اس تحریر کو مناسب عنوان دیں۔ شکریہ

خوش آمدید!

ترمیم
ہمارے ساتھ سماجی روابط کی ویب سائٹ پر شامل ہوں:   اور  

(?_?)
 
 

جناب محمد شہباز انصاری کی خدمت میں آداب عرض ہے! ہم امید کرتے ہیں کہ آپ اُردو ویکیپیڈیا کے لیے بہترین اضافہ ثابت ہوں گے۔
ویکیپیڈیا ایک آزاد بین اللسانی دائرۃ المعارف ہے جس میں ہم سب مل جل کر لکھتے ہیں اور مل جل کر اس کو سنوارتے ہیں۔ منصوبۂ ویکیپیڈیا کا آغاز جنوری سنہ 2001ء میں ہوا، جبکہ اردو ویکیپیڈیا کا اجرا جنوری 2004ء میں عمل میں آیا۔ فی الحال اردو ویکیپیڈیا میں کل 207,420 مضامین موجود ہیں۔
اس دائرۃ المعارف میں آپ مضمون نویسی اور ترمیم و اصلاح سے قبل ان صفحات پر ضرور نظر ڈال لیں۔



 

یہاں آپ کا مخصوص صفحۂ صارف بھی ہوگا جہاں آپ اپنا تعارف لکھ سکتے ہیں، اور آپ کے تبادلۂ خیال صفحہ پر دیگر صارفین آپ سے رابطہ کر سکتے ہیں اور آپ کو پیغامات ارسال کرسکتے ہیں۔

  • کسی دوسرے صارف کو پیغام ارسال کرتے وقت ان امور کا خیال رکھیں:
    • اگر ضرورت ہو تو پیغام کا عنوان متعین کریں۔
    • پیغام کے آخر میں اپنی دستخط ضرور ڈالیں، اس کے لیے درج کریں یہ علامت --~~~~ یا اس ( ) زریہ پر طق کریں۔

 


 

ویکیپیڈیا کے کسی بھی صفحہ کے دائیں جانب "تلاش کا خانہ" نظر آتا ہے۔ جس موضوع پر مضمون بنانا چاہیں وہ تلاش کے خانے میں لکھیں، اور تلاش پر کلک کریں۔

آپ کے موضوع سے ملتے جلتے صفحے نظر آئیں گے۔ یہ اطمینان کرنے کے بعد کہ آپ کے مطلوبہ موضوع پر پہلے سے مضمون موجود نہیں، آپ نیا صفحہ بنا سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ ایک موضوع پر ایک سے زیادہ مضمون بنانے کی اجازت نہیں۔ نیا صفحہ بنانے کے لیے، تلاش کے نتائج میں آپ کی تلاش کندہ عبارت سرخ رنگ میں لکھی نظر آئے گی۔ اس پر کلک کریں، تو تدوین کا صفحہ کھل جائے گا، جہاں آپ نیا مضمون لکھ سکتے ہیں۔ یا آپ نیچے دیا خانہ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔


  • لکھنے سے قبل اس بات کا یقین کر لیں کہ جس عنوان پر آپ لکھ رہے ہیں اس پر یا اس سے مماثل عناوین پر دائرۃ المعارف میں کوئی مضمون نہ ہو۔ اس کے لیے آپ تلاش کے خانہ میں عنوان اور اس کے مترادفات لکھ کر تلاش کر لیں۔
  • سب سے بہتر یہ ہوگا کہ آپ مضمون تحریر کرنے کے لیے یہاں تشریف لے جائیں، انتہائی آسانی سے آپ مضمون تحریر کرلیں گے اور کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔


-- آپ کی مدد کےلیے ہمہ وقت حاضر
محمد شعیب 17:03، 7 نومبر 2022ء (م ع و)

شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی عائلی زندگی کے مسائل

ترمیم

☁کتابیات۔ سید نذیر نیازی اپنی کتاب "اقبال کے حضور" "علامہ اقبال اور ان کی پہلی بیوی" از سید حامد جلالی

"اقبال کی شخصیت پر اعتراضات کا جائزہ" از پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابر

" پر جوش مسافر " از اقبال سنگھ ہیرا "زندہ رود" از جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال محمد شہباز انصاری (تبادلۂ خیالشراکتیں) 18:10، 7 نومبر 2022ء (م ع و)

ڈاکٹر علامہ محمد اقبال  جن کو شاعرِ مشرق ،مفکرِ پاکستان اور حکیم الاُمت   جیسے القابات سے یاد کیا جاتا ہے کی زند گی ہر خاص وعام کے لیے مشعل ِراہ  رہی ہے اور رہے گی۔اس دنیا میں سوائے نبی مکرم حضرت محمد رسول اللہ خاتم النبیینﷺ کے کوئی بھی انسان کامل نہیں ہے۔بڑے بڑے لوگوں کی عائلی زندگیاں دُکھوں ، پریشانیوں اور مصیبتوں سے بھری پڑی ہیں۔

اکثر شعراء کی طرح  علامہ اقبال  نازک مزاج اور رومانوی طبعیت کے بھی حامل تھے۔ ابتدا میں معاشی مسائل کے ساتھ ساتھ  ایک دوسری  پریشانی جس سے اقبال کو اس دور میں  نمرد آزما ہونا پڑا وہ ان کی عائلی زندگی تھی۔علامہ صاحب نے اپنی حیات  میں تین شادیاں کیں۔

