بھیلسا پر علاء الدین خلجی کا حملہ
بھیلسا پر علاء الدین خلجی کا حملہ سنہ 1293ء میں ہوا تھا۔ اس وقت علاء الدین خلجی سلطان نہیں بلکہ جلال الدین خلجی کے ایک سالار اور کڑہ کے حاکم تھے۔ اس حملے میں انھوں نے شہر کے ہندو مندروں کو خاصا نقصان بھی پہنچایا اور خوب مال غنیمت لوٹ کر سلطان کی خدمت میں پیش کیا۔
پس منظر
ترمیمسلطان جلال الدین خلجی کے عہد حکومت میں علاء الدین خلجی کڑہ کے حاکم تھے۔ گو وہ بظاہر تخت دہلی کے اطاعت گزار نظر آتے تھے لیکن درحقیقت ان کی نگاہیں اسی تخت پر گڑی ہوئی تھیں۔ وہ جلال الدین خلجی کا تختہ پلٹنا چاہتے تھے جس کے لیے انھیں خاصی بڑی رقم درکار تھی۔ چنانچہ انھوں نے مالوہ کی مملکت پرمار کے حدود میں واقع ایک شہر بھیلسا پر حملہ کا عزم کیا۔ ادھر پرمار سلطنت کی بدقسمتی تھی کہ سنہ 1290ء کی دہائی تک یادو، واگھیلا اور چوہان کے مسلسل حملوں نے اس کی چولیں ہلا دی تھیں۔[1] علاء الدین خلجی نے سلطنت کی اس کمزوری کو بھانپ کیا اور اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے سنہ 1292ء کے اواخر میں سلطان جلال الدین سے بھیلسا پر لشکر کی اجازت حاصل کر لی۔[2]
لشکر کشی
ترمیمسنہ 1293ء میں علاء الدین خلجی چندیری اجین شاہراہ کے ذریعے بھیلسا کے لیے روانہ ہوئے۔[3][2] حملہ اتنا اچانک تھا کہ شہر کے باشندوں کو سنبھلنے کا موقع بھی نہیں مل سکا۔[2] اس شہر میں ہندوﺅں کے متعدد مندر خاصے مالدار اور ان کے خزانے نقدی، سونے اور چاندی کے زیورات سے بھرے ہوئے تھے۔[3] علاء الدین خلجی کو ان مندروں سے بے شمار دولت ہاتھ آئی۔ شہر کے باشندے اپنے گھروں میں نصب مورتیوں کو دریائے بیتوا میں چھپانے لگے تاکہ وہ علاء الدین کی فوج کے ہاتھ نہ لگیں اور مبادا وہ ان کی بے حرمتی کر بیٹھیں۔ فوج نے کئی مندروں کو نقصان پہنچایا، انھیں تاراج کیا اور ان میں موجود اموال لوٹ لیے۔[2] عبد القادر بدایونی کی منتخب التواریخ میں درج ہے کہ الغ خان نے یہاں سے ایک بڑا بت جس کی ہندو بہت پرستش کرتے تھے دلی لے آیا اور اسے بدایوں دروازے کے پاس راہگیروں کے ٹھوکروں میں ڈال دیا۔[4][5]
نتیجہ
ترمیمبھیلسا میں علاء الدین کو اندازہ ہو گیا تھا کہ یادو سلطنت کے اندر دولت کے کیسے انبار پوشیدہ ہیں۔ نیز یہیں سے انھیں یادو کے پایہ تخت دیوگیری کے راستے کا بھی علم ہو گیا۔ چنانچہ انھوں نے کمال ہوشیاری سے بھیلسا کا مال غنیمت جلال الدین کو روانہ کیا تاکہ سلطان کا اعتماد مزید مضبوط ہو لیکن سلطنت یادو کے متعلق معلومات کا تبادلہ نہیں کیا بلکہ انھیں اپنے تک ہی محدود رکھا۔[6]
سلطان جلال الدین اپنے داماد علاء الدین کی اس شاندار فتح اور کارکردگی سے بہت خوش ہوئے اور انھیں "عریض ممالک" (وزیر جنگ) کا منصب عطا کیا جس پر پہلے ان کے والد فائز تھے۔ نیز اس کے ساتھ سلطان نے انھیں اودھ کی حکومت بھی بخش دی اور یہ درخواست کی کہ اودھ کی مالگرزای کے منافع سے اپنی افواج کو مزید مضبوط کریں۔[3][7] چنانچہ ان سب کے بعد علاء الدین خلجی نے دیوگیری پر چڑھائی کر دی اور وہاں سے حاصل شدہ مال غنیمت کو سلطان کے پاس بھیجنے کی بجائے اپنے زیر امارت کڑہ روانہ کر دیا۔ بالآخر یہی مال غنیمت علاء الدین خلجی کو تخت سلطنت پر متمکن ہونے میں معاون بنا۔[7]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Banarsi Prasad Saksena 1992، صفحہ 321
- ^ ا ب پ ت Kishori Saran Lal 1950، صفحہ 44
- ^ ا ب پ Banarsi Prasad Saksena 1992، صفحہ 322
- ↑ Dineschandra Sircar 1971، صفحہ 117
- ↑ Kishori Saran Lal 1950، صفحہ 44-45
- ↑ A. B. M. Habibullah 1992، صفحہ 322
- ^ ا ب Kishori Saran Lal 1950، صفحہ 45
کتابیات
ترمیم- A. B. M. Habibullah (1992) [1970]۔ "The Khaljis: Jalaluddin Khalji"۔ بہ Mohammad Habib؛ Khaliq Ahmad Nizami (مدیران)۔ A Comprehensive History of India۔ The Indian History Congress / People's Publishing House۔ ج 5: The Delhi Sultanat (A.D. 1206-1526)۔ OCLC:31870180
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Banarsi Prasad Saksena (1992) [1970]۔ "The Khaljis: Alauddin Khalji"۔ بہ Mohammad Habib؛ Khaliq Ahmad Nizami (مدیران)۔ A Comprehensive History of India: The Delhi Sultanat (A.D. 1206-1526) (Second ایڈیشن)۔ The Indian History Congress / People's Publishing House۔ ج 5۔ OCLC:31870180
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Dineshchandra Sircar (1971)۔ Studies in the Religious Life of Ancient and Medieval India۔ Motilal Banarsidass۔ ISBN:978-81-208-2790-5۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-05-26
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Kishori Saran Lal (1950)۔ History of the Khaljis (1290-1320)۔ Allahabad: The Indian Press۔ OCLC:685167335
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت)