برج، ایسی تعمیرات ہیں جو اپنی بلندی یا اونچائی کی وجہ سے مشہور ہیں۔ تکنیکی تعریف کی رو سے ایک برج اپنے پھیلاؤ کی نسبت یقینی طور پر کافی بلند ہوتا ہے۔ برج کی تعمیر عام طور پر ان کی اونچائی سے فوائد حاصل کرنے کے لیے کی جاتی ہے اور یہ یا تو اکیلے تعمیری ڈھانچے کی صورت میں یا پھر کسی دوسری تعمیرات کے ساتھ جوڑ کر بنائے جاتے ہیں۔

کینیڈا کے شہر اونٹاریو میں واقع سی این ٹاور، جو دنیا کا سب سے بلند یک جزوی برج ہے
ولز ٹاور، یہ امریکا کے شہر شکاگو میں واقع ہے اور 1973ء تک امریکا کا سب سے بلند برج تھا
فرانس کے شہر پیرس میں ایفل ٹاور

تاریخ ترمیم

تاریخ انسانی میں زمانہ قدیم سے برج کی تعمیر کی جاتی رہی ہے۔ ایک خیال کیا جاتا ہے کہ دنیا میں سب سے پہلا دریافت شدہ برج 8000 قبل مسیح میں تعمیر ہوا جو نیولیتھک جیورچو کی دیوار پر بنایا گیا۔ 4000 قبل مسیح کے ایک برج سے یہ پتہ چلا ہے کہ زمانہ قدیم میں برج عمودی تعمیر نہیں کیے جاتے تھے بلکہ یہ پتھروں کے سہارے اہرام کی شکل میں بنائے جاتے تھے۔ بابل کے برج اس ضمن میں سب سے مشہور تصور کیے جاتے ہیں جو فن تعمیرات کا بہترین نمونہ بھی ہیں۔ قدیم دنیا کا سب سے بلند برج بھی بابل میں دریافت ہوا ہے جو تقریباً 2000 قبل مسیح میں تعمیر ہوا۔
قدیم دور کے ایسے برج جو اب بھی موجود ہیں، اسکاٹ لینڈ میں واقع ہیں۔ یہ حفاظت یا قافلوں کے لیے مشعل راہ کا کام کرتے تھے۔ قدیم رومی سلطنت کے برج بھی اس ضمن میں مشہور ہیں کہ ان کی تعمیر اور وجہ تعمیر جدا رنگ رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر 1000 قبل مسیح کے دور کے رومی طرز تعمیر کے حفاظتی برجوں کی باقیات سے پتہ چلتا ہے کہ اس دور کے معماران اور طرز تعمیرات اپنے تئیں ایک جدا رنگ رکھتے ہیں۔ رومی عام طور پر آٹھ کونوں والے برج تعمیر کیا کرتے تھے۔[1] اسی طرح کروشیا میں سب سے قدیم دریافت شدہ برج 300ء کے ہیں جن کی باقیات اب یادگار کے طور پر مشہور ہیں۔ چینیوں نے برجوں کی تعمیر خالصتاً حفاظت کے مقصد کے لیے کی اور دیوار چین میں جا بجا حفاظتی مقاصد کے لیے برج تعمیر کیے گئے۔ دیوار چین 210 قبل مسیح میں تعمیر ہوئی۔
اسلامی تعمیرات میں برجوں کی بہترین مثال مینار ہیں۔ مراکش میں ایک مینار برج حسن جو مکمل نہیں کیا گیا تھا، اس ضمن میں سب سے قدیم اور مشہور ہے۔ اس کی تعمیر 1199ء میں بند کر دی گئی تھی اور آج بھی یہ مینار نامکمل حالت میں ایک یادگار کے طور پر موجود ہے۔[2]
تاریخی لحاظ سے ایک اور مشہور برج، برج پیسا ہے جو اٹلی میں پیسا کے مقام پر واقع ہے۔ اس برج کی تعمیر 1173ء میں شروع ہوئی اور 1372ء تک جاری رہی۔ چودھویں اور پندرہویں صدی میں برج ہمالیہ کی تعمیر تبت میں ہوئی، جو مشرق میں برج کی تاریخ میں اہم نام رکھتے ہیں۔[3]

حوالہ جات ترمیم

  1. سی مچل ہوگن (6 اکتوبر 2007ء)۔ "Diocletian's Palace" 
  2. جسٹن میک گنیز (2003ء)۔ مراکش بارے ایک کتابچہ۔ فٹ پرنٹ ٹریول گائیڈز۔ صفحہ: 560 
  3. ڈانا تھامس (15 نومبر، 2003ء)۔ "جنت کے برج"۔ نیوز ویک