1893ء میں میڑک کا امتحان پاس کرنے کے فوراََ بعد  4 مئی کو اقبال کے والدین  نے ان  کی  شادی  گجرات کے ایک معزز خاندان میں کردی۔اس وقت آپ کی عمر صرف سولہ برس  اور زوجِ محترمہ کریم بی بی کی عمر انیس برس تھی۔ کریم بی بی کے بطن سے پہلی بیٹی معراج بیگم 1896 ء جبکہ بیٹا آفتاب اقبال  1898 میں پیدا ہوئے۔اقبال اپنی بیٹی  اور بیٹے سے بے حد محبت کرتے تھے ۔اور مسلمان کا یہی تقاضہ فطرت ہے کہ وہ اپنی اولاد سے بے پناہ محبت کرتا ہے چاہے وہ بیٹا ہو یا بیٹی۔

کریم بی بی گجرات کے ایک محلہ شال بافاں کے  ایک رئیس خاندان سے تعلق رکھتی تھیں ۔  کریم  بی بی کے والد ڈاکٹر عطا محمد نے  اپنی بیٹی کی بڑے ناز و نعم  سے پرورش  کی تھی جبکہ اقبال کا  تعلق ایک متوسط خاندان سے تھا جس کی بنا پر دونوں کے تعلقات اکثر کشیدہ رہتے تھے۔ ایک شاندار  اور وسیع و عریض حویلی ، اقبال کے  مکان میں   طبقاتی فرق نمایاں تھا جس کی وجہ سے کریم بی بی اقبال کے مکان میں رہنا اپنی  توہین تصور کرتی تھیں۔

      لاہور میں ایم ۔اے فلفسہ  کا امتحان پاس کرنے کےفوراََ  بعد 13 مئی 1899 کو  اقبال میکلوڈ پنجاب عریبک ریڈر کی اسامی پر تعینات ہوئے۔جس میں آپ کی تنخواہ  73 روپے ماہوار مقرر ہوئی ۔لاہور میں بھاٹی گیٹ کے اندر اقبال  نے  شیخ گلاب سے ایک مکان کرایہ پر حاصل کیا تو کریم بی بی کو اس مکان میں اپنے ساتھ رہنے کا کہا مگر کریم بی بی نے اس  کرائے کے  مکان میں رہنے سے صاف انکار کر دیا جس کی وجہ سے اقبال اور کریم بی بی کے تعلقات مزید  خراب ہوئے۔

ایک سعادت مند برخوردار کی طرح اقبال  بھی بزرگوں کے باندھے ہوئے بندھن سے ممکن حد تک نبھاہ کرتے رہےمگر سعادت مندی و شرافت ایک طرف،جذباتی ہم آہنگی اور ذہنی مفاہمت دوسری طرف اگر یہ دونوں باتیں ایک نا ہوں تو  ایسی شادیاں بعض اوقات زندگی میں بے سکونی اور اضطراب کا باعث بن جایا کرتی ہیں۔

یورپ سے واپسی کے بعد یہ جذباتی  کیفیت شدت اختیار کر گئی۔ اس جذباتی کیفیت نے اقبال کی زندگی کو خاصا تلخ بنا دیا۔ ۱۹۰۷ میں مسز  بیگ کے توسط سے  اقبال کا تعارف  مس عطیہ فیضی نامی لڑکی سے ہوا ۔چند ماہ تک لندن ، کیمبرج اور ہائیڈل برگ کی مجلسی زندگی میں ان کا روابط رہے۔ اس  پریشانی و اضطرابی کیفیت کا اظہار علامہ اقبال نےعطیہ فیضی کے نام خطوط میں کیا۔غالباََ علامہ اقبال  مس عطیہ فیضی کو اپنا مخلص،ہمدرد اور بے تکلف لڑیری دوست سمجھتے تھے۔ان خطوط کو مس عطیہ فیضی اور علامہ اقبال کے کسی جذباتی لگاؤکی اساس بنا کر  افسانے تراشنا بالکل بھی درست نہیں ہے۔

علامہ اقبال اپنی بیٹی معراج بیگم  سے بہت ذیادہ محبت کرتے تھے اور معراج بیگم بھی اپنے والد سے بے پناہ محبت کرتی تھی۔ معراج بیگم ذیادہ عرصے تک زندہ نا رہیں اور ۱۹۱۵ میں صرف انیس برس کی عمر میں وفات پا گئیں۔  اقبال کے اپنے بیٹے آفتاب اقبال کے ساتھ تعلقات خراب تھے۔ کئی مصنفین نے لکھا ہے کہ آفتاب اقبال اپنی والدہ کریم بی بی کو مظلوم اور والد کو ظالم سمجھتے تھے۔ جب کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی۔ جاوید اقبال اپنی بد تمیزیوں  کی وجہ سے باپ کے دل سے اتر گئے۔ باپ بیٹے کے اختلافات نے کافی طول پکڑا اور اقبال نے اپنی بیوی اور بیٹے سے علیحدگی اختیار کر لی۔ علیحدگی کے باوجود علامہ اقبال نے اس رشتے کو نبھانے کی بھر پور کوششیں کیں مگر کوئی صورت نا بن سکی۔

