منتخب التواریخ
منتخب التواریخ اکبری عہد کے مورخ ملا عبد القادر بدایونی (پیدائش: 5 اگست 1540ء– وفات: 5 نومبر 1605ء) کی فارسی تالیف ہے، جس میں مؤلف نے سلطنت غزنویہ کے بانی امیر ناصر الدین سبکتگین کی تخت نشینی (377ھ/ 977ء) سے لے کر 1004ھ یعنی عہد اکبری کے 40 سال تک کے واقعات درج کیے ہیں۔ اس کتاب کے مخطوطات برٹش میوزیم اور ہندوستان کے مختلف کتب خانوں میں موجود ہیں۔ اس کتاب کے مشمولات پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مؤلف نے مختلف تواریخ کا مطالعہ کر کے آسان زبان میں ان کا خلاصہ بیان کر دیا ہے اور بکھری ہوئی معلومات کو یکجا کر دیا ہے۔
منتخب التواریخ | |
---|---|
منتخب التواریخ کا پہلا فارسی متن جو کلکتہ سے ڈاکٹر کیپٹن ولیم نساؤ لیس اور منشی احمد علی نے شائع کیا۔ 1865ء
| |
مصنف | ملا عبدالقادر بدایونی |
اصل زبان | فارسی |
موضوع | تاریخ |
تاریخ اشاعت | 10 نومبر 1595 |
درستی - ترمیم |
تاریخ
ترمیمکتاب کی ابتدا 999ھ/ 1590ء کے اوائل میں کی گئی[1] اور یہ کتاب تقریباََ 5 سال کی مدت میں ماہِ صفر 1004ھھ مطابق اکتوبر 1595ء میں تکمیل کو پہنچی۔ منتخب التواریخ کا آغاز 377ھ/ 977ء سے ہوتا ہے اور اِس کا اختتام جمعہ 7 ربیع الاول 1004ھ مطابق 10 نومبر 1595ء پر ہوتا ہے۔ مجموعی طور پر یہ 627 قمری سالوں اور 618 شمسی سالوں کی تفصیلی تاریخ ہے۔
سبب تالیف و تصنیف
ترمیمملا عبدالقادر بدایونی خود اِس تصنیف کی وجہ تالیف سے متعلق لکھتے ہیں کہ:
” | بنی نوعِ انسان کے اِس دعاگو عبدالقادر بن ملوک شاہ بدایونی نے 999ھ کے اوائل میں حضرت خلیفہ زماں ظل اِلہٰی اکبر بادشاہ کے حکم کی تعمیل میں انتخابِ تاریخ کشمیر کا ہندی سے فارسی زبان میں ترجمہ کرنے سے فراغت پائی۔ مجھے چونکہ بچپن سے بڑھاپے تک اِس علم تاریخ سے اُنسیت رہی ہے، اِس لیے اِس عرصہ میں کوئی وقت ایسا نہیں گزرا کہ میں اِس علم کے مطالعہ یا تحریر میں مشغول نہیں رہا، خواہ اپنی رغبت سے تھا یا کسی دوسرے کے حکم کی تعمیل میں، چنانچہ با رہا میرے دل میں آیا کہ دارالسلطنت دہلی کے بادشاہوں کے بارے میں اِختصار سے کچھ لکھا جائے یعنی ابتدائے اسلام کے زمانہ سے لے کر اِس زمانِ تحریر تک مختصراً لکھا جائے تاکہ ہر بادشاہ کے احوال کی وہ ایک ایسی اجمالی یادداشت ہو جو احباب کے لیے تذکرہ کا کام دے اور اربابِ بصیرت کی نظر میں اُسے تبصرہ کی حیثیت حاصل ہو۔[1] | “ |
مواد
ترمیمکتاب اصلاً فارسی زبان میں ہے جو عہد اکبری میں تصنیف کی گئی ہے۔ ملا عبدالقادر بدایونی نے کتاب منتخب التواریخ میں کوئی باب یا فصل قائم نہیں کیا لیکن کتاب میں مضامین اپنی نوعیت کے لحاظ سے ازخود تین مختلف حصہ جات میں منقسم ہو گئے ہیں۔[2]
کتاب کا پہلا حصہ
