ایران کی پوری تاریخ میں، خواتین نے ایرانی معاشرے میں متعدد کردار ادا کیے ہیں اور کئی طریقوں سے اپنا حصہ ڈالا ہے۔ تاریخی طور پر، روایت برقرار رہی ہے کہ خواتین اپنے گھروں تک محدود رہیں تاکہ وہ گھر کا انتظام سنبھال سکیں اور بچوں کی پرورش کر سکیں۔ پہلوی دور کے دوران میں، خواتین کی علیحدگی کی طرف ایک زبردست تبدیلی آئی جب: پردے پر پابندی، حق رائے دہی، تعلیم کا حق، مردوں اور عورتوں کے لیے یکساں تنخواہیں اور عوامی عہدہ رکھنے کا حق، جیسے کئی قانون لاگو ہوئے۔ خواتین نے انقلاب ایران میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 1979ء میں اسلامی انقلاب کے بعد اپنائے گئے ایران کے آئین کی شق 20 کے مطابق، [3] شریعت کے تحت مردوں اور عورتوں کے لیے برابری کا اعلان کرتا ہے جب کہ قانونی ضابطے میں شرعی قانون کی پاسداری کو لازمی قرار دیتا ہے۔ شریعت کے مطابق عورت کو مرد کی وراثت میں آدھا حصہ ملتا ہے اور عورت کی دیت بھی آدھی ہے۔ شرعی قانون اب بھی مردوں کے حق میں ہیں، لیکن آئین کی شق 21 کے ساتھ ساتھ پارلیمان سے منظور شدہ چند قوانین خواتین کو کچھ فوائد دیتے ہیں۔ خواتین کو گاڑی چلانے، عوامی عہدہ رکھنے اور جامعہ جانے کی اجازت ہے۔ عوام میں نقاب نہ پہننے پر قانون کے تحت سزا دی جا سکتی ہے۔ [4] اور جب عوام میں ہو تو چہرے اور ہاتھوں کے علاوہ تمام بال اور جلد کو ڈھانپنا ضروری ہے۔

ایران میں خواتین
جنسی عدم مساوات کا اشاریہ[1]
قدر0.459 (2019)
صفبندی113th out of 162
مادرانہ اموات (per 100,000)21 (2010)
پارلیمان میں خواتین6% (2016)
25 سے اوپر خواتین جنہوں نے ثانوی تعلیم حاصل کی62.1% (2010)
ملازمتوں میں خواتین49% (2011)
Global Gender Gap Index[2]
قدر0.589 (2018)
صفبندی142واں out of 144

سیاست

ترمیم
خواتین کی موجودہ نمائندگی
باڈی نشستیں
کابینہ
پارلیمنٹ
ماہرین کی اسمبلی
گارڈین کونسل
ایکسپیڈینسی کونسل
شہری کونسلیں
تہران
مشہد
اصفہان
شیراز
تبریز

ایران میں خواتین کو راغے دہی کا حق 1963ء میں دیا گیا تھا [5] انھیں پہلی بار 1937ء میں ایرانی جامعات میں داخلہ دیا گیا تھا [6] اس کے بعد سے کئی خواتین حکومت یا پارلیمان میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو چکی ہیں۔ 1979ء کے انقلاب سے پہلے اور بعد میں کئی خواتین کو وزیر یا سفیر مقرر کیا گیا۔ فرخرو پارسا پہلی خاتون تھیں جنہیں 1968ء میں وزیر تعلیم مقرر کیا گیا تھا اور مہناز افخمی کو 1976ء میں خواتین کے امور کی وزیر مقرر کیا گیا تھا۔

کچھ خواتین، جیسے طاہرہ صفر زادہ، معصومہ ابتکار، اعظم طلغانی، فاطمہ ہغتجو، الہٰی کولائی، فاطمہ جوادی، مرضیہ دباق اور زہرا ہنورد انقلاب کے بعد آئیں۔ دیگر ایرانی خواتین، جیسے گولی امیری اور فرح کریمی، مغربی ممالک میں عہدوں پر فائز ہیں۔

اس وقت پارلیمان میں کل 290 ارکان پارلیمان میں سے 17 خواتین ہیں۔ [7] اس تعداد میں پچھلے انتخابات کے مقابلے میں نو خواتین زیادہ ہیں۔

فی الحال ایران میں خواتین کی متعدد سیاسی تنظیمیں فعال ہیں، بشمول:

پارٹی سیکرٹری جنرل کیمپ
زینب سوسائٹی اعظم حاجی عباسی پرنسپلسٹ
اسلامی انقلاب کی خواتین کی انجمن صدیقہ حجازی پرنسپلسٹ
خواتین کی اسلامی مجلس فاطمہ کروبی اصلاح پسند
اسلامی جمہوریہ خواتین کی انجمن زہرا مصطفوی خمینی اصلاح پسند
خواتین صحافیوں کی ایسوسی ایشن جالیح فرامرزیان اصلاح پسند
اصلاح پسند خواتین پارٹی زہرہ شجاعی اصلاح پسند
ترقی پسند مسلم خواتین کی سوسائٹی فاطمہ راکعی اصلاح پسند
اسلامی انقلاب کی خواتین کی سوسائٹی اعظم تلغیانی [8] اصلاح پسند
خواتین کے حقوق کی حمایت کے لیے سوسائٹی شاہندوخت مولوردی [9] اصلاح پسند

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Gender Inequality Index" (PDF)۔ HUMAN DEVELOPMENT REPORTS۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-10-26
  2. "The Global Gender Gap Report 2018" (PDF)۔ World Economic Forum۔ ص 10–11
  3. "Iran's Constitution" (PDF)۔ مورخہ 2022-02-02 کو اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2022-02-02
  4. "Iran: Dozens of women ill-treated and at risk of long jail terms for peacefully protesting compulsory veiling"
  5. Thomson Reuters Foundation۔ "Reuters Foundation Alertnet.org Iran"۔ Alertnet.org۔ مورخہ 2010-11-19 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 مئی، 2013 {{حوالہ ویب}}: تحقق من التاريخ في: |accessdate= (معاونت) و|last= باسم عام (معاونت)
  6. Lorentz، J. Historical Dictionary of Iran. 1995. آئی ایس بی این 0-8108-2994-0
  7. "رکورد جدید حضور زنان در مجلس ایران، پیام بزرگی دارد/ خواستار توسعہ روابط با ایران هستیم" (فارسی میں)۔ IRNA۔ 15 مئی، 2016۔ مورخہ 2016-05-23 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 مئی، 2016 {{حوالہ ویب}}: تحقق من التاريخ في: |accessdate= و|date= (معاونت)
  8. Vakil، Sanam (2011)۔ Women and Politics in the Islamic Republic of Iran: Action and Reaction۔ A & C Black۔ ص 85۔ ISBN:978-1-4411-9734-4
  9. Sadr-ol-odabaee، Maryam؛ Hassan-Miri، Fahimeh (1 مئی، 2013)۔ "دبیر کل جمعیت حمایت از حقوق بشر زنان: می گویند زنان تجربہ مدیریتی ندارند؛ این تجربہ باید ازکجا شروع شود؟" (فارسی میں)۔ Khabar Online۔ اخذ شدہ بتاریخ ستمبر 29, 2017 {{حوالہ ویب}}: تحقق من التاريخ في: |date= (معاونت)

بیرونی روابط

ترمیم