سید نذیر نیازی اپنی کتاب "اقبال کے حضور" میں اس شادی کی ناکامی کے متعلق رقم طراز ہیں کہ" رشتہ عجلت میں طے ہوا، خاندانی حالات میں تفاوت تھا۔ علامہ اقبال نے نبھاہ کی بہت کوشش کی لیکن بات نہ بنی۔علامہ اقبال نے مریم بی بی کو طلاق دینے سے گریز کیا کیونکہ وہ طلاق کے لیے راضی نہ تھیں۔علیحدگی پر اتفاق ہو گیا اور علامہ اقبال نے کفالت کی ذمہ داری اٹھا لی۔ علیحدگی کے بعد اپنی موت تک علامہ اقبال ہر ماہ کریم بی بی کو رقم بھجواتے رہے لیکن بیٹے آفتاب اقبال سے انہوں نے کوئی تعلق نہ رکھا۔

۱۹۶۷میں "علامہ اقبال اور ان کی پہلی بیوی" کے عنوان سے سید حامد جلالی  کی ایک کتاب منظرِعام پر آئی جس میں وہ الزام تراشی کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ"اقبال نے پہلی بیوی سے نا انصافی کی اور اپنے بیٹے آفتاب اقبال کو وراثت سے محروم رکھا۔"

     پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابر نے اپنی کتاب "اقبال کی شخصیت پر اعتراضات کا جائزہ" میں واضح طور پر بیان کیا ہے کہ " علامہ اقبال اور ان کی پہلی بیوی کتاب کےحقیقی مصنف اور ناشر دراصل شاعرِ مشرق کے لختِ جگر آفتاب اقبال ہی تھے۔"

     بھارتی مصنف اقبال سنگھ نے اپنی کتاب " پر جوش مسافر " میں علامہ اقبال پر بے تحاشہ الزامات تراشے۔انہی الزامات کی تائید کرتے ہوئے بیگم آفتاب اقبال نے سید حامد جلالی کی کتاب "علامہ اقبال اور ان کی پہلی بیوی" کا دوسرا ایڈیشن شائع کیا جس میں انہوں نے بھارتی مصنف اقبال سنگھ کے الزامات کو دہرایا ۔

بسا اوقات نام ور لوگوں کے خلاف لکھی جانے والی کتابوں اور مضامین میں دشمنان اور حاسدین کے علاوہ کچھ اپنے اور قریبی رشتے دار پیٹھ پیچھے وار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ علامہ اقبال کے مخالفین اور حاسدین نے انہیں شرابی اور عیاش انسان بنا کر پیش کرنے کی ناکام کوششیں کیں ہیں۔ جس سے مفکرِ پاکستان کی آبرو میں زرہ برابر بھی کمی نہیں ہوئی بلکہ آپ کی عزت اور وقار نکھر کر سامنے آتے ہیں۔

جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال نےاپنے والد کی سوانح حیات"زندہ رود" میں  بہت دیانت داری اور تحقیق کے بعد "ازدواجی زندگی کا بحران" کے عنوان سے ایک مکمل باب شاملِ کتاب کیا ہے۔ جس میں انہوں نے یہ اعتراف کیا ہے کہ "علامہ اقبال کو بچپن سے گانے کا شوق تھا اور وہ راگوں کے الاپ سے شناسا تھے۔انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں ترنم سے نظمیں پڑھتے تھے۔ان کے پاس ایک ستار تھا اور اسے بجانے کی مشق بھی کیا کرتے تھے۔" اسی دور میں اقبال نے یہ شعر کہا۔

لوگ کہتے ہیں مجھےراگ کو چھوڑو اقبال

راگ ہے دین مرا،راگ ہے ایمان مرا

یہ اقبال کے ایامِ جوانی تھے کہ کبھی کبھی گانا بھی سن لیا کرتے تھے۔ دہلی جاتے تو خواجہ حسن نظامی علامہ اقبال کے لیے محفلِ سماع کا اہتمام بھی کرتے۔علامہ اقبال کو قوالی بہت پسند تھی۔ علامہ اقبال کو اولیائے دین سے بھی خاصا لگاؤتھا مزارات پر حاضری دینا اپنی خوش قسمتی تصور کرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ یورپ کے سفر پر نکلتے ہوئے آپ خواجہ معین الدین چشتی کے دربارپر حاضری سے اپنے سفر کی ابتداء کرتے ہیں۔

علامہ اقبال کبھی کبھار آغا حشر کاشمیری کا ڈرامہ دیکھنےتھیٹر بھی چلے جایا کرتے تھے لیکن علامہ اقبال کی شراب نوشی اور عیاشی کا کوئی بھی ثبوت سامنے نہیں آتا۔یہ ایک عام سا نظریہ ہےکہ عیاش پرستی کے شوقین دراصل امیر لوگ ہوتے ہیں اور علامہ اقبال نے زندگی بھر امیر بننے کی کوشش ہی نہیں کی۔

لیکن یہاں سوال یہ ابھرتا ہےکہ پہلی شادی کی نا کامی کے بعد اقبال نے دوسری دو شادیاں کیوں کیں؟ تو اس کا جواب  ڈاکٹر جاوید اقبال نے بڑے احسن طریقے سے دیا ہے لکھتے ہیں کہ" بہت سی پڑھی لکھی اور امیر خواتین علامہ اقبال سے شادی کی خواہش مند تھیں لیکن علامہ اقبال کسی ایسی خاتون کو اپنی بیوی بنانا چاہتے تھے جو ان کے خاندان کے ساتھ ایڈجسٹ کر سکے۔"

۱۹۱۰ میں علامہ اقبال کی والدہ نے اندرون موچی دروازے لاہور کے ایک کشمیری خاندان کی دو شیزہ مختار بیگم کو پسند کیا جس کے ساتھ اقبال کا دوسرا نکاح ہوا۔ ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ مختار بیگم کے بارے میں کچھ گمنام خطوط ملنے کی بنا پر علامہ اقبال تذبذب کا شکار ہو گئے اور ان کے درمیان قبل از رخصتی بعض غلط فہمیاں پیدا ہو گئیں یا کر دی گئیں جس کی بنا پر یہ معاملہ تین سال تک زیرِ التوا رہا۔ اسی دوران علامہ قبال نے مختار بیگم کو طلاق دینے کا ارادہ کیا مگرطلاق نہ دی۔

۱۹۱۲ میں لدھیانہ سے علامہ اقبال کے لیے سردار بیگم کا رشتہ آیا۔ سردار بیگم لدھیانہ کےمشہور نو لکھا خاندان سے تعلق رکھتی تھیں جس کے ساتھ علامہ اقبال کا تیسرا نکاح ہوا۔

اگلے سال یعنی ۱۹۱۳ میں دوسری منکوحہ خاتون مختار بیگم نے علامہ اقبال کو خط لکھا اور کہا کہ میرا نکاح تو آپ سے ہو چکا ہے اب میں دوسرے نکاح کا تصور بھی نہیں کر سکتی اسی حالت میں پوری زندگی بسر کروں گی۔ یہ خط پڑھ کر اقبال کو  غلط فہمی کا احساس ہوا اور انہوں نے لکھا کہ انہیں بھی افسوس ہوا ہے۔ لہٰذا سردار بیگم کو اعتماد میں لے کر علامہ اقبال نے مختار بیگم سے دوبارہ نکاح پڑھوایا۔ اسی طرح مختار بیگم کے بارے میں پیدا کر دہ غلط فہمیاں دور ہو گئیں اور یہ معاملہ بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ اپنے نیک انجام کو پہنچا۔

اسی طرح علامہ اقبال کی نجی زندگی کا  یہ پریشان کن مسئلہ بڑے اطمینان بخش طور پر حل ہو گیا اور کسی قسم کی کوئی پریشانی باقی نہ رہی۔ مہاراجہ کشن پرشاد کے نام ۲۶ اکتوبر ۱۹۱۳ میں تحریر کردہ ایک خط میں علامہ اقبال نے  اندرون موچی دروازے والی بیوی مختار بیگم کا  واقعہ جس دلچسپی سے بیان کیا ہے اس کے بعد مزید کسی وضاحت کی ضرورت باقی ہیں رہتی۔ لکھتے ہیں کہ" خود تین بیویاں رکھتا ہوں  اور دو اولادیں۔ تیسری بیوی آپ  کے تشریف  لے جانے کے کچھ عرصہ بعد کی ہے۔ ضرورت نہ تھی مگر یہ عشق ومحبت کی ایک عجیب و غریب داستان ہے۔اقبال نے گوارا نہ کیا کہ جس عورت نے حیرت ناک ثابت قدمی کے ساتھ تین سال اس کے لیے اس طرح کے مصائب اٹھائے ہوں ،اسے اپنی بیوی نہ بنائے۔ کاش !دوسری بیگم کرنے سے بیشتر یہ حال معلوم ہوتا۔"

نکاح کے بعد علامہ اقبال نے دونوں بیویوں کو  بھاٹی گیٹ والے مکان میں رکھا۔ دونوں بیویوں کو آپس میں بے حد پیار تھا اور وہ دونوں اکٹھے رہنا پسند کرتی تھیں۔بقول ڈاکٹر جاوید اقبال " دونوں میں بہت محبت تھی، ان دونوں کے اصرار پر ایک دفعہ اقبال نے اپنی پہلی بیوی کریم بی بی کو بھی بلوایا وہ کچھ دن کے لیے آئیں اور واپس چلی گئیں۔"

۱۹۲۴ میں دوران ِ زچگی مختار بیگم لدھیانہ میں انتقال کر گئیں۔علامہ اقبال نے بذاتِ خود ان کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔

سردار بیگم کے بطن سے جاوید اقبال اور منیرہ اقبال پیدا ہوئے۔جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی ایک تصنیف  "اپنا گریبان چاک" میں لکھا ہے کہ " سردار بیگم کا اصرار تھا کہ والد باقاعدگی سے وکالت کریں  کیونکہ گھر کے اخراجات پورے نہیں ہوتے تھے وہ کہا کرتیں کہ میں اس گھر میں ایک لونڈی کی طرح کام کرتی ہوں  اور پیسے بچانے کی کوشش کرتی ہوں آپ بستر پر دراز شعر لکھتے رہتے ہیں جواب میں علامہ اقبال صرف کھسیانی ہنسی ہنس دیتے۔"

سردار بیگم ایک با سلیقہ اور کفایت شعار خاتون تھیں۔اپنی کفایت شعاری کی وجہ سے انہوں نے کچھ رقم جمع کر رکھی تھی۔ یہ رقم اور ان کے زیورات فروخت کر کے لاہور میں اراضی خریدی گئی جس پر بعد ازاں جاوید منزل کو تعمیر کیا گیا۔ابتدا میں یہ گھر سردار بیگم کے نام تھا بعد میں علامہ اقبال کے کہنے پر انہوں نے یہ گھر جاوید اقبال کے نام منتقل کر دیا۔ اسی دور میں علامہ اقبال نےاپنا زیادہ تر وقت گھر میں بسر کیا اور اسی دور میں ہی انہوں نے اپنی طویل نظم اسرارِ خودی کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔سردار بیگم کی انتھک کاوشوں سے تعمیر ہونے والے مکان میں وہ ۱۹۳۵ میں رہائش پذیر ہو گئے۔با رضائے الٰہی سےصرف چند دن کے قیام کے بعد ہی سردار بیگم کا اسی گھر یعنی جاوید منزل میں انتقال ہو گیا۔سردار بیگم کو لاہور کے بی بی پاک دامن قبرستان میں دفن کیا گیا۔جب کہ کریم بی بی کا انتقال ۱۹۴۷ میں ہوا اور وہ لاہور کے معراج دین قبرستان میں مدفون ہیں۔

