بیع سلم

فقہ اسلامی میں بیع یعنی خرید و فروخت کی ایک اصطلاح

بیع سلم :(V.A LIVRER)اس بیع کو کہتے ہیں جس میں ثمن(قیمت)فوراً ادا کرنا ضروری ہو اور مبیع(فروخت شدہ چیز)کو بعد میں خریدارکے حوالے کرنابیچنے والے پرلازم ہو۔ بیع سلم کو لفظ "بدلی "سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔

لغوی و اصطلاحی معنی ترمیم

سلم کے لغوی معنے ہیں تسلیم یعنی سپردکرنا،سونپنا۔شریعت میں سلم یہ ہے کہ قیمت فی الحال دی جائے،چیز ادھار ہو،یہ تجارت سات آٹھ شرطوں سے جائز ہے،چونکہ اس بیع میں قیمت فورًا سپرد کی جاتی ہے اس لیے سلم کہلاتی ہے،اسے بیع سلف یعنی ادھار کی بیع بھی کہتے ہیں کہ مال مبیع اس میں ادھار ہوتا ہے۔ بیع سلم کا ثبوت قرآن شریف سے بھی ہے،رب تعالیٰ فرماتاہے:اِذَا تَدَایَنۡتُمۡ بِدَیۡنٍ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًی فَاکْتُبُوۡہُ

  • يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ وَلْيَكْتُبْ بَيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ وَلَا يَأْبَ كَاتِبٌ أَنْ يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللَّهُ فَلْيَكْتُبْ وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ وَلَا يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْئًا فَإِنْ كَانَ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيهًا أَوْ ضَعِيفًا أَوْ لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يُمِلَّ هُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ فَإِنْ لَمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى وَلَا يَأْبَ الشُّهَدَاءُ إِذَا مَا دُعُوا وَلَا تَسْأَمُوا أَنْ تَكْتُبُوهُ صَغِيرًا أَوْ كَبِيرًا إِلَى أَجَلِهِ ذَلِكُمْ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ وَأَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَى أَلَّا تَرْتَابُوا إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِيرُونَهَا بَيْنَكُمْ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَلَّا تَكْتُبُوهَا وَأَشْهِدُوا إِذَا تَبَايَعْتُمْ وَلَا يُضَارَّ كَاتِبٌ وَلَا شَهِيدٌ وَإِنْ تَفْعَلُوا فَإِنَّهُ فُسُوقٌ بِكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللَّهُ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ

یہاں بیع سلم مراد ہے۔ رہن کے معنی ہیں حبس یعنی قید کرنا،روکنا،شریعت میں گروی کو رہن کہتے ہیں۔ جس کی حقیقت یہ ہے کہ کسی کے حق کی وجہ سے اپنی کوئی چیز حقدار کے پاس رکھ دی جائے کہ جب یہ شخص حق دار کا حق ادا کر دے،اپنی چیز لے لے،رہن کا ثبوت قرآن شریف سے بھی ہے حدیث شریف سے بھی۔ چنانچہ رب تعالیٰ فرماتاہے:"فَرِہٰنٌ مَّقْبُوۡضَۃٌ

  • وَإِن كُنتُمْ عَلَى سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُواْ كَاتِبًا فَرِهَانٌ مَّقْبُوضَةٌ فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُم بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ وَلْيَتَّقِ اللّهَ رَبَّهُ وَلاَ تَكْتُمُواْ الشَّهَادَةَ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ

"اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک یہودی سے کچھ قرض لیا اوراپنی زرہ اس کے پاس گروی رکھی حتی کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے وقت وہ زرہ گروی ہی تھی جو جناب صدیق اکبر نے چھوڑائی۔(اشعہ و لمعات)[1]

بیع کی صورتیں ترمیم

بیع کی چار4 صورتیں ہیں:

