بینظیر قتل مقدمہ
بینظیر بھٹو کا 2008ء میں قتل پر تحقیقات 2014ء تک جاری ہیں۔ بینظیر کی موت اس وقت واقع ہوئی جب وہ لیاقت باغ میں جلسہ سے واپس ہو رہی تھیں۔۔ اپنے نوجوان جیالوں کے نعروں کی جواب دینے کے لیے بینظیر نے گاڑی کی چھت کا ڈھکن کھول کر سر باہر نکالا ہوا تھا۔ گاڑی کے قریب دھماکا ہوا، جس سے ڈھکن بینظیر کے سر پر لگا اور وہ ہولی فیملی شفاخانہ پہنچنے پر مردہ قرار دی گئی۔ دھماکے میں گاڑی کو کوئی قابل ذکر نقصان نہیں ہوا۔ نواز شریف بھی اس واقعہ کے بعد راولپنڈی پہنچے۔ اس واقعہ کے وقت بینظیر کی حفاظت کی ذمہ داری رحمن ملک کے ذمہ تھی اور وہ جائے وقوع پر موجود تھے۔ انتخابات کے بعد رحمن ملک 5 سال تک وزیر داخلہ رہے، مگر اس مقدمہ کی تفتیش آگے نہیں بڑھا سکے۔ اس وقت کے صدر مملکت پرویز مشرف نے تفتیش کے لیے برطانوی ا سکاٹلینڈ یارڈ کی خدمات حاصل کیں، مگر برطانوی کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکے۔ اس وقت طالبان پر شک کیا گیا۔
2008ء انتخابات میں بینظیر کی جماعت کامیاب ہوئی اور بعد میں اس کا خاوند زرداری صدر مملکت کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ پیپلزپارٹی نے حکومت بنانے کے بعد بینظیر کی قتل کی تحقیقات اپنے پرانے مطالبے کے مطابق اقوام متحدہ سے کروانے کے لیے درخواست دی جو اس نے قبول کر لی۔ آصف علی زرداری نے بینظیر کے قتل کی پہلی برسی پر دعوٰی کیا کہ انھیں معلوم ہے کہ قاتل کون ہیں۔ البتہ صدر مملکت بن جانے کے بعد قتل کی دوسری برسی پر اپنی تقریر میں اس بارے کچھ نہ بتا سکے۔ اس تقریر کو مبصرین نے گھٹیا درجہ کا بتایا۔[1]
سابق رئیس عسکریہ مرزا اسلم بیگ نے دعوی کیا کہ بینظیر کو بلیک واٹر نے قتل کیا تھا۔[2] بعض حلقوں میں یہ تاثر عام ہے کہ قتل ڈک چینی کے حکم پر ہوا۔
نواز شریف نے 2013ء انتخابات میں وعدہ کیا کہ وہ اس واقعہ کی تحقیقات کرائے گے مگر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے پرویز مشرف واپس پہنچے تو دوسرے مقدمات کے علاوہ اس واقعہ پر بھی تفتیش کی گئی اور عدالت نے ضمانت قبول کر لی۔ مشرف پر الزام ہے کہ بطور صدر مملکت اس نے بینظیر کو اچھی حفاظت فراہم نہیں کی۔[3] اس سلسلے میں عدالت میں بھی کیس چل رہا ہے جس میں سابق صدر پرویز مشرف ملزم ہیں۔
- ↑ روزنامہ نیشن، 28 دسمبر 2009ء، آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ nation.com.pk (Error: unknown archive URL) "President's threat perception"
- ↑ "بینظیر بھٹو کو امریکہ نے بلیک واٹر کے ذریعے قتل کرایا: جنرل (ر) اسلم بیگ"۔ نوائے وقت۔ 29 دسمبر 2009ء
- ↑ مقدمہ داخل دفتر