علامہ اقبال نے اپنی زندگی کے بقیہ تین سال جاوید منزل میں بحثیت کرایہ دار بسر کیے۔علامہ اقبال ہرماہ با قاعدگی سے اپنی رہائش کا کرایہ جاوید اقبال کے نام بھجواتے رہے۔

ضروری نہیں ہے کہ ہر بڑا شاعر، فنکار،ادیب یا مصنف اپنی عائلی زندگی میں  ایک کامیاب شوہر  یا اچھا والد ثابت ہو سکے۔بڑے بڑےلوگ زندگی کے بڑے حصولِ مقاصد کے لیے اکثر چھوٹی چھوٹی ذمہ داریوں کو نظر انداز کر جاتے ہیں۔ان چھوٹی چھوٹی ذمہ داریوں کو ان کی غلطیاں تصور کر کے ان پر الزامات تراشنا چھوٹے لوگوں کا شیوہ رہا ہے۔انہیں چھوٹی چھوٹی ذمہ داریوں کو حاسدین،مخالفین اوردشمنان الزام تراشی اور کردار کشی کےطور پر استعمال کرتے ہیں۔ان کا یہ خیال ہے کہ شاید ان کے اس گھٹیا پن کی وجہ سے ان کی معاشرے میں عزت و مقام ہو گا مگر تاریخ ان لوگوں کو ہمیشہ فراموش کرتی آئی ہے اور فراموش کرتی رہے گی۔ محمد شہباز انصاری (تبادلۂ خیالشراکتیں) 18:16، 7 نومبر 2022ء (م ع و)

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کی عاٸلی زندگی کے مساٸل

ترمیم

h 119.160.97.173 01:55، 18 دسمبر 2022ء (م ع و)

