برطانیہ میں تصوف
برطانیہ میں تصوف میں دلچسپی 1960ء اور 1970ء کے دہے سے بڑھی ہے۔ اس تحریک کو زیادہ مشہور عبدالقادر الصوفی (اِیان ڈَلاس) جیسے لوگوں نے کیا۔ اس تحریک کے اثرات لیورپول، کارڈیف، ٹائنسائڈ (Tyneside)، شیفیلڈ اور برمنگھم میں دیکھے گئے ہیں۔ برطانیہ میں ہجرت کر کے قیام پزیز لوگوں کی اکثریت سنی بریلوی تصوف اپنائی ہوئی ہے جبکہ برطانوی نومسلم زیادہ تر علوی طریقہ تصوف پر عمل پیرا ہیں۔[1]
ابتدائی جڑیں
ترمیمشیخ احمد العلوی کے تصوف کا طریقہ بہت اہم ہے کیونکہ عبد القادر الصوفی نے اسی طریقے کا فروغ 1977ء میں برطانیہ میں کیا تھا۔ اسی طریقے کو شیخ نوح کیلر نے بھی اپنایا تھا جو 1990ء کے دہے میں روایتی اسلام کے ایک اہم قائد بن کر ابھرے تھے۔[1] مراکش کا طریقہ قادریہ بودشیشیہ (الطریقۃ القادریۃ البودشیشیۃ)[2] کا بھی برطانیہ میں رواج ہے جو دیگر طریقوں کے مقابلے برطانیہ اور دیگر جگہوں میں مختلف ہے۔ بلقان کے کرشماتی شیوخ کی رہنمائی میں برطانیہ میں عَلَمی اور رِفاعی طریقے بھی سنی بریلوی طریقوں کے ساتھ ساتھ مقبول ہو چکے ہیں۔[1]
بریلوی سنی اسلام
ترمیمپاکستان کے مذہبی رہنما طاہر القادری کی تعلیمات نے برطانیہ کی تصوف تحریک پر بھی اپنا اثر چھوڑا ہے۔ اس کے علاوہ حقانی نقشبندی طریقہ سنی مسلمانوں میں کافی مقبول ہوا ہے۔ ترکی کے فتح اللہ گولن کی تحریک نے بھی برطانیہ میں قدم جما رکھے ہیں۔ تحریک نے شمالی لندن میں ایک اسکول بھی کھول رکھا ہے۔[1]
آن لائن تصوف
ترمیمآن لائن تصوف یا آن لائن صوفی ازم برطانیہ میں تصوف اور مذہبی گفتگو کا ایک انوکھا طریقہ رواج پا چکا ہے۔ اس کے تحت کئی آن لائن فورم موجود ہیں جن کے ارکان کئی بار عام سوچ سے ہٹ کر اور کبھی کبھی بالکلیہ انقلابی سوالات برقی پردہ (electronic veil) کی آڑ میں رہ کر کرتے ہیں اور انھیں اپنے سوالات کے جوابات بھی ملتے ہیں۔[1]