  • 1 دونوں طرف عین ہوں یا
  • 2 دونوں طرف ثمن یا
  • 3 ایک طرف عین اور ایک طرف ثمن اگر دونوں طرف عین ہو اُس کو مقایضہ کہتے ہیں اور دونوں طرف ثمن ہو تو بیع صرف کہتے ہیں اور تیسری صور ت میں کہ ایک طرف عین ہو اور ایک طرف ثمن اس کی دوصورتیں ہیں، اگر مبیع کا موجود ہونا ضروری ہو تو بیع مطلق ہے،
  • 4 اور ثمن کا فوراً دینا ضروری ہو تو بیع سَلم ہے، لہٰذا سَلم میں جس کو خریدا جاتا ہے وہ بائع کے ذمہ دین ہے اور مشتری ثمن کو فی الحال ادا کرتا ہے۔ جو روپیہ دیتا ہے اُس کو رب السَّلم اور مسلِم کہتے ہیں اور دوسرے کو مسلَم الیہ اور مبیع کو مسلَم فیہ اور ثمن کو راس المال۔ بیع مطلق کے جوارکان ہیں وہ اس کے بھی ہیں اس کے لیے بھی ایجاب وقبول ضروری ہے ایک کہے میں نے تجھ سے سَلم کیا دوسرا کہے میں نے قبول کیا۔ ا ور بیع کا لفظ بولنے سے بھی سَلم کا اِنعقاد ہوتا ہے۔(فتح القدیر، درمختار)[2]

بیع سلم کے شرائط ترمیم

بیع سَلم کے لیے چند شرطیں ہیں جن کا لحاظ ضروری ہے۔

  • (1)عقد میں شرط خیار نہ ہونہ دونوں کے لیے نہ ایک کے لیے۔
  • (2)راس المال کی جنس کا بیان کہ روپیہ ہے یا اشرفی یا نوٹ یا پیسہ۔
  • (3)اُس کی نوع کا بیان یعنی مثلاً اگر وہاں مختلف قسم کے روپے اشرفیاں رائج ہوں تو بیان کرنا ہوگا کہ کس قسم کے روپے یا اشرفیاں ہیں۔
  • (4)بیان وصف اگر کھرے کھوٹے کئی طرح کے سکے ہوں تو اسے بھی بیان کرنا ہوگا۔
  • (5)راس المال کی مقدار کا بیان یعنی اگر عقد کا تعلق اُس کی مقدار کے ساتھ ہو تو مقدار کا بیان کرنا ضروری ہوگافقط اشارہ کرکے بتانا کافی نہیں مثلاً تھیلی میں روپے ہیں تویہ کہنا کافی نہیں کہ ان روپوں کے بدلے میں سَلم کرتاہوں بتانا بھی پڑے گا کہ یہ سوہیں اور اگر عقدکا تعلق اُس کی مقدار سے نہ ہو مثلاً راس المال کپڑے کا تھان یا عددی متفاوت ہو تو اس کی گنتی بتانے کی ضرورت نہیں اشارہ کرکے معین کردینا کافی ہے۔ اگر مسلم فیہ دو مختلف چیزیں ہوں اور راس المال مکیل یا موزوں ہو تو ہرایک کے مقابل میں ثمن کا حصہ مقرر کرکے ظاہر کرنا ہوگا اورمکیل وموزوں نہ ہو تو تفصیل کی حاجت نہیں اوراگر راس المال دومختلف چیزیں ہوں مثلاً کچھ روپے ہیں اورکچھ اشرفیاں تو ان دونوں کی مقدار بیان کرنی ضرو رہے ایک کی بیان کردی اورایک کی نہیں تو دونوں میں سلم صحیح نہیں۔[3]

رَبُّ السَّلَم بیع سلم میں خریدار کو رب السلم کہتے ہیں۔[4] مُسلَم اِلَیہ بیع سلم میں چیز بیچنے والے کومسلم الیہ کہتے ہیں۔[5] مُسلَم فیہ جس چیزپر عقد سلم ہو اس کومسلم فیہ کہتے ہیں،مبیع(بیچی جانے والی چیز)۔[5] رأس المال بیع سلم میں ثمن کو رأس المال کہتے ہیں۔[6]

حوالہ جات ترمیم

  1. مرآۃ المناجیح شرح مشکاۃ المصابیح،احمد یار خان ،جلد 4 صفحہ485
  2. بہار شریعت،امجد علی اعظمی،حصہ11 صفحہ794
  3. بہار شریعت،امجد علی اعظمی،حصہ11 صفحہ795
  4. ردالمحتار،ج7،ص479
  5. ^ ا ب ماخوذمن الدرالمختار،ج7،ص479
  6. بہار شریعت،امجد علی اعظمی