بھارت میں حق معلومات کے فعالیت پسندوں پر حملے

بھارت میں کئی حق معلومات قانون کے کارکن جن میں پولیس اہل کار شامل ہیں، ہراساں کیے گئے ہیں اور ان کا قتل بھی ہوا ہے کیونکہ وہ "ہر عوامی ادارے میں شفافیت اور جواب دہی کے فروغ" سے متعلق معلومات حاصل کرنے کی کوشش کیے تھے۔ کچھ مسلسل حملے جھیلتے ہیں۔ لوگ جو اپنی دیہی پنچایتوں اور مقامی انتظامیہ سے معلومات طلب کرتے ہیں، سماجی مقاطعہ کا سامنا کرتے ہیں۔ کچھ کارکنوں نے جو حق معلومات کے تحت قومی دیہی ملازمت گارنٹی قانون 2005ء کی دھاندلیوں پر معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تھی، ان کا قتل کر دیا گیا۔[1][2][3] کئی دھمکیاں اور حملے (جن میں قتل بھی شامل ہیں) میڈیا کی جانب سے نظر انداز کیے جاتے ہیں۔[4]

خلاصہ

ترمیم

بھارت میں حق معلومات کے کارکن خطرے سے دوچار انسانی حقوق کے پاسبان ہیں۔ انسانی حقوق کے پاسبانوں کے برعکس، حق معلومات کے زیادہ تر کارکن کسی بھی تنظیم کا حصہ نہیں ہیں؛ وہ اکثر تنہا عمل پیرا ہیں، رشوت اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں سے نالاں ہیں۔ حق معلومات کے کارکن خطرے سے دوچار ہیں کیونکہ وہ انھی علاقوں میں آباد ہیں جہاں عوامی ارباب مجاز اور سیاسی قائدین جو اپنی سرگرمیوں کی تفصیلات کا افشا نہیں چاہتے، آباد ہیں۔ زیادہ تر کارکن میڈیا کی توجہ کا مرکز تبھی بنتے ہیں جب وہ قتل ہوتے ہیں یا بری طرح سے زخمی ہوتے ہیں۔ جب یہ کارکن شکایات درج کرواتے ہیں، قانون کی نافذ شخصیات (جو عمومًا رشوت خور افسروں کے شانہ بہ شانہ کام کرتے ہیں)، فوری ضروری کارروائی نہیں کرتے۔ حق معلومات قانون کسی تنظیم کی غلط کاریوں کی نشان دہی کرنے والوں کو ناکافی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ مرکزی معلوماتی کمیشن اور ریاستی معلوماتی کمیشنوں کو اس طرح کی دھمکیوں یا حملوں سے جوجنے یا ضروری تحفظ عندالطلب فراہم کرنے کا مجاز حاصل نہیں ہے۔[5]

اس بات کی ضرورت ہے کہ حق معلومات قانون کی ترمیم کی جائے تاکہ جو لوگ اس قانون کے تحت معلومات طلب کریں ان کی حفاظت یقینی بنائی جائے۔ ایشین سنٹر فار ہیومن رائٹز سفارش کرتا ہے کہ ایک علاحدہ باب "ان لوگوں کا تحفظ جو اس قانون کے تحت معلومات طلب کرتے ہیں اس قانون کا حصہ بنایا جائے۔[6] حفاظتی اقدامات میں (1) حق معلومات کارکنوں کی جانب سے لازمی فوری دھمکی یا حملے کی شکایت کا ایف آئی آر میں اندراج اور ان ایف آئی آروں کو مجسٹریٹ یا جج کے روبرو 24 گھنٹوں کے اندر دھمکی زدگان اور ان کے اہل خانہ کے تحفظ کے لیے ہدایت اور وقتًا فوقتًا ان اقدامات کا جائزہ۔ (2) کسی دھمکی یا حملے کی تحقیقات کم از کم ڈپٹی سپرانٹنڈنٹ افسر / اسسٹنٹ کمشنر آف پولیس سے 90 دنوں کے اندر ہونا چاہیے۔ (3) ملزم کا مقدمہ چھ مہینوں میں ہونا چاہیے۔ مزید یہ کہ عوامی معلومات افسر، پہلی اپیل کے ارباب مجاز اور جو مطلوبہ معلومات سے سیدھے طور پر جڑے ہیں انھیں حق معلومات کارکن کے خلاف جرائم کو ہوا دینے کا ذمے دار سمجھا جانا چاہیے تاوقتیکہ شواہد کوئی اور صورت حال سامنے نہ لائیں۔

حق معلومات کارکنوں پر حملوں اور قتل کے معاملوں میں مہاراشٹر سرفہرست ہے۔[7] ان کارکنوں پر کیرلا اور مغربی بنگال میں کسی حملے کا شکارنہیں ہونا پڑا۔ تاہم ان اطلاعات کا باوثوق ہونا ضروری نہیں کیونکہ حق معلومات کارکن بننے کے دعوے کے تحت کئی لوگ دھمکانے کا کاروبار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ سبھی قتل کے الزامات کا سچ ہونا ضروری نہیں۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. "RTI Activists Sitting Ducks of India" (PDF)۔ 23 مارچ 2012 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 مارچ 2012 
  2. "In India, Whistle-Blowers Pay with Their Lives"۔ Mobile.businessweek.com۔ 2011-10-20۔ 16 جولا‎ئی 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 مارچ 2012 
  3. "ACHR demands amendment of the Act to protect the activists"۔ Achrweb.org۔ 24 مارچ 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 مارچ 2012 
  4. Maharashtra tops country in attacks, murder of RTI activists | India News - Times of India