بھوٹان کے بارے میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ یہ ایک بدھ مت کی اکثریتی مملکت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک رفاہی مملکت ہے، جہاں کے باشندے عمومًا خوش حال ہیں۔ تاہم جدید تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ بھوٹان میں خواتین (انگریزی: Women in Bhutan) ظلم و ستم کا شکار رہی ہیں۔ ان پر خصوصًا جسمانی تشدد کے واقعات کثرت سے رو نما ہوئے ہیں اور یہ واقعات کافی پھیلے ہوئے ہیں۔ خواتین کے حقوق اور ان کے تحفظ کے لیے ایک غیر سرکاری ادارہ ’رینیو‘ بھوٹان میں سنہ 2004ء سے کام کر رہا ہے۔ یہ ادارہ 2016ء تک خواتین پر تشدد کے 4000 معاملات کی نشان دہی کر چکا ہے۔ اس ادارے کے 2400 سے زائد رضا کارخواتین پر تشدد کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں اور معاشرے میں اس بارے میں آگاہی پھیلانے کے لیے سرگرم ہیں۔ اس ادارے کی ایک رضا کار امبیکا نیوپانے جو خود گھریلو تشدد کا شکار رہی ہیں، کہتی ہیں، ’’بہت سی خواتین کو ہماری مدد درکار ہے۔ ہم انھیں آگے آنے میں اور انھیں قانونی مشاورت فراہم کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔‘‘ سنہ 2014ء میں رینیو نے تشدد کے 50 معاملات کو ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا اور یہ ادارہ 132 خواتین کو ایک متبادل رہائش میں پناہ بھی فراہم کیے ہوئے ہے۔ یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ بھوٹان کی 74 فیصد خواتین جسمانی تشدد کا شکار رہی ہیں۔[1]

عالمی صنفی درجہ بندی

ترمیم

صنفی فرق کی عالمی درجہ بندی رپورٹ 2019ء کے مطابق بنگلہ دیش 50، نیپال 101، سری لنکا 102، بھارت 112ویں، مالدیپ 123 اور بھوٹان 131ویں نمبر پر ہے۔ ماہرین کے مطابق، 153 ملکوں میں پاکسان کا 151 ویں نمبر پر ہونا زیادہ باعث تشویش ہے، اگر چیکہ بھوٹان کا 131 ویں نمبر پر ہونا بھی اس ملک کے لیے غور اور اس صورت حال کو بہتر بنانے کی کوشش پر غور کرنے کا مقام ہے۔[2]

خواتین کو بااختیار بنانے کی کوششیں

ترمیم

بھارت کے گھریلو صارفین کے استعمال والے آلات بنانے والی معروف کمپنی اوشا انٹرنیشنل لمیٹیڈ نے جامع ترقی کے مقصد سے بھوٹان میں تارائین فاؤنڈیشن کے تعاون سے سلائی اسکول پروگرام 2014ء میں شروع کیا ہے۔ اس کے تحت تقابلی اصول وضوابط کی بنیاد پر منتخب بیس خواتین کو تربیت کار کے طور پر مقرر کرنے کے لیے 10 روز کی تکنیکی تربیت دی جائے گی۔ اس طرح سے ملک میں خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے غیر ملکی ادارہ جات اور ایجنسیاں بھی کوشاں ہیں۔[3]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم