تبادلۂ خیال:ملالہ یوسفزئی
یہ تبادلۂ خیال ملالہ یوسفزئی میں مزید اصلاح وبہتری پر گفتگو کے لیے ہے مضمون کے موضوع پر عام بحث کے لئے یہ کوئی فورم نہیں ہے |
|||
|
|
|
اس مضمون کو بہترین مضمون قرار دینے کا ارادہ ہے۔ کیا خیال ہے احباب کا؟ --:)
—خادم— 14:27, 27 اکتوبر 2014 (م ع و)
- اچھا خیال ہے، ویسے قیصرانی صاحب کی ہمت ہے کہ سارے کو نئے سرے سے ہی لکھ دیا، اس میں کچھ مزید بہتری کے بعد، کسی مناسب موقع پر صفحہ اول پر لگايا جا سکتا ہے۔ اور ایک مختصر فہرست میں نے منتخب مقالات کے تبادلہ خیال پر رکھی ہے۔ ان پر بھی ایک نظر کرم کر دیں، کیونکہ جن پر کافی محنت کی گئی ہو ان کو اہمیت دینے سے صارفین کو حوصلہ ملتا ہے۔ --Obaid Raza (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 16:40, 27 اکتوبر 2014 (م ع و)
ملالہ یوسفزئی کی زندگی گولی لگنے سے پہلے۔
ترمیماگر اسے تائم لائن کی صورت میں لکھا جا سکے تو۔ ۔۔ ملالہ یوسفزئی کی پہلی پبلک میں تقریر گیارہ سال کی عمر میں دو ہزار آٹھ میں ہوتی ہے جس میں پشاور پریس کلب میں وہ بچی طالبان کو للکارتی ہے اور کہتی ہے کہ ' طالبان کی کیا جرآت کہ مُجھ سے میرا تعلیم کا حق چھینیں۔ ' دو ہزار آٹھ میں۔ ایکٹویزم اور کام کی وجہ سے اس کو 'اوپن مائینڈز پاکستان یوتھ پروگرام' میں شمولیت کا موقع ملا جس کے بعد وہ پختونخوا میں ساتھی بچوں کو معاشرتی معاملات پر بولنے اور حقوق کی آ گہی پر تعلیم دیتی۔ دو ہزار نو میں اسنے بی بی بی سی اردو کے لیے ڈائری لکھنئ شروع کی جس میں ایک بچے کے جزبات کی عکاسی ہوتی کہ کس طرح دہشتگردی اور طالبان بچوں کی زندگی کو متاثر کرتے۔ اس کے بعد نیو یارک ٹائیمز نے اس کی زندگی پر ڈاکومینٹری بنائی۔ ملٹری آپریشن شروع ہوا تو ملالہ کا خاندان رشتہ داروں کے پاس چلا گیا۔ اور ضیاالدین یوسفزئی نے پشاور پریس کلب میں تقریر کی ملٹری آپریشن کے حق میں اور طالبان کی بربریت کو سخت ترین الفاظ میں جھٹلایا۔ سوات سے واحد خاندان تھا جو نا صرف اس بربریت کو جھٹلا رہا تھا بلکہ اس کے خلاف لوگوں کو اکٹھا بھی کر رہا تھا۔ تھوڑی ہفتوں بعد طالبان کمانڈر نے ریڈیو پر ملالہ کے والد کو دھمکی دئ قتل کی ۔ جولائی دو ہزار نو میں جب لوگوں کی سوات واپسی ہوئی تو ملالہ کو دوسرے ایکٹوسٹ بچوں کے ہمراہ رچرڈ ہالبروک اور اس کی ٹیم سے ملنے کا موقع ملا۔ وہاں پر ملالہ کے الفاظ تھے 'محترم ایمبیسیڈر ! اگر آپ کچھ کر سکتے ہیں توہمیں تعلیم حاصل کرنے میں مدد دیں'۔ اس کے بعد ملالہ کے انٹرویو آنا شروع ہو گئے آج ٹی وی پر، دو دفعہ کیپٹل ٹی وی پر آئی۔ مارننگ شوز میں اکثر آتی۔ دسمبر دو ہزار نو تک یہ پتا چل چکا تھا کہ ملالہ یوسفزئی ہی گُل مکئی کے نام سے ڈائیرئ لکھتی تھی ۔ دسمبر دو ہزار گیارہ میں ملالہ کو پاکستان کا پہلا نیشنل یوتھ پیس پرائیز دیا گیا ۔ ملالہ کو جب انعام کے لیے بلایا گیا تو اس نے عورتوں اور بچیوں کی تعلیم کی بات کی۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نو سوات میں ایک آئی ٹیکیمپس، گرلز ڈگری کالج کی منظوری دی اور ایک سکول کا نام ملالہ کی نام پر رکھا گیا ۔ اس دوران ملالہ ایک فنڈ بنانے ہر کام کر رہی تھی کہ اس علاقے میں بچیوں کی تعلیم کے لیے پیسے اکٹھے کیے جائیں ۔ دوسری طرف ایک بچی اپنے تعلیم کے حق کے لیے کھڑے ہونے اور پھر طالبان کے خلاف مزاحمت کا نشان بننے پر طالبان کی نظر میں آ چکی تھی۔ اس کو ملنے والی قتل کی دھمکیوں کا اخبارات اور میڈیا پر زکر ہوتا۔ طالبان کی دھمکی بھی میڈیا نے دکھائی اس پر حملے سے پہلے۔ پھر طالبان کی شوری کی میٹنگ ہوئی اور اس میں تمام سربراہان نےملالہ کے قتل کی تائید کی۔ اکتوبر دو ہزار بارہ میں طالبان کا گن مین گاڑی کو روکتا ہے کہ تُم میں اے ملالہ کون ہے، بولو ورنہ سب کو گولی مار دوں گا۔ بتانے پر گولی چلاتا اور تین بچیوں کو گولی لگتی۔ ملالہ کو گولی سر سے لگ کر گردن اے ہوتی ہوئی کندھے میں پیوست ہو گئی۔ پاکستان آرمی کے ہیلی کاپٹر پر پشاور لے جایا گیا۔ --امین اکبر (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 11:56، 30 مارچ 2018ء (م ع و)