بچوں کا اغوا دنیا بھر میں پھیلا ہوا سنگین جرم ہے۔ یہ جرم بطور خاص ترقی پزیر ممالک میں زیادہ پایا جا سکتا ہے۔ یہاں پر بچوں کے اغوا کے پیچھے کئی وجوہ کار فرما ہیں۔ اس میں بچوں کی مزدوری، بچوں کے ذریعے بھیک مانگنے لگوانا، لاولد جوڑوں کی اولاد کی ضرورت کی تکمیل کرنا اور قحبہ گری جیسی باتیں شامل ہیں۔

بھارت میں بچوں کا اغوا ترمیم

بھارت میں سماجی کاموں کے لیے عالمی شہرت پانے والے اور ملالہ یوسف زئی کے ساتھ نوبل انعام پانے والے کیلاش ستیارتھی کہتے ہیں، "ایسے میں سب سے سستے اور کمزور مزدور بچے ہی ہیں۔ خاص طور سے لڑکیاں۔ ایسے میں سستے مزدور کی مانگ بھارت کے دوردراز کے گاؤں سے بڑے شہروں کی طرف بچوں کی اسمگلنگ کو بڑھاوا دے رہی ہے۔" ایک تخمینے کے مطابق بھارت میں دنیا کے کسی بھی حصے کے مقابلے زیادہ بچے مزدور ہیں۔ ملک میں بظاہر طور بچوں کا اغوا غیر قانونی ہے، لیکن اس مسئلے پر قانونی موقف صاف نہیں ہے کہ کب وہ قانونی طور سے کام کر سکتے ہیں۔ بچوں کی مزدوری کے قانون کے مطابق 14 سال سے کم عمر کے بچوں کو کام پر رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ مگر عالمی پیمانے کے حساب اگر جائزہ لیا جائے تو پھر قانونی روپ سے 18 سال سے کم عمر ہونے پر اسے بچہ ہی مانا جاتا ہے۔[1]

بھارت میں کئی افراد افواہوں اور واٹس ایپ کی بھیجی جھوٹی تصویروں اور ویڈیوز کی وجہ سے کئی بے قصور لوگوں کی اغوا کار ہونے کے شبہ کی وجہ سے جان لے چکے ہیں۔[2]

بھارت ریاستہائے متحدہ امریکا کی طرح یکم دسمبر 1990ء سے بین الاقوامی سطح پر بچوں کے اغوا کے معاشرتی پہلوئوں پر 1980ء کے ہیگ کنونشن (ہیگ اغوا کنونشن) کے تحت معاہدے کے شراکت دار رہا ہیں۔[3]

پاکستان میں بچوں کا اغوا ترمیم

ملک سے متعلق رپورٹس کے مطابق جنوری 2016ء سے جون 2016ء کے دوران 652 بچے پنجاب بھر سے اغوا ہوئے ہیں۔ ان بچوں میں سے 312 بچوں کا تعلق صوبائی دار الحکومت لاہور سے ہے۔[4] اسی طرح کے واقعات پر صوبوں میں بھی دیکھے گئے ہیں۔ اس کی وجہ عوام میں بے چینی اور اضطراب پائی جاتی ہے۔ کئی پر تشدد معاملے بھی سامنے آئے ہیں۔ مختلف علاقوں میں کئی مبینہ اغوا کاروں کو پکڑ کر مارا پیٹا گیا مگر ہر بار معاملہ الٹا ہی نکلا اور مشتبہ لوگوں کا اغوا سے کوئی تعلق نہیں تھا۔[5]

قانونی تحفظ کے معاملے میں پولیس اور قانونی ماہرین کے مطابق بچوں کے اغوا اور ان کے ساتھ برے سلوک کی صورت میں تعزیرات پاکستان کی شق 363 اور 324 کے تحت ایف آئی آر درج کی جا سکتی ہے اور خاطی مجرمین کے خلاف کار روائی شروع کی جا سکتی ہے۔ [6]

والدین ہی کی جانب سے بچوں کا اغوا ترمیم

مغربی ممالک میں بچوں کے اغوا کی ایک الگ قسم بھی رائج ہے، جس میں اجنبی یا جانے پہچانے لوگ نہیں بلکہ خود ماں باپ بچوں کا اغوا کرتے ہیں۔ برطانیہ میں گذشتہ دس سال میں والدین کے ہاتھوں بچوں کے اغوا کے معاملوں کی تعداد دگنی ہو گئی ہے۔ اور وزارت خارجہ اور فلاحی ادارے ری یونائٹ کے جاری 2013ء کے اعداد و شمار کے مطابق روزانہ تقریبًا دو بچے اغوا کر لیے جاتے ہیں.[7]

حوالہ جات ترمیم

  1. 'अपहरण, यौन शोषण फिर बंधुआ मज़दूरी' - BBC News हिंदी
  2. بھارت : وٹس ایپ پر ’’ بچہ اغوا‘‘ کی افواہیں پھیلنے کے بعد دو اور قتل - صفحہ اول
  3. "بین الاقوامی والدین کے ذریعہ بچے کا اغوا | بھارت میں امریکی سفارتخانہ اور قونصل خانے"۔ 14 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 جون 2018 
  4. بچوں کے اغوا کی وارداتیں، چیف جسٹس کا از خود نوٹس - BBC News اردو
  5. بچوں کا اغوا ،عوام نے سڑکوں پر عدالتیں لگالیں،پکڑے جانے والے دو اغواء کار کون تھے؟ پولیس کا حیرت انگیز انکشاف - JavedCh.Com
  6. فیصل آباد: 5 سالہ بچے کا اغوا اور تشدد - Pakistan - Dawn News
  7. https://www.gov.uk/government/news/new-fco-figures-show-parental-child-abduction-cases-on-the-rise.ur