بھارت کی ٹریکٹر صنعت
بھارت کی موجودہ زرعی پس منظر میں ٹریکٹروں کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ ماضی میں جہاں بیلوں کا بہ کثرت استعمال ہوتا تھا، اب یہ جانور زراعت کی بجائے صرف دودھ کا ذریعہ بن چکے ہیں۔
بھارت میں ٹریکٹروں کی آمد
ترمیمبھارت کی ٹریکٹر صنعت کو 1945ء سے 1960ء کے بیچ فروغ ملا جب بھارت میں دوسری جنگ عظیم سے بازیاب ٹریکٹروں اور بلڈوزروں کو ملک میں متعارف کروایا گیا۔ 1951ء میں 8,500 ٹریکٹر تھے۔ یہ تعداد 1960ء میں بڑھ کر 37,000 ہو گئی۔ 1961ء سے 1970ء تک پانچ صنعتکاروں نے مقامی طور ٹریکٹروں کی تیاری شروع کی۔ 1970ء کے اختتام تک سالانہ 20,000 سے زائد ٹریکٹر تیار کیے جانے لگے جبکہ ملک میں 1,46,000 ٹریکٹر بہ روئے کار تھے ۔1971ء سے 1980ء کے بیچ مزید پانچ تیارکنندے بازار میں آئے، تاہم ان میں سے صرف ایک سخت مقاابلے کے آگے باقی رہا۔ 1990ء میں سالانہ 1,40,000 ٹریکٹر ملک میں بنے جبکہ برسرعمل ٹریکٹروں کی تعداد 12 لاکھ تھی۔ 2007ء-08ء میں ملک میں دو لاکھ ٹریکٹروں کی بکری دیکھی گئی۔[1]
صنعت کے سرکردہ نام
ترمیم- بلوان ٹریکٹرز
- فورس موٹرز لیمیٹیڈ
- ایچ ایم ٹی ٹریکٹرز
- اِنڈوفارم
- جان ڈیری (John Deere)
- مہندرا گجرات ٹریکٹر لیمیٹیڈ
- مہندرا اینڈ مہندرا
- مارس فارم ایکویپمینٹز لیمیٹیڈ
- نیو ہالینڈ
- پریت ٹریکٹرز
- پنجاب ٹریکٹرز لیمیٹیڈ (سواراج ٹریکٹرز)
- سامے دیئوتز فار لیمیٹیڈ (Same Deutz-Fahr Limited)
- سونالیکا انٹرنیشنل ٹریکٹرز لیمیٹیڈ
- اسٹینڈرڈ
- ٹافے (TAFE)[1]
صنعت کی خصوصیت
ترمیمبھارت میں جہاں آٹوبائیل صنعت گراوٹ دکھا رہی ہے، وہیں ٹریکٹر صنعت 9% کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔ دنیا کے تقریبًا 20 % ٹریکٹر بھارت میں ہی بنتے ہیں۔ بھارت کی قابل کاشت زمین دنیا کی کل قابل کاشت زمین کا 12% حصہ ہے۔ بھارت کے ٹریکٹر بازار کی لاگت تقریبًا 6000 کروڑ روپیے ہے۔ یہاں اوسطًا 4 لاکھ ٹریکٹر بنتے ہیں اور 2.6 لاکھ کی بکری ہوتی ہے۔ اتر پردیش بھارت میں ٹریکٹروں کا سب سے بڑا بازار ہے۔ یہاں ہر 5 میں ایک ٹریکٹر بِکتا ہے۔[1]