ایلاء
ایلاءبیوی سے صحبت نہ کرنے کی قسم کھانا
ایلاء کے معنی
ایلاء کا لغوی معنی ہے : قسم کھانا‘ اور اصطلاح شرع میں اس کا معنی ہے : مدت مخصوصہ تک شوہر کااپنی منکوحہ سے جماع نہ کرنے کی قسم کھانا‘ اور زیادہ صحیح تعریف یہ ہے کہ اپنی منکوحہ سے چار مہینے تک جماع نہ کرنے کی قسم کھانا۔
ایلاء کی اصطلاح
ایلاء کا شریعت میں اصطلاحی معنی یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی بیوی سے مطلق طور پر یا ہمیشہ کے لیے یا چار مہینہ اوراس سے زیادہ مدت کے لیے جماع نہ کرنے کی قسم کھالے، اسی طرح بیوی سے چار ماہ یا زیادہ مدت میں جماع کرنے کی صورت میں کوئی ایسی چیز اپنے اوپر لازم کرلے جس کی ادائیگی ایک گونہ دشوار اور مشکل ہو مثلا یہ کہے کہ اگر میں تجھ سے جماع کرلوں تو مجھ پر حج یا روزہ وغیرہ واجب ہو جائے توبھی ایلاء ہی شمارہوگا۔
ابن عباس نے فرمایا : چار ماہ سے کم میں ایلاء نہیں ہے۔[1]
"ایلاء" سال دوسال کا بھی ہوا کرتا تھا، جو ظاہر ہے کہ عورت کے لیے نہایت ہی تکلیف دہ بات تھی، قرآن مجید نے چار ماہ تک کی مدت مقرر کردی کہ اگر قسم کھا کر اس سے زیادہ بیوی سے بے تعلق رہے تو طلاق واقع ہو جائے گی۔[2]
ایلاء کی اقسام
اس کی دو اقسام ہیں۔
اِیلاء مُؤبّد
ایسا ایلا جس میں چار مہینے کی قید نہ ہو ۔
اِیلاء مُؤقّت
ایسا اِیلا جس میں چار مہینے کی قید ہو ۔[3]
مذاہب خمسہ کے اقوال
احناف
علامہ مرغینانی حنفی لکھتے ہیں :
"جب کوئی شخص اپنی بیوی سے یہ کہے کہ اللہ کی قسم! میں تم سے مقاربت نہیں کروں گا‘ یا کہے : اللہ کی قسم! میں تم سے چار مہینے مقاربت نہیں کروں گا تو وہ ایلاء کرنے والا ہے کیونکہ قرآن مجید میں ہے : جو لوگ اپنی عورتوں سے مباشرت نہ کرنے کی قسم کھا لیتے ہیں ان کے لیے چار مہینے کی مہلت ہے ‘ اگر انھوں نے (اس مدت میں) رجوع کر لیا تو بے شک اللہ بہت بخشنے والا بڑا بردبار ہے ‘ اور اگر انھوں نے طلاق ہی کا ارادہ کر لیا ہے تو بے شک اللہ خوب سننے والا بہت جاننے والا ہے۔ (البقرہ : 227۔ 226)
اگر اس نے چار مہینے کے اندر اپنی بیوی سے مباشرت کرلی تو اس کی قسم ٹوٹ جائے گی اور اس پر کفارہ لازم ہوگا اور ایلاء ساقط ہو جائے گا‘ اور اگر اس نے چار مہینے اپنی بیوی سے مقاربت نہیں کی تو اس کی بیوی پر از خود طلاق بائنہ واقع ہو جائے گی۔
شوافع
امام شافعی نے کہا : کہ قاضی کے تفریق کرنے سے طلاق بائنہ واقع ہوگی جیسا کہ مقطوع الآلہ اور نامرد کے مسئلہ میں قاضی کی تفریق سے طلاق بائنہ واقع ہوتی ہے۔ علامہ ماوردی شافعی لکھتے ہیں :
- چار ماہ گزرنے کے بعد وقوع طلاق کے متعلق دو قول ہیں ‘ عثمان‘ علی‘ ابن زید‘زید بن ثابت‘ ابن مسعود‘ ابن عمر‘ اور ابن عباس‘ کا قول ہے کہ اس مدت کے گزرنے کے بعد طلاق بائنہ واقع ہوجاتی ہے اورعمر اورعلی کا دوسرا قول‘ اور ایک روایت میں عثمان کا دوسرا قول یہ ہے کہ چار ماہ گزرنے کے بعد شوہر کو اختیار ہے خواہ رجوع کرے خواہ طلاق دے دے ‘ امام شافعی اور اہل مدینہ کا یہی مذہب ہے۔[4]
