F-16 ہر قسم کے جنگی کام انجام دینے والا طیارہ ہے۔ اسے امریکہ کی ایک کمپنی جنرل ڈائینامکس نے بنایا ہے۔ یہ دوسرے طیاروں سے بہت ہلکا ہے اور مشن کو ان سے بہتر طریقے سے انجام دے سکتا ہے۔ اس کی بہتر کار کردگی کی وجہ سے یہ 24 ممالک میں استعمال ہو رہا ہے۔ اسے 1976ء میں بنانا شروع کیا گیا اور اس کے بعد اس طرح کے 4426 طیارے بن چکے ہیں۔

ایف-16 فالکن
 

نوع چوتھی نسل کا لڑاکا   ویکی ڈیٹا پر (P279) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملک ریاستہائے متحدہ امریکا   ویکی ڈیٹا پر (P17) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری نام F-16  ویکی ڈیٹا پر (P798) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
صانع جنرل ڈائنامکس (1974–1993)
لوکہیڈ مارٹن (1993–)
فوکر (6 جون 1979–21 فروری 1992)  ویکی ڈیٹا پر (P176) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کل پیداوار 4573 [1][2][3][4][5]  ویکی ڈیٹا پر (P1092) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات
آغاز خدمات 1979[6]  ویکی ڈیٹا پر (P729) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پہلی پرواز 20 جنوری 1974  ویکی ڈیٹا پر (P606) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
صارفین
لمبائی 15.06 میٹر ،  14.52 میٹر [9]  ویکی ڈیٹا پر (P2043) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بلندی 4.88 میٹر   ویکی ڈیٹا پر (P2048) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
فائل:F-16 FIGHTING FALCON.svg.png
ایف-16 کا خاکہ

اس کا سرکاری نام Fighting Falcon ہے۔ F-16 کو ہوائی لڑائی میں بہت اہمیت حاصل ہے۔

بناوٹ کی خصوصیات

ترمیم

F-16 ایک پائلٹ کی گنجائش رکھنے والا طیارہ ہے۔ اس کے اسلحہ میں ایک عدد ایم-61 مشین گن ہے جو اس کے بائیں پر میں نصب ہے۔ اس کے علاوہ یہ اے آئی ایم-9 سائیڈونڈر میزائل اور اے آئی ایم-120 ایمریم میزائل سے بھی لیس کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ F-16 مختلف بم، راکٹ اور ہوا سے زمین پر مار کرنے والے میزائل بھی لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

F-16 میں پہلی بار Fly-By-Wire سسٹم اور مختلف اقسام کے بہت اعلی ریڈار بھی نصب ہیں۔

پائلٹ کی سہولیات

ترمیم

اس کے پائلٹ کا کاکپٹ بہت اونچا ہوتا ہے۔ F-16 میں کنٹرول سٹک پائلٹ کے بائیں جانب ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ پائلٹ کے سامنے ایک سکرین (HUD) لگی ہوتی ہے جو طیارے کی رفتار، اونچائی، دشمن کے طیاروں سے دوری اور طیارہ کے اسلحے کی تعداد بتاتی ہے۔

جنگ میں شمولیت

ترمیم

ان طیاروں کی بہترین صلاحیت کی وجہ سے انھیں کئی بار جنگ کے دوران استعمال بھی کیا گیا ہے۔ F-16 کو سب سے زیادہ مشرق وسطی میں استعمال کیا گیا ہے۔

  • 1981ء میں آٹھ اسرائیلی F-16 نے عراق کا ایک ایٹمی ریی ایکٹر اوسعراق کو تباہ کیا۔
  • پاک فضائیہ کے F-16 نے افغان جنگ کے دوران 10 افغانی اور کئی روسی جہاز گرائے۔
  • بوسنیا کی جنگ میں بھی اقوام متحدہ کے F-16 نے 4 جہاز گرائے۔
  • F-16 نے عراق کی جنگ میں کئی مشن انجام دیے اور دو F-16 نے بمباری کی جس کے نتیجے میں ال قاعدہ کے لیڈر ابو موسب ال زرقاوی بھی جاں بحق ہوا۔ عراق میں جنگ کے دوران ایک F-16 ایندھن کی کمی کی وجہ سے بھی گر کر تباہ ہو گیا۔

F-16 استعمال کرنے والے ممالک

ترمیم
فائل:World operators of the F-16.png
نیلے رنگوں والے ممالکے کے پاس ایف-16 زیادہ تعداد میں موجود ہے، ہلکے نیلے رنگوں والے ممالک کے پاس تھوڑی تعداد میں ایف-16 ہے۔
  • امریکی ہوائی فوج:2547
  • شاہی اردنی ہوائی فوج: 22
  • بیلجیئن ہوائی فوج: 79
  • چلیئن ہوائی فوج: 28
  • پاک فضائیہ:76
  • ڈینش ہوائی فوج: 78
  • مصری ہوائی فوج: 220
  • یونانی ہوائی فوج: 170
  • انڈونیشین ہوائی فوج: 10
  • اسرائیلی ہوائی فوج: 339
  • اطالوی ہوائی فوج: 34
  • شاہی نیدرلینڈز ہوائی فوج: 213
  • شاہی نورویجین ہوائی فوج: 72
  • شاہی اومانی ہوائی فوج: 12
  • پولش ہوائی فوج: 48 (36 نئے خریدے ہیں)
  • پرتگالی ہوائی فوج: 45
  • شاہی سنگاپوری ہوائی فوج: 62
  • تائیوانی ہوائی فوج: 150
  • کورین ہوائی فوج: 180
  • شاہی تھائیلینڈ ہوائی فوج: 61
  • ترکی ہوائی فوج: 280
  • متحدہ عرب عمارات ہوائی فوج: 80
  1. http://www.defensenews.com/story/defense/show-daily/farnborough/2016/07/13/lockheed-martin-looks-upgrade-500--service-f-16s/87021372/
  2. http://www.lockheedmartin.com/us/news/press-releases/2014/june/140605ae_iraq-accepts-first-f-16.html
  3. http://www.lockheedmartin.com/us/products/f16.html
  4. http://www.armstrade.org/includes/periodics/mainnews/2011/0603/10058404/detail.shtml
  5. http://www.asdnews.com/news/29286/LM_F-16_Is_Ready_For_The_Future_As_World_s_Most_Advanced_4th_Gen_Fighter.htm
  6. http://f-16.net/aircraft-database/F-16/airframe-profile/11/
  7. مکمل کام یہاں دستیاب ہے: http://www.flightglobal.com/assets/getasset.aspx?ItemID=26061
  8. مکمل کام یہاں دستیاب ہے: http://www.flightglobal.com/assets/getasset.aspx?ItemID=26061
  9. اشاعت چہارم — صفحہ: 200 — ISBN 978-0-7106-0587-0