ترمیمکتاب کا پہلا حصہ سلطنت غزنویہ کے پہلے سلطان امیر ناصر الدین سبکتگین کے عہد ِ حکومت یعنی 367ھ/ 977ء سے شروع ہوتا ہے جبکہ اِس کا اختتام مغل شہنشاہ نصیر الدین محمد ہمایوں کی وفات یعنی 963ھ/ جنوری 1556ء پر ہوتا ہے۔ بااعتبارِ تقسیم اِس حصہ میں غوری خاندان، سلطنت غزنویہ، سلطنت دہلی اور اولین دو مغل بادشاہوں ظہیر الدین بابر اور نصیر الدین محمد ہمایوں کی وفات تک مفصل تاریخی حالات مرقوم ہیں۔
کتاب کا دوسرا حصہ
ترمیمکتاب کے دوسرے حصہ میں مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کی تخت نشینی یعنی ربیع الثانی 963ھ/ 14 فروری 1556ء سے لے کر ماہِ صفر 1004ھ/ اکتوبر 1595ء تک کے مفصل تاریخی حالات مرقوم ہیں۔[3] منتخب التواریخ کا یہ دوسرا حصہ ملا عبدالقادر بدایونی کے عینی شاہد ہونے کا مصدقہ ثبوت ہے۔ مجموعی طور پر یہ مدت 39 سال شمسی اور 41 سال قمری ہے۔
کتاب کا تیسرا حصہ
ترمیمکتاب کے تیسرے حصہ میں اُن مشاہیر کا تذکرہ کیا گیا ہے جو عہدِ اکبری میں گذرے ہیں۔ اِن مشاہیر میں علمائے کرام، شعرا، اُمراء و فقراء، حکماء شامل ہیں۔ کتاب کے اِس تیسرے حصہ میں ملا عبدالقادر بدایونی نے 38 شیوخ، 69 علما، 15 فلسفی و ماہر طبیعیات اور 67 شعرا حضرات کا تذکرہ کیا ہے۔[4]
اقتباسات
ترمیممنتخب التواریخ کا سال تکمیل 1004ھ/ 1595ء ہے اور اِس میں میں ملا عبدالقادر بدایونی نے سلاطین دہلی کے حالات یحییٰ بن احمد بن عبد اللہ سرہندی کی تالیف تاریخ مبارک شاہی اور خواجہ نظام الدین احمد بن خواجہ مقیم ہروی(متوفی: 1003ھ/ 1594ء) کی تالیف طبقات اکبرشاہی المعروف بہ طبقات اکبری سے اخذ کیے ہیں۔ شعرا کا تذکرہ علاؤ الدولہ قزوینی کی تصنیف نفائیس المآثر سے منتخب کیا گیا ہے۔[5]
منتخب التواریخ عہد اکبری میں
ترمیممنتخب التواریخ 1004ھ/ 1595ء میں مکمل ہو چکی تھی اور ملا عبدالقادر بدایونی بقیدِ حیات تھے مگر انھوں نے 1595ء کے بعد کے شاہی حالات و تفصیلات تحریر نہیں کیں اور اِس کام کو بعد کے مؤرخین پر چھوڑ دیا۔ عہدِ اکبری میں اِس کتاب کے مکمل ہوجانے یا کسی بھی طرح کے نسخہ کے منظر عام پر آنے کا ثبوت نہیں ملتا حتیٰ کہ عہدِ جہانگیری میں 1616ء تک محققین و مؤرخین اِس کتاب سے لاعلم تھے۔ علاوہ ازیں یہ اِس کتاب کے مکمل ہونے کے تقریباً 10 سال بعد مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کی وفات ہوئی اور کتابِ ہذا کا دوسرا حصہ جو عہدِ اکبری کے تاریخی واقعات پر مبنی ہے اور اِس میں جلال الدین اکبر کی دینی و سیاسی سرگرمیوں پر ملا عبدالقادر بدایونی نے سخت تنقید کی ہے، شاید اِسی وجہ سے کتاب پردہ اخفا میں رہی اور محمد شاہ کے عہد تک کتاب منظر عام پر نہیں آسکی۔
منتخب التواریخ عہد جہانگیری میں
ترمیماِس کتاب میں چونکہ مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کی دینی سرگرمیوں پر نہایت کڑی اور مخالفانہ نکتہ چینی کی گئی ہے اور اِسی خیال سے اِس کتاب کو کم از کم عہدِ جہانگیری کے دسویں سال تک مخفی رکھا گیا۔ 1025ھ/ 1616ء میں جب ملا عبد الباقی نہاوندی نے تصنیف مآثر رحیمی کی ابتدا کی تو اُسے منتخب التواریخ کا مطلق علم نہ تھا۔ مرآۃ العالم (سنہ تالیف: 1087ھ/ 1667ء) کے مصنف شیخ محمد بقاء سہارنپوری نے لکھا ہے کہ ملا عبدالقادر بدایونی کی اولاد نے شہنشاہ جہانگیر کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ انھیں اِس تصنیف کے وجود کا کوئی علم نہیں۔[6][7] اِس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ عہدِ جہانگیری کے تقریباً وسط تک اِس کتاب کے متعلق کسی کو علم نہیں تھا۔
