بحیرا راہب
بحیراراہب۔ انھوں نے نبی ﷺ کو قبل آپ کی نبوت کے دیکھا تھا اور آپ پر ایمان لائے تھے۔
بحیرا راہب | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
تاریخ پیدائش | 6ویں صدی |
تاریخ وفات | 7ویں صدی |
عملی زندگی | |
پیشہ | راہب |
درستی - ترمیم |
پہلی روایت
ترمیمابن عباس نے روایت کی ہے کہ ابوبکر صدیق اٹھارہ برس کی عمر سے نبی ﷺ کے ہمراہ رہتے تھے اس وقت نبی ﷺ کی عمر بیس برس کی تھی وہ دونوں تجارت کی غرض سے شام جا رہے تھے یہاں تک کہ جب ایک منزل میں قیام کیا تو وہاں ایک درخت بیری کا تھا نبیﷺ اس کے سایہ میں بیٹھ گئے اور ابوبکر صدیق اس راہب کے پاس گئے اس سے کچھ پوچھنا چاہتے تھے راہب نے ان سے پوچھا کہ یہ کون شخص ہیں جو بیری کے سائے میں بیٹھے ہیں ابوبکر نے کہا کہ یہ محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہیں راہب نے کہا خدا کی قسم یہ نبی ہیں (ہمارے یہاں لکھا ہوا ہے کہ) اس درخت کے سایہ میں عیسی بن مریم علیہ السلام کے بعد سوا محمد ﷺ کے کوئی نہ بیٹھے گا اسی وقت سے ابوبکر کے دل میں یقین اور تصدیق آگئی تھی چنانچہ جب آنحضرت ﷺ نبی ہوئے تو ابوبکر صدیق نے (فورا) آپ کی پیروی کر لی۔ ان کا تذکرہ ابن مندہ اور ابو نعیم نے لکھا ہے۔[1]
دوسری روایت
ترمیمجب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 12 برس دو مہینے دس دن کی ہو گئی تو آپ کے چچا ابو طالب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لے کر تجارت کے لیے ملک شام کے سفر پر نکلے اور بصرٰی پہنچے۔ بصرٰی شام کا ایک مقام اور حوران کا مرکزی شہر ہے۔ اس وقت یہ جزیرۃالعرب کے رومی مقبوضات کا دار الحکومت تھا۔ اس شہر میں جرجیس نامی ایک راہب رہتا تھا جو بحیرا کے لقب سے معروف تھا، جب قافلے نے وہاں پڑاؤ ڈالا تو یہ راہب خلاف معملول اپنے گرجا سے نکل کر قافلے کے اندر آیا اور اس کی میزبانی کی حالانکہ اس سے پہلے وہ کبھی نہیں نکلتا تھا۔ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف کی بنا پر پہچان لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ کر کہا: یہ سید العالمین صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، اللہ انھیں رحمتہ للعالمین بنا کر بھیجے گا۔ ابو طالب نے کہا آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا؟ اسنے کہا " تم لوگ جب گھاٹی کے اس جانب نمودار ہوئے تو کوئی بھی درخت یا پتھر ایسا نہیں تھا جو سجدہ کے لیے جھک نہ گیا ہو اور یہ چیزیں نبی کے علاوہ کسی اور انسان کو سجدہ نہیں کرتیں "۔ پھر میں انھیں مہر نبوت سے پہچانتا ہوں جو کندھے کے نیچے کری (نرم ہڈی) کے پاس سیب کی طرح ہے اور ہم انھیں اپنی کتابوں میں بھی پاتے ہیں۔ اس کے بعد بحیرا راہب نے ابو طالب سے کہا انھیں واپس کردو ملک شام نہ لیجاؤ کیونکہ پہود سے خطرہ ہے۔ اس پر ابو طالب نے بعض غلاموں کی معیت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ واپس بھیج دیا۔
بحیرا کی خانقاہ
ترمیمرومی عہد میں اسقفیہ کبرا کی وجہ سے بصرہ میں ایک باسلیق (مخروطی دار القضاء) قائم تھا۔ اس کے قریب سینٹ سرجیئس کی خانقاہ تھی جس میں ایک بڑا گرجا بھی تھا جس کی دیواریں اور محراب ابھی تک باقی ہیں۔ یہیں بحیرا راہب کی اقامت گاہ تھی جس نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آیندہ رسالت کی اس وقت گواہی دی جب آپ اپنے چجا ابو طالب کے ہمراہ بصرہ آئے تھے۔[2]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ اسد الغابہ ،مؤلف: أبو الحسن عز الدين ابن الاثير جلد اول صفحہ 255 المیزان پبلیکیشنز لاہور
- ↑ ڈاکٹر شوقی ابو خلیل (2009ء)۔ اٹلس سیرت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔ لاہور: دارالسلام، پاکستان۔ صفحہ: 100۔ ISBN 9789960899060۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 مارچ 2016