علامہ المرغینانی نے امام شافعی کا جو یہ مذہب نقل کیا ہے کہ چارماہ کی مدت گزرنے کے بعد قاضی کی تفریق سے طلاق بائن ہوگی‘ یہ نقل صحیح نہیں ہے ‘ بلکہ امام شافعی کا مذہب یہ ہے کہ مدت گزرنے کے بعد شوہر کو اختیار ہے چاہے تو رجوع کرلے اور چاہے تو طلاق دے دے۔
حنابلہ
علامہ ابن جوزی حنبلی لکھتے ہیں : ابوصالح نے بیان کیا کہ بارہ صحابہ سے چار ماہ گذرنے کے بعد رجوع و طلاق کا اختیار قول منقول ہے اور امام مالک‘ امام احمد اور امام شافعی کا یہی مذہب ہے۔ اور دوسرا قول یہ ہے کہ چار ماہ گزرنے کے بعد از خود طلاق واقع ہو جائے گی‘ اور یہ طلاق بائن ہوگی‘ عثمان ذوالنورین‘علی المرتضی‘ عبد اللہ ابن عمر‘ زید بن ثابت‘ اور قبیصہ بن ذویب‘ سے یہی منقول ہے :[5]
مالکیہ
قاضی ابوبکر ابن العربی مالکی لکھتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (البقرہ : 227) پس اگر وہ طلاق کا ارادہ کریں ‘ اس میں یہ دلیل ہے کہ مدت گزرنے سے از خود طلاق واقع نہیں ہوتی بلکہ طلاق اس وقت واقع ہوگی جب شوہر طلاق دینے کا قصد کرے گا‘ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب نے یہ کہا ہے کہ چار ماہ تک اس کا رجوع نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا عزم طلاق ہے ‘ ہمارے علما نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ چار ماہ تک رجوع نہ کرنا اس کا ماضی ہے اور ماضی پر عزم کرنا محال ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ چار ماہ گزرنے کے بعد اگر وہ طلاق کا عزم کریں ‘ اس سے معلوم ہوا کہ چار ماہ گزرنے کے بعد اس کے طلاق دینے سے طلاق واقع ہوگی۔[6]
جعفریہ
ایلاء چار مہینے سے کم مدت کا واقع نہیں ہوتا اور جائز ہے لیکن اگر ایلاء کی جملہ شرائط (زوجہ مدخولہ بہا ہو، اسم اللہ کے ساتھ قسم، قصد اضرار ہو، ۔۔۔) کے ساتھ چار ماہ یا اس سے زیادہ کی قسم کھائے تو بیوی حاکم شرعی سے رجوع کرنے کا حق رکھتی ہے۔ (اگر بیوی حاکم شرعی کے پاس نہ جائے تو کچھ بھی نہیں ہے بس عورت اپنا حق ضائع کر رہی ہے) بیوی کے رجوع کے بعد حاکم شرعی اس کے شوہر کو چار ماہ کا وقت دے گا کہ مقاربت کرے اور کفارہ ذمے لے اگر مدت تربص (چار ماہ) گذر جائے اور وہ مقاربت نہ کرے تو حاکم شرعی اس کو مقاربت یا طلاق میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے پر مجبور کرے گا اگر انکار کرے اس کو گرفتار کر لیا جائے گا اور کھانے پینے میں تنگی دی جائے گی اور یہ بھی روایت کی گئی ہے کہ جب امام المسلمین اسے طلاق دینے کا حکم دے اور وہ اس سے انکار کرے تو اس کی گردن مار دی جائے( قتل کیا جائے)[7] جب تک ان دو امور میں سے کسی ایک کو نہ مان لے۔ ایلاء خود طلاق ہرگز نہیں ہے۔
دلائل
احناف کا مؤقف
کیونکہ اس نے عورت کے حق کو اس سے سلب کرکے اس پر ظلم کیا ہے اس لیے شریعت نے اس کو یہ سزا دی ہے کہ اس مدت کے پوری ہونے پر نکاح کی نعمت اس سے زائل ہو جائے گی۔ عثمان ذوالنورین‘ علی المرتضی‘ عبد اللہ بن مسعود‘ عبد اللہ بن عمر‘ عبد اللہ بن عباس‘ اور زید بن ثابت سے اسی طرح منقول ہے اور ان کی اقتداء کرنی ہمارے لیے کافی ہے اور اس لیے کہ زمانہ جاہلیت میں قسم کھاتے ہی فورا طلاق واقع ہوجاتی تھی اور شریعت اسلامیہ نے وقوع طلاق کے لیے مدت پوری ہونے کی حد مقرر کردی۔
