اکھے پاتر
اکھے پاتر (گجراتی: અખેપાતર) (اردو: اتھاہ برتن) ایک گجراتی زبان کا ناول جسے بِندُو بھٹ نے لکھا ہے۔[1] اس کتاب کو 2003 میں گجراتی زبان کا ساہتیہ ایوارڈ عطا کیا گیا تھا۔ اس کتاب کو کئی ناقدین نے سراہا ہے جن منسکھ سلا اور چندراکانت ٹوپی والا شامل ہیں۔[2]
فائل:Akhepatar Book Cover.jpeg سرورق | |
مصنف | بندو بھٹ |
---|---|
ملک | بھارت |
زبان | گجراتی |
صنف | ناول |
محل وقوع | احمدآباد |
اشاعت | 1999 |
ناشر | آر آر شیٹھ اینڈ کمپنی پرائیویٹ لیمیٹیڈ |
طرز طباعت | چھپا ہوا (پیپر بیک) |
صفحات | 271 |
اعزازات | ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ (2003) |
اشاعت کی تاریخ
ترمیماس کتاب کو سب سے پہلے ستمبر 1999 میں آر آر شیٹھ اینڈ کمپنی پرائیویٹ لیمیٹیڈ، احمد آباد نے شائع کیا۔ اس کتاب کی دوبارہ اشاعت جنوری 2007، مئی 2011 اور اگست 2012 میں ہوئی۔ اس کی چوتھی اشاعت میں دو تنقیدی مضامین بھی شامل ہیں۔[3] اس کا ہندی ترجمہ ویریندر ناراین سنگھ نے کیا اور اسے اکشے پاتر عنوان سے 2011 میں شائع کیا گیا۔ [حوالہ درکار]
کہانی کا خلاصہ
ترمیماس ناول کا آغاز کنچن نامی معمر خاتون سے ہوتا ہے جو سوراشٹرا میں جھالواڑ علاقے میں اپنے گاؤں میں 1980 کے دہے میں لوٹتی ہے۔ اس کا تعلق ایک برہمن خاندان سے ہے جس کے آباواجداد گاؤں میں پوجاپاٹ کی ذمے داریاں انجام دیتے تھے۔ اپنے گاؤں لوٹنے کے بعد وہ اکیلی پڑجاتی ہے، وہ حال و مستقبل سے جوجنے کی کوشش کرتی ہے۔ وہ گاؤں کے ایک ہندو مقدس مقام پر قیام کرتی ہے اور دیرینہ واقعات بیان کرنا شروع کرتی ہے۔ یہ ناول اس کردار کی کا شخصی اور عائلی زندگی کے اتار چڑھاؤ کا لیکھاجوکھا ہے۔ یہ کہانی ماضی اور حال کے بیچ گھومتی ہے۔ کنچن کی شادی ایک کاروباری برہمن آدمی سے ہوئی کو ہندوستان کی تقسیم پہلے کراچی کی ہجرت کر چکا ہوتا ہے۔ یہ کہانی ماضی کے کئی پرتوں کو کھولتی ہے : ماقبل آزادی کا دور، بالخصوص سماجی نقطہ نظر سے، تقسیم کے ایام کا تاریخی تناظر اور سماجی و تہذیبی انتشار جو اس سے رونما ہوا اور ایک فرد کے خاندان کو متاثر کیا (یہ حصہ اس کی نوجوانی اور جوانی کے دنوں، شادی اور ماں بننے کو بیان کرتا ہے) اور تقسیم کی رواں بیانی کی کوشش کرتی ہے جس میں ہولناک تشدد، فرقہ وارانہ تشدد سے بچ نکلنے والے پناہ گزینوں آپسی لڑائی، ان کی گھناؤنی حرکات، بچھڑنا اور دوبارہ ملنا، سماجی و معاشی اتھل پتھل جو یہ انفرادی اور اجتماعی طور پر چھیل رہے تھے اور آخر میں ترقی اور نشاۃ ثانیہ کا دور جو دیہی گجرات پر چھا گیا تھا، کا احاطہ کیا گیا ہے۔ مابعد تقسیم کا بیان سخت قصہ گوئی کے عنصر کو سختی سے بہ روئے کار لاتا ہے، بالخصوص گھناؤنی واقعات، خلاف قیاس واقعات اور کنچن کی زندگی میں چھائے رہنے والا انتشار۔ پورے ناول میں بولیاں، محاورے اور جھالواڑ، کراچی اور سوراشتڑا کی عوامی بولیاں شامل ہیں۔
اکھے پاتر کا عنوان اصلًا سنسکرت لفظ اکشے پاترا (دیوناگری: अक्षयपात्र) سے ماخوذ ہے، جس کے معنے اتھاہ برتن کے ہیں۔ یہ عنوان اس اعتبار سے موزوں ہے کہ یہ بہادری اور پوشیدہ انسانی فطرت کو ایک جانب پیش کرتا ہے، تو دوسری جانب یہ کئی ناگہانی واقعات اور مصائب کا احاطہ کرتا ہے جن سے انسان، بالخصوص بھارت کی خواتین اپنی زندگی میں گزرتی ہیں۔[3]
ناقدوں کا رد عمل
ترمیماس کتاب کا گجراتی ادبی نقادوں نے خیر مقدم کیا ہے۔ منسکھ سلا نے اس کتاب کے متعلق اپنے ایک مضمون میں نوٹ کیا ہے کہ "بندو بھٹ نے ناول کے صنف کا بخوبی استعمال کیا ہے"۔ چندراکانت ٹوپی والا نے نوٹ کیا کہ اکھے پاتر عورتوں کی بے داری کی کہانی ایلا ارب مہتا کی "بتریس پُتلینی ویدنا" (1982) اور کوندنیکا کپاڈیا کی سات پاکلا آکاشما (1984) سے بہتر انداز میں ہے۔[4]
اعزازات
ترمیماس کتاب کو گجراتی زبان کا ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ 2003 میں عطا کیا گیا تھا۔ اسے پریاکانت پاریکھ پرائز (1999) بھی عطا کیا گیا جسے گجراتی ساہتیہ پریشد نے قائم کیا ہے۔[5]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ India: A Reference Annual۔ Publications Division, Ministry of Information and Broadcasting.۔ 2005۔ صفحہ: 934۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 ستمبر 2017
- ↑ Prasad Brahmbhatt (2014)۔ Arvachin Gujarati Sahityano Itihas (History of Modern Gujarati Literature; Modern & Post-modern Era)۔ Ahmedabad: Parshva Publication۔ صفحہ: 268
- ^ ا ب Bindu Bhatt (2012)۔ Akhepatar (A Novel)۔ Ahmedabad: R.R Sheth & Co. Pvt. Ltd.
- ↑ Chandrakant Topiwala (January 2005)۔ مدیر: Kamal Vora۔ "Vednana Amrut Nu Akshaypatra"۔ Etad۔ Vadodara: Kshitij Prakashan To
- ↑ Dr. Ramesh M. Trivedi (2015)۔ Arvachin Gujarati Sahityano Itihas (History of Modern Gujarati Literature)۔ Ahmedabad: Adarsh Publication۔ صفحہ: 418