تاج الدین فیروز شاہ

بہمنی سلطنت کا آٹھواں سلطان جس نے 1397ء سے 1422ء تک حکومت کی۔

ابو المظفر تاج الدین فیروز شاہفیروز شاہ بہمنی بہمنی سلطنت کا آٹھواں حکمران تھا جس نے 1397ء سے 1422ء تک حکمرانی کی۔

تاج الدین فیروز شاہ
معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش سنہ 1371ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 1 اکتوبر 1422ء (50–51 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
گلبرگہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بہمنی سلطنت   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
احمد شاہ اول ولی   ویکی ڈیٹا پر (P3373) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
سلطان بہمنی سلطنت   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
24 نومبر 1397  – 1 اکتوبر 1422 
 
احمد شاہ اول ولی  
فیروز شاہ بہمنی کا جاری کردہ ایک فرمان

سوانح ترمیم

ابتدائی حالات ترمیم

فیروز شاہ کی صحیح تاریخ پیدائش معلوم کرنا نہایت مشکل ہے، قیاس یہ ہے کہ فیروز شاہ کی پیدائش 772ھ مطابق 1371ء میں ہوئی۔ کیونکہ محمد قاسم فرشتہ نے لکھا ہے کہ فیروز شاہ کے چچا داؤد شاہ کے اِنتقال کے وقت فیروز شاہ کی عمر سات سال اور اِس کے بھائی احمد شاہ کی عمر چھ سال تھی۔ اِس اعتبار سے فیروز شاہ کا سالِ پیدائش 772ھ مطابق 1371ء قرار پاتا ہے جو درست معلوم ہوتا ہے۔ فیروز شاہ کی پیدائش اُس کے چچا محمد شاہ اول کے عہد میں ہوئی تھی۔[1] فیروز شاہ کے ابتدائی حالات اخفائے راز میں ہیں، سوائے اِس کے کہ اُس کے اُستاد کا نام فضل اللہ تھا جس کے پاس فیروز شاہ کے چچا سلطان محمد شاہ اول نے فروز شاہ اور اُس کے بھائی احمد شاہ کو فضل اللہ کے حلقۂ درس میں زانوئے تلمذ اِختیار کرنے کے لیے بٹھایا۔ دونوں بھائیوں نے جو فیروز شاہ اور احمد شاہ کے نام سے بعد میں سلاطین بہمنیہ مشہور ہوئے‘ نے کسبِ علم کا پورا پورا حق ادا کر دیا۔ خصوصاً فیروز شاہ نے جو غیر معمولی طور پر ذہین اور طباع واقع ہوا تھا، اپنے استاد فضل اللہ سے ایسا فائدہ اُٹھایا جس کی تاریخ میں بہت کم مثال ملتی ہے۔ استاد سے ہر سبق اُس کے لیے کسبِ علم کی نئی راہیں بلند کرتا ہوا اُسے نئے مقام پر لے گیا اور فیروز شاہ اپنے اُستاد سے آگے بڑھ گیا۔ بالآخر یہ اپنے بیش بہاء ذخیرۂ معلومات کے ساتھ جب تخت نشیں ہوا تو بہمنی سلطنت میں تعلیم اور تعلیم سے وابستہ حلقوں پر سرکاری پزیرائی ہونے لگی۔[2]

سیاسی اور معاشرتی زندگی ترمیم

فیروز شاہ دکن کے اُن سلاطین میں سے ہے جن کو مؤرخین نے دکن کا تاج بھی کہا ہے کیونکہ اُس کا عہدِ حکومت دکن کا بامِ ترقی تھا۔ آٹھویں صدی ہجری میں بہمنی سلطنت کا قیام عمل میں آیا تھا اور اِس کے قیام کے پس پردہ پاکیزہ نصب العین موجود تھے مگر جس مدوجزر کے ساتھ بہمنی سلطنت نویں صدی ہجری تک پہنچی تھی، وہ کبھی اُمید افزاء اور کبھی ہمت شکن معلوم ہوتے تھے، بالآخر ھ میں اِس سلطنت کا سفینہ تاج الدین فیروز شاہ بہمنی کے سپرد ہوا۔ اِس ہمت شکن ماحول میں جبکہ اغیار کے ہاتھوں سلطنت کو دھکا لگ رہا تھا اور ڈر تھا کہ کہیں یہ نوخیز سلطنت اپنے بلند مقام سے ہٹ نہ جائے، لیکن اِس موقع پر فیروز شاہ نے اپنے بزرگوں کی لاج رکھ لی اور گرتی ہوئی سلطنت کو سنبھالا دِیا بلکہ اِس کو ایسی مضبوط طنابوں سے جکڑ دیا کہ سلطنت عرصہ دراز تک مستحکم ہو گئی۔ فیروز شاہ سیاست کا بہت بڑا ناخدا تھا جس کی سیاست کے تمام گوشوں پر نظر پڑتی تھی، اُس نے گھر میں تمام اقوام اور روایات کا مطالعہ کیا اور اپنی ہمسایہ سلطنتوں کے سیاسی تعلقات پر بھی وسیع نظر ڈالی اور معقول تدابیر سے جواب دیا۔ فیروز شاہ مصلح بھی تھا جس نے سیاست اور معاشرت میں بڑی اِصلاحات بھی کیں۔ اہل دکن کے دِل و دماغ میں ایک تلاطم اور معاشرت میں طوفان برپا کر دیا اور زندگی کا نیا مطمح نظر پیدا کرکے ایک جدید معاشرہ تشکیل دیا۔ [3]

علم پسندی ترمیم

فیروز شاہ کا علمی شغف تمام بہمنی سلاطین سے زیادہ بڑھا ہوا تھا حتی کہ کبھی کبھار اُس کا علمی شغف افسانہ معلوم ہوتا ہے۔ اُسے دکن کا مُعَلَّم سلطان بھی کہا جاتا ہے جس نے زندگی بھر اپنی رعایاء کی علمی و اِخلاقی خدمت بھی کی اور دکن میں علم کے بڑے بڑے خزانے جمع کردیے۔ فیروز شاہ کی علم نوازی سے گلبرگہ ایک علمی مرکز بن گیا تھا۔ خلاصہ یہ کہ فیروز شاہ کے عہدِ درخشاں میں بہمنی سلطنت کے تعلقات دکن سے باہر بھی اُستوار ہوئے، ورنہ دوسرے ممالک کے سلاطین و شہنشاہ بہمنی سلطنت کو بہت کم جانتے تھے۔ دکن کے مشہور مؤرخ محمد قاسم فرشتہ نے بھی لکھا ہے کہ: ’’ سلطان فیروز شاہ بہمنی بہ شوکت و عظمت از دِیگر شاہانِ بہمنیہ امتیاز تمام داشت و آن خاندان بہ اُو بلند آوازہ گشت‘‘۔ [4]

حوالہ جات ترمیم

  1. مجموعۂ مقالات علمیہ: شمارہ نمبر 5، صفحہ 63، مطبوعہ مجلس ادارت حیدرآباد اکادمی، 1943ء
  2. مجموعۂ مقالات علمیہ: شمارہ نمبر 5، صفحہ 65، مطبوعہ مجلس ادارت حیدرآباد اکادمی، 1943ء
  3. مجموعۂ مقالات علمیہ: شمارہ نمبر 5، صفحہ 62، مطبوعہ مجلس ادارت حیدرآباد اکادمی، 1943ء
  4. محمد قاسم فرشتہ: تاریخ فرشتہ، مقالۂ سوم، صفحہ 307، مطبوعہ حیدرآباد دکن۔