اگر اس نے چاہ ماہ تک مقاربت نہ کرنے کی قسم کھائی تھی تو چار ماہ کے بعد قسم ساقط ہو جائے گی اور اگر اس نے یہ قسم کھائی تھی کہ میں کبھی اس سے مقاربت نہیں کروں گا تو چار ماہ بعد اس کی بیوی کو طلاق بائنہ ہو جائے گی اور قسم باقی رہے گی‘ پھر اگر اس نے اس سے دوبارہ نکاح کر لیا اور اس کے بعد مقاربت کرلی تو فبہا اور اسے اس قسم کے توڑنے کا کفارہ دینا ہوگا‘ اور اگر اس نے پھر چار ماہ تک مقاربت نہیں کی تو اس کی بیوی پر دوبارہ طلاق بائنہ پڑجائے گی اور اگر اس نے اس سے پھر تیسری بارنکاح کر لیا تو پھر اسی طرح ہوگا یعنی اگر اس نے مقاربت کرلی تو فبہا ورنہ چار ماہ بعد پھر اس کی بیوی پر طلاق بائنہ پڑجائے گی اور اس کے بعد حلالہ شرعیہ کے بغیر وہ اس سے چوتھی بارنکاح نہیں کر سکتا اور چوتھی بار نکاح کرنے کے بعد پھر اسی طرح ہوگا۔
اگر اس نے چار ماہ سے کم کی قسم کھائی ہے تو یہ ایلاء نہیں ہے ‘ کیونکہ ابن عباس نے فرمایا : چار ماہ سے کم میں ایلاء نہیں ہے ‘ کیونکہ جس شخص نے ایک ماہ مقاربت نہ کرنے کی قسم کھائی اور پھر چار ماہ تک مقاربت نہیں کی تو بقیہ تین ماہ کے عرصہ میں اس نے بغیر قسم کے مقاربت نہیں کی اور جو بغیر قسم کے تین ماہ بلکہ اس سے زائد عرصہ تک بھی مقاربت نہ کرے تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔[1]
مالکیہ کا رد
قاضی ابوبکر ابن العربی کا یہ استدلال درست نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے اگر وہ طلاق کا عزم کریں یہ نہیں فرمایا کہ وہ زبان سے طلاق دیں‘ جب کہ ائمہ ثلاثہ کا یہ مذہب ہے کہ شوہر جب زبان سے طلاق دے گا تو طلاق واقع ہوگی‘ اور قرآن مجید میں زبان سے طلاق دینے کا ذکر نہیں ہے بلکہ طلاق کے عزم کا ذکر ہے اور اس کا چار ماہ تک رجوع نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس عزم کا ذکر ہے اور اس کا چار ماہ تک رجوع نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا عزم طلاق دینا تھا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : پس اگر وہ طلاق کا عزم کریں‘ اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ اس مدت کے بعد وہ عزم کریں‘ بلکہ اس کا معنی ہے : اگر وہ طلاق کے عزم پر مستمر اور برقرار رہیں تو اللہ تعالیٰ خوب سننے والا ہے‘ بہت جاننے والا ہے‘ یعنی ان کے دل کی بات کوسننے والا ہے اور ان کی نیت کو جاننے والا ہے‘ سننے کا تعلق صرف کلام لفظی سے نہیں ہوتا بلکہ کلام نفسی سے بھی ہوتا ہے۔[8]
حوالہ جات
- ^ ا ب ہدایہ اولین ص 402۔ 401‘ مطبوعہ شرکہ علمیہ‘ ملتان
- ↑ احکام القرآن للجصاص:جلد1صفحہ370
- ↑ بہار شریعت ،ج2،حصہ8،ص182
- ↑ النکت والعیون ج 1 ص 290 ‘۔ 289‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ‘ بیروت
- ↑ زاد المیسر ج 1 ص‘ 285 مطبوعہ مکتب اسلامی‘ بیروت‘
- ↑ (احکام القرآن ج 1 ص 247‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ‘ بیروت‘
- ↑ من لا یحضرہ الفقیہ جلد سوم شیخ صدوق صفحہ 327
- ↑ تفسیر تبیان القرآن،غلام رسول سعیدی