھانڈے راؤ چھترپتی شاہو اول کے سیناپتی تھے۔ سنہ 1729ء میں ان کی وفات کے بعد ان کے فرزند تریمبک راؤ دابھاڑے سیناپتی بنائے گئے۔ دابھاڑوں نے مالدار صوبہ گجرات پر متعدد دفعہ حملے کیے۔ وہاں سے حاصل ہونے والے محصول (چوتھ اور سردیشمکھی) ان کی آمدنی کا اہم ترین ذریعہ تھا۔ جب شاہو کے وزیر اعظم (پیشوا) باجی راؤ اول نے گجرات کے محصولات پر لگان عائد کرنے کا فیصلہ کیا تو دابھاڑوں نے چھترپتی اور پیشوا کے خلاف بغاوت کر دی۔ سنہ 1731ء میں دابھوئی کے مقام پر دونوں فوجوں میں جنگ ہوئی جس میں باجی راؤ نے دابھاڑوں کو شکست فاش دی اور تریمبک راؤ مارے گئے۔[1][2] اوما بائی کے شوہر اور بیٹے کی وفات کے بعد دابھاڑے قبیلہ کی سربراہ بن گئیں اور چھترپتی شاہو نے تریمبک راؤ کے تمام اثاثے اور خطابات ان کے نابالغ فرزند یشونت راؤ کو دے دیے۔[3]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ G.S.Chhabra (2005)۔ Advance Study in the History of Modern India (Volume-1: 1707-1803)۔ Lotus Press۔ صفحہ: 19–28۔ ISBN 978-81-89093-06-8
- ↑ Stewart Gordon (1993)۔ The Marathas 1600-1818۔ Cambridge University Press۔ صفحہ: 120–131۔ ISBN 978-0-521-26883-7
- ↑ Jaswant Lal Mehta (2005)۔ Advanced Study in the History of Modern India 1707-1813۔ Sterling۔ صفحہ: 213–216۔ ISBN 9781932705546