بنو دنی داسی (1841ء-1941ء) کولکاتا میں مقیم بنگالی زبان کی مشہور اداکارہ اور تھیٹر آرٹسٹ تھیں۔[1] انھوں نے 12 برس کی عمر میں اداکاری کی شروعات کی اور 23 برس کی عمر میں ان کا کیرئر ختم ہو گیا۔ انھوں نے اپنی خود نوشت سانح امر کتھا میں اس کا انکشاف کیا جو 1913ء میں شائع ہوئی تھی۔[2]

بنو دنی داسی
(بنگالی میں: বিনোদিনী দাসী ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

معلومات شخصیت
پیدائش 1862ء
کولکاتا   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 1941ء (عمر 78–79)
کولکاتا   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ ڈراما اداکارہ
مادری زبان بنگلہ   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان بنگلہ   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

حالات زندگی

ترمیم

انھوں نے بحیثیت طوائف زادی اس دنیا میں اپنی آنکھیں کھولیں اور اپنا کیرئر ایک داشتہ کے طور پر بعمر 12 سال کیا۔ انھوں نے کولکاتا سے نیشنل تھیٹر میں 1874ء میں اپنا پہلا سنجیدہ ڈراما پیش کیا جس کے نگراں گیریش چندر گھوش تھے۔[3] اسی دوران میں بنگالی تھیٹر میں یورپی ثقافت میں فروغ پا رہی تھی اور عوام اسے ہاتھوں ہاتھ لے رہی تھی۔ اپنے بارہ سال کے کیرئر میں انھوں نے 8 کردار نبھائے ہیں جن میں سیتا، دروپدی، رادھا، عائشہ، کائیکائی، موتی بی بی اور کپال کوندلا شامل ہیں۔ وہ جنوبی ایشیا کی اول درجہ کی تھیٹر اداکارہ ہیں جنھوں خود نوشت سوانح عمری لکھی ہے۔ انھوں نے اچانک اپنا کیرئر ختم کر دیا اور لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ کسی نے اب تک اس کی کوئی تفصیل یا وجوہات پر روشنی نہیں ڈالی ہے۔ انھوں نے اپنی خود نوشت میں کئی دغا اور بے وفائی کا تذکرہ کیا ہے۔ انھوں نے دقیانوسیت کو نظر انداز کرتے ہوئے نسوانیت کا اپنایا اور سماج میں اپنی اہمیت اور عظمت پر قلم اٹھایا۔ ان کا شہرہ اتنا زیادہ تھا کہ 19ویں صدی کے مشہور صوفی سنت رام کرشن 1884ء میں ان کا ڈراما دیکھنے آئے تھے۔[4] انھوں نے بنگالی تھیٹر کو نئی تکنیک سے نوازا اور یورپی تکنیک کو متعارف کرایا جس سے بنگالی تھیٹر کو ایک نئی سمت ملی۔

ثقافت عامہ میں

ترمیم

1994ء میں ان پر ایک فلم بنی جس کا نام ناتی بنودنی تھا۔ اس میں پراسینت جی چٹرجی اور دیباشری رائے نے اداکاری تھی۔[5]

ان کی سوانح عمری “امر کتھا“ پر ایک ڈراما بنام ناتی بنودنی بنایا گیا۔ جسے پہلی دفعہ نیشنل اسکول آف ڈراما نے 1995ء میں پیش کیا اور دوسری دفعہ 2006ء میں تھیٹر ہدایتکار امل علانہ نے دہلی میں پیش کیا۔[6][7][8]

حوالہ جات

ترمیم
  1. Ghulam Murshid (2012)۔ "Dasi, Binodini"۔ $1 میں Sirajul Islam، Ahmed A. Jamal۔ Banglapedia: National Encyclopedia of Bangladesh (Second ایڈیشن)۔ Asiatic Society of Bangladesh 
  2. "Women on stage still suffer bias: Amal Allana (Interview)"۔ Sify News۔ 11 مارچ 2010۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 اپریل 2010 
  3. Bringing alive Binodini Dasi دی ٹریبیون، Sunday, 18 نومبر 2007.
  4. Christopher Pinney, Photos of the Gods p. 42
  5. Nati Binodini-IMDB
  6. Romesh Chander (8 دسمبر 2006)۔ "Autobiography comes alive : "Nati Binodini"، based on Binodini's autobiography "Aamar Kathaa""۔ The Hindu۔ 6 جون 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 اپریل 2010 
  7. "STAGE CRAFT"۔ India Today۔ 8 فروری 2008۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 اپریل 2010 
  8. "Lights, sets, action.۔: Nissar and Amal Allana's "Nati Binodini" premieres this weekend in Delhi."۔ The Hindu۔ 24 نومبر 2006۔ 01 اپریل 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 اپریل 2010