گلبرگہ
گلبرگہ ریاست کرناٹک کا ایک تاریخی شہر ہے۔ یہ تاریخی شہر گلبرگہ بنگلور سے 623 کلومیٹراور حیدرآباد دکن سے 200 سے زائدکلومیٹر ہے۔ یہ آزادی سے قبل حضورنظام اورسلطنت آصفیہ کے زیرنگین اوررریاست حیدرآباد کا حصہ تھا۔ فارسی میں گل کے معنی پھول کے ہیں اوربرگہ کے کہتے ہیں باغ کو۔ مطلب گلبرگہ پھولوں کے باغ کوکہتے ہیں۔ شاعرانہ زبان فارسی میں گلبرگہ پھول اور پتوں کوبھی کہاجاتاہے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ پرانے دنوں میں گبرگہ کانام ‘کلابُرگی‘ بھی تھاجسے حالیہ دنوں میں ایک حکومتی فرمان (جی۔ او۔) کے ذریعہ گلبرگہ کاپرانا نام کالابرگی رکھ دیاگیاہے۔ پہلے گلبرگہ کوگلبرگہ شریف بھی کہاجاتاتھا۔ اس تاریخی شہرمیں قلعہ گلبرگہ بھی واقع ہے۔ یہ قلعہ 0.25 مربع کلومیٹرپرپھیلاہواہے۔ اس قلعہ کو روزگارڈن پھولوں کاباغ یاگلبرگہ کے طورپرتعمیرکیاگیاتھا۔ یہ بھی کہاجاتاہے کہ ایک زمانے میں اس شہرکے زیادہ ترگھروں میں پھولوں کے باغ ہواکرتے تھے جس سے اس شہرکانام گلبرگہ پڑا۔ اس نام سے شہرکی جاہ وحشمت اوردولتمندی کابھی پتہ چلتاہے۔ ہندوستان کی آزادی کے بعدگلبرگہ لسانی بنیادپرریاستوں کی تنظیم جدید کے تحت ریاست کرناٹک میں چلاگیا۔
ಗುಲ್ಬರ್ಗಾ کالابُرگی | |
---|---|
شہر | |
ملک | بھارت |
دبموٹ | کرناٹک |
علاقہ | بیالو سیمے |
ضلع | ضلع گلبرگہ |
حکومت | |
• قسم | میئر-کونسل |
بلندی | 454 میل (1,490 فٹ) |
زبانیں :کنڑا۔اردو | |
منطقۂ وقت | بھارتی معیاری وقت (UTC+5:30) |
PIN | 585101 |
فون کوڈ | 91 8472 |
گاڑی کی نمبر پلیٹ | KA-32 |
ویب سائٹ | http://www.gulbargacity.gov.in, http://KA32.in |
تاریخ
ترمیمویسے اس ضلع کی تاریخ کا آغازچھٹی صدی عیسوی سے ہوا۔ راشٹراکوٹہ نے علاقے پر کنٹرول حاصل کر لیالیکن جلد ہی چالوکیہ خاندان اس کو دوبارہ اپنے قبضہ میں لے لیا۔ چالوکیہ خاندان کی اس شہرپرتقریبادو سو سال تک حکومت رہی۔ پھر کالاھریوں نے اسے اپنے کنٹرول میں لیتے ہوئے اس پر بارہویں صدی عیسوی تک حکومت کی۔12ویں صدی کے آخری برسوں میں دیواگری کے یادوں اور دواراسمدرا کے ہویاسالا نے چالوکیہ اور کالاچوری۔ کے اقتدارکوتباہ کر دیا۔ انھی دنوں ورنگل کی کے کاکاتیہ سلاطین آتے ہیں اورگلبرگہ کے ساتھ رائچور کواپنی سلطنت میں داخل کرتے ہوئے دواضلاع کی تشکیل عمل میں لاتے ہیں۔ لیکن 1321 عیسوی میں تاریخ کاوہ سنہرادوربھی شروع ہوتاہے جس میں سلاطین دہلی کی آمدہوتی ہے۔ سلاطین دہلی گلبرگہ رائچورسمیت پورے سطح مرتفع دکن پرقبضہ کرتے ہوئے قانون کی بالادستی قائم کیا۔ اس طرح شہرگلبرگہ پہلی مرتبہ مسلم ریاست کے زیراقتدار آتا ہے۔
بہمنی سلطنت
ترمیمبہمنی سلطنت جنوبی ہندوستان کے علاقے دکن میں پہلی آزاد اسلامی مملکت تھی۔ بہمنی سلطنت کوقرون وسطی کی عظیم سلطنتوں میں شمارکیاجاتاہے۔ علاو الدین حسن بہمن شاہ اس سلطنت کابانی ہے۔ علاو الدین حسن بہمن شاہ نے سلطان محمد بن تغلق سے بغاوت کی تھی۔ جس کے بعدسلطنت دہلی کاباغی نذیرالدین اسماعیل شاہ نے ظفر خان کے حق میں دستبرداری اختیارکرلی۔ جس کے بعدظفرشاہ علاو الدین حسن بہمن شاہ کے خطاب سے تخت نشین ہوا۔ یہ سلطنت دہلی سلطنت کے جنوبی صوبوں میں ایک تھی۔ بہمنی سلطنت کوجنوبی ہندکی ہندوریاست وجئے نگراسے سخت مقابلہ تھا۔1466-1481 کے بیچ محمودگاواں کے دوران وزارت بہنمی سلطنت کوعروج حاصل ہوا۔1518 کے بعدیہ مملکت پانچ ریاستوں میں بٹ گئی۔ جن میں احمد نگر کی نظام شاہی۔گولکنڈا کی قطب شاہی۔ بیدرکی بَرِیدشاہی،برار کی عمادشاہی۔ اوربیجاپور کی عادل شاہی شامل ہے۔ ان سب ریاستوں کومجموعی طورپردکن کی سلطنتیں کہاجاتا ہے۔
دکن کی ریاستیں
ترمیمتیرہویں صدی عیسوی میں سلطنت دہلی کمزورہوجاتی ہے جس کے باعث چھوٹی چھوٹی خود مختاراورازاد ریاستیں وجودمیں ائیں۔ ان ریاستوں میں بہمنی سلطنت بھی شامل رہی۔ 1347عیسوی میں حسن گنگو نے بہمنی سلطنت کاقیام عمل میں لایا۔ حسن گنگو نے اس وقت کے احسن اباد موجودہ گلبرگہ کو دار الحکومت بنایا (احمد شاہ ولی بہمنی نے 1424ء میں بیدر کواپنا پایہ تخت بنایا۔ ) لیکن دیگرسلطنتوں کی طرح بہمنی سلطنت کا بھی ایک دن خاتمہ ہونا تھا اور ہوا۔ 1428عیسوی میں (1518ء میں پایہ تخت بیدر رکھنے والی )بہمنی سلطنت کا خاتمہ ہوا اور اس سلطنت کے کھنڈر سے پانچ ریاستیں ہندوستان کے نقشہ پرابھر ائیں۔ یہ ریاستیں۔ بیدر۔ برار۔ بیجاپور۔ احمدنگر اور گولکنڈہ ہیں۔ ان دنوں گلبرگہ کا کچھ حصہ سلطنت بیجاپوراورسلطنت بیدرکے زیرنگین تھا۔(تاریخی حقاءق کچھ اور ہیں ) آخرمیں ان سلطنتوں کو1687 میں مغل سلطان اورنگ زیب عالمگیر نے اپنے قبضہ میں لے لیا۔
سترہویں صدی سے 1956 تک
ترمیممغلیہ سلطنت کے فرماں روا اورنگ زیب عالمگیرؒ کی جانب سے 17 صدی میں دکن کی فتح کے ساتھ، گلبرگا مغلیہ سلطنت میں داخل ہو گیا۔ لیکن اٹھارویں صدی عیسوی میں مغلیہ سلطنت کا زوال ہو گیا۔ اٹھارویں صدی کے ابتدائی برسوں میں اورنگزیبؒ کے جنرل آصف جاہ گولکنڈہ کی خود مختاری کااعلان کر دیا۔ اس طرح آخرکاریہ شہرریاست حیدرآباد میں داخل ہو گیا۔1947 میں ہندوستان کوآزادی حاصل ہوئی اور1948 میں ریاست حیدرآبادکاانڈین یونین میں انضمام ہو گیا۔ لیکن 1956میں آندھرا پردیش سے گلبرگا کو الگ کر نیومیسور اسٹیٹ میں شامل کر دیا گیا۔
آبادیات
ترمیم2014 کی مردم شماری کے مطابق،[1] گلبرگہ کی آبادی 1,101,989 ہے۔ جس میں مرد 55% اور خواتین 45% ہیں۔ گلبرگہ کی خواندگی 67% جو قومی اوسط 59.5% سے زیادہ ہے۔ مردوں میں خواندگی 70% اور خواتین میں 30% ہے۔ گلبرگہ میں 6 سال سے کم عمر کے بچے 15% ہیں۔ اس شہر میں کنڑ اور اردو اہم زبانیں ہیں۔
تاریخی عمارتیں
ترمیماب ڈالتے ہیں گلبرگا کے تاریخی عمارتوں پرایک نظر۔گلبرگہ میں بہمنی سلاطین کاقدیم اورخستہ حال قلعہ بھی ہے۔ لیکن اس قلعہ میں کئی دلکش عمارتیں بھی ہیں۔ جن میں جامع مسجد گلبرگابھی شامل ہے۔ اس قلعہ میں 15 میناربھی ہیں۔ گلبرگامیں بہمنی سلاطین کے گنبدیں بھی ہیں۔ گلبرگہ میں سری کشیترا گھاناپور مندر ہے۔ سدھارتھ ٹرسٹ کا بُدھا وہار بھی ہے۔ ٹینک بند روڈ پر شاراناباساویشور گارڈن ہے۔ ساتھ ہی اس شہرمیں گلبرگہ یونیورسٹی بھی علم کے چراغ روشن کر رہی ہے۔
قلعہ گلبرگہ
ترمیمقلعہ گلبرگہ کوسب سے پہلے سلطنت ورنگل کے حمکراں راجا گول چندنے تعمیر کیاتھا۔ لیکن بعد میں سلاطین دہلی سے علاحدگی کے بعد قلعہ گلبرگہ کو 1347 میں بہمنی حکمراں علاءالدین بہمنی نے توسیع کی۔ دار الحکومت کو یادگاربنانے کے لیے اس قلعہ میں شاندارمساجد،محلات، گنبدیں، اوردیگر عمارتیں تعمیرکی گئیں۔ جس میں خوبصورت جامع مسجدبھی شامل ہے۔گلبرگہ 1327 سے 1424ءتک بہمنی سلطنت کادارالحکومت رہا۔ لیکن بہترموسمی حالات اورپرفضاماحول کی وجہ سے 1424 کے بعدبہمنی سلطنت کے دار الحکومت کوقلعہ بیدرمیں منتقل کر دیا گیا۔
جامع مسجد
ترمیمقلعہ گلبرگہ کی بات قلعہ کی جامع مسجدکے ذکربغیرادھوری رہتی ہے۔ قلعہ گلبرگہ میں واقع جامع مسجدکوایک مورش معمارنے تعمیرکیاہے۔ یہ مسجدچودہویں یاپندرہویں صدی کے دوران تعمیرکی گئی۔ جامع مسجد کواسپین کی ریاست قرطبہ میں موجود عظیم مسجد کی مشابہت رکھتی ہے۔ اس مسجدکو کیتھڈرل مسجدِ قرطبہ بھی کہاجاتاہے۔ گلبرگہ کی جامع مسجدہندوستان کی منفردمساجدمیں سے ایک ہے۔ مسجدکے مغربی کنارے ایک بڑاگنبد ہے جومسجدکے ایک بڑے حصے کوگھیرے ہوئے ہے۔ جبکہ مسجدکے چاروں اطراف واقع چھت کواوسط اورچھوٹے سائز کے گنبدوں سے خوبصورت بنایاگیاہے۔ مسجدکے داخلے کے لیے موجودچاروں اطراف کے راستوں کی چھتوں پربھی 63 گنبدیں ہیں۔ جامع مسجد گلبرگا کے مہراب کاڈیزائن حیدرآبادکے بیگم پیٹ میں واقع ہسپانوی مسجد کے اندرونی ڈیزائن کی شبیہ پیش کرتاہے۔ ہندوستان میں اس ڈیزان کی صرف یہ دومسجدیں ہیں۔گلبرگہ کی جامع مسجدساﺅتھ ایشیاکی شاندارمسجدشمارکی جاتی ہے۔ اس تاریخی مسجدکو(1358 سے 75کے بیچ تعمیرکیاگیاتھا۔ جامع مسجدکی تعمیرمحمد شاہ اول نے اپنے دار الحکومت کومیں کروائی تھی۔ مسجدکامرکزی دروازہ یعنی سنٹرل گیٹ شمال میں واقع ہے۔ مسجدکی بیرونی دیواریں محراب دا رہیں۔ جس سے ضروری روشنی اورصحن کی تازہ ہوا فلٹرہوکرمسجدمیں داخل ہوتی ہیں۔ مسجدکے اندرونی ستونوں پرکوئی نقش ونگارنہیں ہے ان ستونوں کوسفیدچونے سے رنگاگیاہے۔ ہال میں کھڑے ہوئے یہ وسیع ستون مسجدکی فضاکوخوبصورت اورروحانی بناتے ہیں۔
حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز
ترمیمگلبرگہ کوگلبرگہ شریف بھی کہاجاتاہے۔ شایداس کی وجہ شہرمیں موجودصوفیااکرام کے مزرات ہیں۔ شہرمیں کئی بزرگوں مزرات ہیں اوران مزرات پرشاندارگنبدوں کی تعمیرکے ذریعہ بادشاہان وقت نے بزرگوں سے اپنی عقیدت کااظہارکیاہے۔ مشہور درگاہوں میں سے ایک شہنشاہ دکن حضرت خواجہ بندہ نوازگیسودراز کی درگاہ ہے۔ حضرت خواجہ بندہ نواز گیسودراز سلسلہ چشتیہ کے مشہور صوفی بزرگ ہیں۔ ملک وبیرون ملکوں سے ہرسال ہزاروں زائرین عرس شریف میں شرکت کرتے ہیں۔ وہ سلطان تاج الدین فیروز شاہ کی دعوت پر 1397 میںگلبرگہ تشریف لائے۔ نومبر 1422ء اپ کا وصال ہو گیا۔ حضرت بندہ نوازگیسودراز کانام سیدمحمدتھا۔ اپ خواجہ بندہ نوازاورخواجہ گیسودرازکے نام سے معروف ہوئے۔ اپ حضرت شیخ نصیرالدین چراغ دہلی کے سجادہ نشین تھے۔ اپ کاخاندانی شجرہ امام حسین سے ہوتے ہوئے حضرت علی سے ملتاہے۔ حضرت بندہ نواز سید یوسف حسینی عرف سید راجا کے گھرانہ میں پیداہوئے۔ چارسال کی عمرمیں اپ کے اباجان سلطان محمد تغلق کے دورمیں دیوگیرمنتقل ہو گئے۔ پندرہ سال کی عمرمیں خواجہ صاحب نے حضرت چراغ الدین دہلی میں بیعت کی۔ یہ 736 ہجری کی بات ہے۔ انیس سال کی عمرمیں شرعی علوم سے فارغ ہوئے۔ پرعلوم باطن کے لیے زبردست ریاضت کی۔ حضرت چراغ دہلوی نے انتقال کے وقت سیدگیسودراز اپناجانشین منتخب کیا۔ جب اپ گلبرگہ تشریف لائے توسلطان فیروزشاہ نے اپنے خاندان والوں۔ امیروں۔ دربارکے علمااورشاہی لشکرکے ساتھ شہرکے باہراستقبال کیا۔ تویہ تھی حضرت کی شان۔ اس کے علاوہ شہراورشہرکے اطراف کئی بزرگوں کے چھوٹے بڑے مزارات اور درگاہیں موجودہیں۔
جغرافیہ
ترمیمتاریخی ضلع گلبرگہ دکن کے سطح مرتفع یعنی سطح مرتفع پر واقع ہے۔ یہ شہر دو اہم دریاوں، دریائے کرشنا اور دریائے بھیما سیراب ہوتاہے۔ اس ضلع کی مٹی تقریباسیاہ ہے۔ ضلع میں ابپاشی کے کئی ذخائ رہیں۔ بالیٰ کرشنا پروجکٹ ضلع کااہم پراجیکٹ ہے۔ جوار، مونگ پھلی، چاول اور دال یہاں کی اہم فصلیں ہیں۔ تور کی دال کے لیے گلبرگہ کرناٹک بھرمیں مشہو رہے۔ صنعتی اعتبارسے گلبرگہ پسماندہ ضلع ہے۔ سیمنٹ، ٹیکسٹائل، چمڑے اور کیمیکل صنعتوں میں ترقی کے آثا رہیں۔ تعلیمی اعتبارسے یہ شہرملک میں اہم مقام رکھتاہے۔ شہرمیں گلبرگہ یونیورسٹی ہے اوردومیڈیکل کالجس ہیں۔ مہادیوپا رامپورے میڈیکل کالج اور کے۔ بی۔ ین۔ میڈیکل کالج۔ اسی طرح گلبرگہ میں تین ڈینٹل کالجزہیں۔ جبکہ 6 انجینئری کالجس طلبہ کوفنی تعلیم سے اراستہ کر رہے ہیں۔
موسم
ترمیممحتلف موسموں میں درجہ حرارت کچھ یوں ہے:
آب ہوا معلومات برائے گلبرگہ | |||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
مہینا | جنوری | فروری | مارچ | اپریل | مئی | جون | جولائی | اگست | ستمبر | اکتوبر | نومبر | دسمبر | سال |
اوسط بلند °ف | 85.6 | 89.6 | 95 | 100.4 | 101.3 | 93.2 | 86 | 86.9 | 87.8 | 87.8 | 85.3 | 84.2 | 90.26 |
اوسط کم °ف | 60.4 | 63.3 | 72.1 | 76.8 | 77.7 | 75.2 | 73.2 | 72.5 | 72.7 | 70.7 | 64.8 | 59.4 | 69.9 |
اوسط عمل ترسیب انچ | 0.106 | 0.173 | 0.177 | 0.713 | 1.551 | 4.689 | 4.587 | 5.843 | 7.346 | 4.142 | 1.098 | 0.181 | 30.606 |
اوسط بلند °س | 29.8 | 32.0 | 35.0 | 38.0 | 38.5 | 34.0 | 30.0 | 30.5 | 31.0 | 31.0 | 29.6 | 29.0 | 32.37 |
اوسط کم °س | 15.8 | 17.4 | 22.3 | 24.9 | 25.4 | 24.0 | 22.9 | 22.5 | 22.6 | 21.5 | 18.2 | 15.2 | 21.06 |
اوسط عمل ترسیب مم | 2.7 | 4.4 | 4.5 | 18.1 | 39.4 | 119.1 | 116.5 | 148.4 | 186.6 | 105.2 | 27.9 | 4.6 | 777.4 |
ماخذ: IMD |
حواشی
ترمیم- Earliest possible Buddhist settlement at Sannati
- Malkhedآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ hindu.com (Error: unknown archive URL)
حوالہ جات
ترمیمویکی ذخائر پر گلبرگہ سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
- ↑ "Census of India 2001: Data from the 2001 Census, including cities, villages and towns (Provisional)"۔ Census Commission of India۔ 16 جون 2004 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 نومبر 2008