اشاعت و تراجم
ترمیممنتخب التواریخ پہلی بار فارسی متن میں لکھنؤ سے 1868ء میں شائع ہوئی مگر یہ فارسی متن اب مفقود ہو چکا ہے۔ مستشرق ڈاکٹر کیپٹن ولیم نساؤ لیس (William Nassau Lees) اور منشی احمد علی نے کلکتہ سے 1864ء سے 1869ء تک یعنی 6 سال کے دورانیہ میں اِسے شائع کیا۔ منتخب التواریخ کا پہلا انگریزی ترجمہ 1895ء سے 1914ء تک تین جلدوں میں بسلسلہ کتب ہندیہ میں شائع ہوا، اِس کی پہلی جلد کا انگریزی ترجمہ George. S. A. Ranking نے، دوسری کا W.H. Lowe اور تیسری کا سر ولزلی ہیگ نے ترجمہ کیا۔ یہ انگریزی ترجمہ ایشیاٹک سوسائٹی، بنگال سے 1884ء سے 1925ء تک کے دورانیہ میں شائع ہوا۔ اِس سے قبل ڈاکٹر وِلسن نے صرف اُس حصہ کا انگریزی ترجمہ کیا تھا جس میں مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کے حالات موجود ہیں (یعنی دوسری جلد) اور یہ ڈاکٹر وِلسن کے مجموعہ تصنیفات کی دوسری جلد میں صفحہ 279 سے صفحہ 400 تک موجود ہے۔
کتاب کا پہلا اُردو ترجمہ مولوی احتشام الدین مراد آبادی نے کیا جو مطبع نولکشور، لکھنؤ سے 1889ء میں شائع ہوا۔ موجودہ اردو تراجم میں دو ترجمے زیادہ شہرت کے حامل ہیں۔ پہلا ترجمہ محمود احمد فاروقی کا ہے جو 773 صفحات پر مکمل ترجمہ شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور سے شائع کیا اور دوسرا اردو ترجمہ ڈاکٹر علیم اشرف خان کا ہے جسے تین جلدوں میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، دہلی نے 2008ء میں شائع کیا۔
ملخص
ترمیماس کتاب کا خلاصہ انتخابِ منتخب تواریخ یا انتخابِ منتخب کے نام سے عبد الشکور بن شیخ عبد الواسع ٹھٹوی نے مرتب کیا تھا۔[8]
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب ملا عبدالقادر بدایونی: منتخب التواریخ، انگریزی ترجمہ جلد اول، صفحہ 8۔ مطبوعہ دہلی، 1990ء۔
- ↑ شمس اللہ قادری: مؤرخین ہند، صفحہ 13، مطبوعہ حیدرآباد دکن 1933ء
- ↑ ملا عبد القادر بدایونی: منتخب التواریخ، جلد 2، صفحہ 348۔ مطبوعہ دہلی 2008ء۔
- ↑ ملا عبدالقادر بدایونی: منتخب التواریخ، انگریزی ترجمہ جلد اول، صفحہ 16۔ مطبوعہ دہلی، 1990ء۔
- ↑ شمس اللہ قادری: مؤرخین ہند، صفحہ 13، مطبوعہ حیدرآباد دکن 1933ء۔
- ↑ برٹش میوزیم: مخطوطات فارسی، عدد 7657، ورق 452 الف۔ ب۔
- ↑ اردو دائرۃ المعارف الاسلامیہ: جلد 4، صفحہ 144، تذکرہ تحت مضمون بداؤنی۔ مطبوعہ لاہور۔
- ↑ ڈاکٹر ظہور الدین احمد: پاکستان میں فارسی ادب کی تاریخ عہد جہانگیر سے عہد اورنگزیب تک۔ صفحہ 253، طبع دؤم، مطبع مجلس ترقی ادب، لاہور، اکتوبر 2016ء۔