بابل (Babylon) میسو پوٹیمیا (موجودہ عراق) کا ایک قدیم شہر ہے جو سلطنت بابل اور کلدانی سلطنت کا درالحکومت تھا۔ یہ موجودہ بغداد سے 55 میل دور، بجانب جنوب، دریائے فرات کے کنارے آباد تھا۔ چار ہزار سال قبل مسیح کی تحریرں میں اس شہر کا تذکرہ ملتا ہے۔ 1750 قبل مسیح میں بابی لونیا کے بادشاہ حمورابی نے اسے اپنا پایہ تخت بنایا تو یہ دنیا کا سب سے بڑا اور خوب صورت شہر بن گیا۔ 689 ق م میں بادشاہ بنوکدنصریا بخت نصر دوم نے اسے دوبارہ تعمیر کرایا۔ پرانا شہر دریائے فرات کے مشرقی کنارے پر آباد تھا۔ بخت نصر نے دریا پر پل بنوایا اور مغربی کنارے کا ایک وسیع علاقہ بھی شہر کی حدود میں شامل کر لیا۔ اس کے عہد میں شہر کی آبادی 5 لاکھ کے قریب تھی۔ معلق باغات، جن کا شمار دنیا کے سات عجائبات میں ہوتا ہے، اسی بادشاہ نے اپنی ملکہ کے لیے بنوائے تھے۔ 539 ق م میں ایران کے بادشاہ سائرس نے بابل پر قبضہ کر لیا۔ 275 ق م میں اس شہر کا زوال شروع ہوا اور نئے تجارتی مراکز قائم ہونے سے اس کی اہمیت ختم ہو گئی۔ اب اس کے صرف کھنڈر باقی ہیں۔

بابل
بابل
From the foot of Saddam Hussein's Summer Palace a Humvee is seen driving down a road towards the left. Palm trees grow near the road and the ruins of Babylon can be seen in the background.
صدام حسین کے محل سے شہر بابل کے کھنڈر کا جزوی منظر
Babylon lies in the center of Iraq
Babylon lies in the center of Iraq
اندرون Iraq
مقامحلہ ، ولایت بابل ، عراق
خطہبین النہرین/میسوپیٹیمیا
قسمآباد
رقبہ9 کلومیٹر2 (97,000,000 فٹ مربع)
تاریخ
معمارعموریہ
قیام1894 ق م
اہم معلومات
حالتتباہ شدہ
ملکیتعام
عوامی رسائیہاں

تاریخ ترمیم

بابلیون(بابل) یہ قدیم لغت میں دیار مصر کے لیے مستعمل نام ہے خاص طور پر یہاں فسطاط آباد ہوا۔ اس سے پہلے اسے بابلیون کہا جاتا تھا۔
تورات کے مطابق حضرت آدم بابل میں رہتے تھے جب قابیل نے ہابیل کو قتل کیا تو آدم علیہ السلام سے ناراض ہوئے قابیل اپنے اہل و عیال کے ساتھ بھاگ کر ارض بابل کے پہاڑوں میں چلا گیا تو اس جگہ کا نام بابل پڑ گیا جس کے معنی ہیں فرقت یا جدائی۔ پھر جب حضرت ادریس نبی مبعوث ہوئے اور دوسری طرف قابیل کی اولاد بڑھ گئی تو وہ پہاڑوں سے نیچے اتر کر بہت فساد بپا کیا اس میں نیک لوگ بھی شامل ہو گئے تو حضرت ادریس نے اللہ سے دعا کی کہ انھیں ایسی سرزمین عطا ہو جس میں ارض بابل کی طرح دریا بہتا ہو تب انھیں ارض مصر میں منتقل ہونے کا حکم ہوا جب وہ مصر پہنچے تو وہاں کے ماحول کو زندگی کے موافق اور خوشگوار پایا تو اس کا نام بابل سے ملتا جلتا بابلیون رکھا جس کے معنی ہیں اچھی جدائی یا اچھی فرقت۔
ابن ہشام کہتے ہیں کہ بابلیون سبا(یمن ) والوں سے ایک شخص تھا جو حضرت ابراہیم کے زمانے میں مصر پرحکومت کرتا تھا۔[1]

نگار خانہ ترمیم

بیرونی ربط ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. اٹلس فتوحات اسلامیہ ،احمد عادل کمال ،صفحہ 225،دارالسلام الریاض