علامہ محمد اقبال کی عاٸلی زندگی کے مساٸل

ترمیم

ڈاکٹر علامہ محمد اقبال جن کو شاعرِ مشرق ،مفکرِ پاکستان اور حکیم الاُمت جیسے القابات سے یاد کیا جاتا ہے کی زند گی ہر خاص وعام کے لیے مشعل ِراہ رہی ہے اور رہے گی۔اس دنیا میں سوائے نبی مکرم حضرت محمد رسول اللہ خاتم النبیینﷺ کے کوئی بھی انسان کامل نہیں ہے۔بڑے بڑے لوگوں کی عائلی زندگیاں دُکھوں ، پریشانیوں اور مصیبتوں سے بھری پڑی ہیں۔ اکثر شعراء کی طرح علامہ اقبال نازک مزاج اور رومانوی طبعیت کے بھی حامل تھے۔ ابتدا میں معاشی مسائل کے ساتھ ساتھ ایک دوسری پریشانی جس سے اقبال کو اس دور میں نمرد آزما ہونا پڑا وہ ان کی عائلی زندگی تھی۔علامہ صاحب نے اپنی حیات میں تین شادیاں کیں۔ 1893ء میں میڑک کا امتحان پاس کرنے کے فوراََ بعد 4 مئی کو اقبال کے والدین نے ان کی شادی گجرات کے ایک معزز خاندان میں کردی۔اس وقت آپ کی عمر صرف سولہ برس اور زوجِ محترمہ کریم بی بی کی عمر انیس برس تھی۔ کریم بی بی کے بطن سے پہلی بیٹی معراج بیگم 1896 ء جبکہ بیٹا آفتاب اقبال 1898 میں پیدا ہوئے۔اقبال اپنی بیٹی اور بیٹے سے بے حد محبت کرتے تھے ۔اور مسلمان کا یہی تقاضہ فطرت ہے کہ وہ اپنی اولاد سے بے پناہ محبت کرتا ہے چاہے وہ بیٹا ہو یا بیٹی۔ کریم بی بی گجرات کے ایک محلہ شال بافاں کے ایک رئیس خاندان سے تعلق رکھتی تھیں ۔ کریم بی بی کے والد ڈاکٹر عطا محمد نے اپنی بیٹی کی بڑے ناز و نعم سے پرورش کی تھی جبکہ اقبال کا تعلق ایک متوسط خاندان سے تھا جس کی بنا پر دونوں کے تعلقات اکثر کشیدہ رہتے تھے۔ ایک شاندار اور وسیع و عریض حویلی ، اقبال کے مکان میں طبقاتی فرق نمایاں تھا جس کی وجہ سے کریم بی بی اقبال کے مکان میں رہنا اپنی توہین تصور کرتی تھیں۔ لاہور میں ایم ۔اے فلفسہ کا امتحان پاس کرنے کےفوراََ بعد 13 مئی 1899 کو اقبال میکلوڈ پنجاب عریبک ریڈر کی اسامی پر تعینات ہوئے۔جس میں آپ کی تنخواہ 73 روپے ماہوار مقرر ہوئی ۔لاہور میں بھاٹی گیٹ کے اندر اقبال نے شیخ گلاب سے ایک مکان کرایہ پر حاصل کیا تو کریم بی بی کو اس مکان میں اپنے ساتھ رہنے کا کہا مگر کریم بی بی نے اس کرائے کے مکان میں رہنے سے صاف انکار کر دیا جس کی وجہ سے اقبال اور کریم بی بی کے تعلقات مزید خراب ہوئے۔ ایک سعادت مند برخوردار کی طرح اقبال بھی بزرگوں کے باندھے ہوئے بندھن سے ممکن حد تک نبھاہ کرتے رہےمگر سعادت مندی و شرافت ایک طرف،جذباتی ہم آہنگی اور ذہنی مفاہمت دوسری طرف اگر یہ دونوں باتیں ایک نا ہوں تو ایسی شادیاں بعض اوقات زندگی میں بے سکونی اور اضطراب کا باعث بن جایا کرتی ہیں۔ یورپ سے واپسی کے بعد یہ جذباتی کیفیت شدت اختیار کر گئی۔ اس جذباتی کیفیت نے اقبال کی زندگی کو خاصا تلخ بنا دیا۔ ۱۹۰۷ میں مسز بیگ کے توسط سے اقبال کا تعارف مس عطیہ فیضی نامی لڑکی سے ہوا ۔چند ماہ تک لندن ، کیمبرج اور ہائیڈل برگ کی مجلسی زندگی میں ان کا روابط رہے۔ اس پریشانی و اضطرابی کیفیت کا اظہار علامہ اقبال نےعطیہ فیضی کے نام خطوط میں کیا۔غالباََ علامہ اقبال مس عطیہ فیضی کو اپنا مخلص،ہمدرد اور بے تکلف لڑیری دوست سمجھتے تھے۔ان خطوط کو مس عطیہ فیضی اور علامہ اقبال کے کسی جذباتی لگاؤکی اساس بنا کر افسانے تراشنا بالکل بھی درست نہیں ہے۔ علامہ اقبال اپنی بیٹی معراج بیگم سے بہت ذیادہ محبت کرتے تھے اور معراج بیگم بھی اپنے والد سے بے پناہ محبت کرتی تھی۔ معراج بیگم ذیادہ عرصے تک زندہ نا رہیں اور ۱۹۱۵ میں صرف انیس برس کی عمر میں وفات پا گئیں۔ اقبال کے اپنے بیٹے آفتاب اقبال کے ساتھ تعلقات خراب تھے۔ کئی مصنفین نے لکھا ہے کہ آفتاب اقبال اپنی والدہ کریم بی بی کو مظلوم اور والد کو ظالم سمجھتے تھے۔ جب کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی۔ جاوید اقبال اپنی بد تمیزیوں کی وجہ سے باپ کے دل سے اتر گئے۔ باپ بیٹے کے اختلافات نے کافی طول پکڑا اور اقبال نے اپنی بیوی اور بیٹے سے علیحدگی اختیار کر لی۔ علیحدگی کے باوجود علامہ اقبال نے اس رشتے کو نبھانے کی بھر پور کوششیں کیں مگر کوئی صورت نا بن سکی۔ سید نذیر نیازی اپنی کتاب "اقبال کے حضور" میں اس شادی کی ناکامی کے متعلق رقم طراز ہیں کہ" رشتہ عجلت میں طے ہوا، خاندانی حالات میں تفاوت تھا۔ علامہ اقبال نے نبھاہ کی بہت کوشش کی لیکن بات نہ بنی۔علامہ اقبال نے مریم بی بی کو طلاق دینے سے گریز کیا کیونکہ وہ طلاق کے لیے راضی نہ تھیں۔علیحدگی پر اتفاق ہو گیا اور علامہ اقبال نے کفالت کی ذمہ داری اٹھا لی۔ علیحدگی کے بعد اپنی موت تک علامہ اقبال ہر ماہ کریم بی بی کو رقم بھجواتے رہے لیکن بیٹے آفتاب اقبال سے انہوں نے کوئی تعلق نہ رکھا۔ ۱۹۶۷میں "علامہ اقبال اور ان کی پہلی بیوی" کے عنوان سے سید حامد جلالی کی ایک کتاب منظرِعام پر آئی جس میں وہ الزام تراشی کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ"اقبال نے پہلی بیوی سے نا انصافی کی اور اپنے بیٹے آفتاب اقبال کو وراثت سے محروم رکھا۔" پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابر نے اپنی کتاب "اقبال کی شخصیت پر اعتراضات کا جائزہ" میں واضح طور پر بیان کیا ہے کہ " علامہ اقبال اور ان کی پہلی بیوی کتاب کےحقیقی مصنف اور ناشر دراصل شاعرِ مشرق کے لختِ جگر آفتاب اقبال ہی تھے۔" بھارتی مصنف اقبال سنگھ نے اپنی کتاب " پر جوش مسافر " میں علامہ اقبال پر بے تحاشہ الزامات تراشے۔انہی الزامات کی تائید کرتے ہوئے بیگم آفتاب اقبال نے سید حامد جلالی کی کتاب "علامہ اقبال اور ان کی پہلی بیوی" کا دوسرا ایڈیشن شائع کیا جس میں انہوں نے بھارتی مصنف اقبال سنگھ کے الزامات کو دہرایا ۔ بسا اوقات نام ور لوگوں کے خلاف لکھی جانے والی کتابوں اور مضامین میں دشمنان اور حاسدین کے علاوہ کچھ اپنے اور قریبی رشتے دار پیٹھ پیچھے وار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ علامہ اقبال کے مخالفین اور حاسدین نے انہیں شرابی اور عیاش انسان بنا کر پیش کرنے کی ناکام کوششیں کیں ہیں۔ جس سے مفکرِ پاکستان کی آبرو میں زرہ برابر بھی کمی نہیں ہوئی بلکہ آپ کی عزت اور وقار نکھر کر سامنے آتے ہیں۔ جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال نےاپنے والد کی سوانح حیات"زندہ رود" میں بہت دیانت داری اور تحقیق کے بعد "ازدواجی زندگی کا بحران" کے عنوان سے ایک مکمل باب شاملِ کتاب کیا ہے۔ جس میں انہوں نے یہ اعتراف کیا ہے کہ "علامہ اقبال کو بچپن سے گانے کا شوق تھا اور وہ راگوں کے الاپ سے شناسا تھے۔انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں ترنم سے نظمیں پڑھتے تھے۔ان کے پاس ایک ستار تھا اور اسے بجانے کی مشق بھی کیا کرتے تھے۔" اسی دور میں اقبال نے یہ شعر کہا۔ لوگ کہتے ہیں مجھےراگ کو چھوڑو اقبال راگ ہے دین مرا،راگ ہے ایمان مرا یہ اقبال کے ایامِ جوانی تھے کہ کبھی کبھی گانا بھی سن لیا کرتے تھے۔ دہلی جاتے تو خواجہ حسن نظامی علامہ اقبال کے لیے محفلِ سماع کا اہتمام بھی کرتے۔علامہ اقبال کو قوالی بہت پسند تھی۔ علامہ اقبال کو اولیائے دین سے بھی خاصا لگاؤتھا مزارات پر حاضری دینا اپنی خوش قسمتی تصور کرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ یورپ کے سفر پر نکلتے ہوئے آپ خواجہ معین الدین چشتی کے دربارپر حاضری سے اپنے سفر کی ابتداء کرتے ہیں۔ علامہ اقبال کبھی کبھار آغا حشر کاشمیری کا ڈرامہ دیکھنےتھیٹر بھی چلے جایا کرتے تھے لیکن علامہ اقبال کی شراب نوشی اور عیاشی کا کوئی بھی ثبوت سامنے نہیں آتا۔یہ ایک عام سا نظریہ ہےکہ عیاش پرستی کے شوقین دراصل امیر لوگ ہوتے ہیں اور علامہ اقبال نے زندگی بھر امیر بننے کی کوشش ہی نہیں کی۔ لیکن یہاں سوال یہ ابھرتا ہےکہ پہلی شادی کی نا کامی کے بعد اقبال نے دوسری دو شادیاں کیوں کیں؟ تو اس کا جواب ڈاکٹر جاوید اقبال نے بڑے احسن طریقے سے دیا ہے لکھتے ہیں کہ" بہت سی پڑھی لکھی اور امیر خواتین علامہ اقبال سے شادی کی خواہش مند تھیں لیکن علامہ اقبال کسی ایسی خاتون کو اپنی بیوی بنانا چاہتے تھے جو ان کے خاندان کے ساتھ ایڈجسٹ کر سکے۔" ۱۹۱۰ میں علامہ اقبال کی والدہ نے اندرون موچی دروازے لاہور کے ایک کشمیری خاندان کی دو شیزہ مختار بیگم کو پسند کیا جس کے ساتھ اقبال کا دوسرا نکاح ہوا۔ ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ مختار بیگم کے بارے میں کچھ گمنام خطوط ملنے کی بنا پر علامہ اقبال تذبذب کا شکار ہو گئے اور ان کے درمیان قبل از رخصتی بعض غلط فہمیاں پیدا ہو گئیں یا کر دی گئیں جس کی بنا پر یہ معاملہ تین سال تک زیرِ التوا رہا۔ اسی دوران علامہ قبال نے مختار بیگم کو طلاق دینے کا ارادہ کیا مگرطلاق نہ دی۔ ۱۹۱۲ میں لدھیانہ سے علامہ اقبال کے لیے سردار بیگم کا رشتہ آیا۔ سردار بیگم لدھیانہ کےمشہور نو لکھا خاندان سے تعلق رکھتی تھیں جس کے ساتھ علامہ اقبال کا تیسرا نکاح ہوا۔ اگلے سال یعنی ۱۹۱۳ میں دوسری منکوحہ خاتون مختار بیگم نے علامہ اقبال کو خط لکھا اور کہا کہ میرا نکاح تو آپ سے ہو چکا ہے اب میں دوسرے نکاح کا تصور بھی نہیں کر سکتی اسی حالت میں پوری زندگی بسر کروں گی۔ یہ خط پڑھ کر اقبال کو غلط فہمی کا احساس ہوا اور انہوں نے لکھا کہ انہیں بھی افسوس ہوا ہے۔ لہٰذا سردار بیگم کو اعتماد میں لے کر علامہ اقبال نے مختار بیگم سے دوبارہ نکاح پڑھوایا۔ اسی طرح مختار بیگم کے بارے میں پیدا کر دہ غلط فہمیاں دور ہو گئیں اور یہ معاملہ بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ اپنے نیک انجام کو پہنچا۔ اسی طرح علامہ اقبال کی نجی زندگی کا یہ پریشان کن مسئلہ بڑے اطمینان بخش طور پر حل ہو گیا اور کسی قسم کی کوئی پریشانی باقی نہ رہی۔ مہاراجہ کشن پرشاد کے نام ۲۶ اکتوبر ۱۹۱۳ میں تحریر کردہ ایک خط میں علامہ اقبال نے اندرون موچی دروازے والی بیوی مختار بیگم کا واقعہ جس دلچسپی سے بیان کیا ہے اس کے بعد مزید کسی وضاحت کی ضرورت باقی ہیں رہتی۔ لکھتے ہیں کہ" خود تین بیویاں رکھتا ہوں اور دو اولادیں۔ تیسری بیوی آپ کے تشریف لے جانے کے کچھ عرصہ بعد کی ہے۔ ضرورت نہ تھی مگر یہ عشق ومحبت کی ایک عجیب و غریب داستان ہے۔اقبال نے گوارا نہ کیا کہ جس عورت نے حیرت ناک ثابت قدمی کے ساتھ تین سال اس کے لیے اس طرح کے مصائب اٹھائے ہوں ،اسے اپنی بیوی نہ بنائے۔ کاش !دوسری بیگم کرنے سے بیشتر یہ حال معلوم ہوتا۔" نکاح کے بعد علامہ اقبال نے دونوں بیویوں کو بھاٹی گیٹ والے مکان میں رکھا۔ دونوں بیویوں کو آپس میں بے حد پیار تھا اور وہ دونوں اکٹھے رہنا پسند کرتی تھیں۔بقول ڈاکٹر جاوید اقبال " دونوں میں بہت محبت تھی، ان دونوں کے اصرار پر ایک دفعہ اقبال نے اپنی پہلی بیوی کریم بی بی کو بھی بلوایا وہ کچھ دن کے لیے آئیں اور واپس چلی گئیں۔" ۱۹۲۴ میں دوران ِ زچگی مختار بیگم لدھیانہ میں انتقال کر گئیں۔علامہ اقبال نے بذاتِ خود ان کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ سردار بیگم کے بطن سے جاوید اقبال اور منیرہ اقبال پیدا ہوئے۔جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی ایک تصنیف "اپنا گریبان چاک" میں لکھا ہے کہ " سردار بیگم کا اصرار تھا کہ والد باقاعدگی سے وکالت کریں کیونکہ گھر کے اخراجات پورے نہیں ہوتے تھے وہ کہا کرتیں کہ میں اس گھر میں ایک لونڈی کی طرح کام کرتی ہوں اور پیسے بچانے کی کوشش کرتی ہوں آپ بستر پر دراز شعر لکھتے رہتے ہیں جواب میں علامہ اقبال صرف کھسیانی ہنسی ہنس دیتے۔" سردار بیگم ایک با سلیقہ اور کفایت شعار خاتون تھیں۔اپنی کفایت شعاری کی وجہ سے انہوں نے کچھ رقم جمع کر رکھی تھی۔ یہ رقم اور ان کے زیورات فروخت کر کے لاہور میں اراضی خریدی گئی جس پر بعد ازاں جاوید منزل کو تعمیر کیا گیا۔ابتدا میں یہ گھر سردار بیگم کے نام تھا بعد میں علامہ اقبال کے کہنے پر انہوں نے یہ گھر جاوید اقبال کے نام منتقل کر دیا۔ اسی دور میں علامہ اقبال نےاپنا زیادہ تر وقت گھر میں بسر کیا اور اسی دور میں ہی انہوں نے اپنی طویل نظم اسرارِ خودی کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔سردار بیگم کی انتھک کاوشوں سے تعمیر ہونے والے مکان میں وہ ۱۹۳۵ میں رہائش پذیر ہو گئے۔با رضائے الٰہی سےصرف چند دن کے قیام کے بعد ہی سردار بیگم کا اسی گھر یعنی جاوید منزل میں انتقال ہو گیا۔سردار بیگم کو لاہور کے بی بی پاک دامن قبرستان میں دفن کیا گیا۔جب کہ کریم بی بی کا انتقال ۱۹۴۷ میں ہوا اور وہ لاہور کے معراج دین قبرستان میں مدفون ہیں۔ علامہ اقبال نے اپنی زندگی کے بقیہ تین سال جاوید منزل میں بحثیت کرایہ دار بسر کیے۔علامہ اقبال ہرماہ با قاعدگی سے اپنی رہائش کا کرایہ جاوید اقبال کے نام بھجواتے رہے۔ ضروری نہیں ہے کہ ہر بڑا شاعر، فنکار،ادیب یا مصنف اپنی عائلی زندگی میں ایک کامیاب شوہر یا اچھا والد ثابت ہو سکے۔بڑے بڑےلوگ زندگی کے بڑے حصولِ مقاصد کے لیے اکثر چھوٹی چھوٹی ذمہ داریوں کو نظر انداز کر جاتے ہیں۔ان چھوٹی چھوٹی ذمہ داریوں کو ان کی غلطیاں تصور کر کے ان پر الزامات تراشنا چھوٹے لوگوں کا شیوہ رہا ہے۔انہیں چھوٹی چھوٹی ذمہ داریوں کو حاسدین،مخالفین اوردشمنان الزام تراشی اور کردار کشی کےطور پر استعمال کرتے ہیں۔ان کا یہ خیال ہے کہ شاید ان کے اس گھٹیا پن کی وجہ سے ان کی معاشرے میں عزت و مقام ہو گا مگر تاریخ ان لوگوں کو ہمیشہ فراموش کرتی آئی ہے اور فراموش کرتی رہے گی۔ محمد شہباز انصاری جاگووالہ نو 6475861-0301 119.160.97.173 01:58، 18 دسمبر 2022ء (م ع و)