خوش آمدید! ترمیم

ہمارے ساتھ سماجی روابط کی ویب سائٹ پر شامل ہوں:   اور  

(?_?)
 
 

جناب نوید امجد طیب میرپوری کی خدمت میں آداب عرض ہے! ہم امید کرتے ہیں کہ آپ اُردو ویکیپیڈیا کے لیے بہترین اضافہ ثابت ہوں گے۔
ویکیپیڈیا ایک آزاد بین اللسانی دائرۃ المعارف ہے جس میں ہم سب مل جل کر لکھتے ہیں اور مل جل کر اس کو سنوارتے ہیں۔ منصوبۂ ویکیپیڈیا کا آغاز جنوری سنہ 2001ء میں ہوا، جبکہ اردو ویکیپیڈیا کا اجرا جنوری 2004ء میں عمل میں آیا۔ فی الحال اردو ویکیپیڈیا میں کل 206,254 مضامین موجود ہیں۔
اس دائرۃ المعارف میں آپ مضمون نویسی اور ترمیم و اصلاح سے قبل ان صفحات پر ضرور نظر ڈال لیں۔



 

یہاں آپ کا مخصوص صفحۂ صارف بھی ہوگا جہاں آپ اپنا تعارف لکھ سکتے ہیں، اور آپ کے تبادلۂ خیال صفحہ پر دیگر صارفین آپ سے رابطہ کر سکتے ہیں اور آپ کو پیغامات ارسال کرسکتے ہیں۔

  • کسی دوسرے صارف کو پیغام ارسال کرتے وقت ان امور کا خیال رکھیں:
    • اگر ضرورت ہو تو پیغام کا عنوان متعین کریں۔
    • پیغام کے آخر میں اپنی دستخط ضرور ڈالیں، اس کے لیے درج کریں یہ علامت --~~~~ یا اس ( ) زریہ پر طق کریں۔

 


 

ویکیپیڈیا کے کسی بھی صفحہ کے دائیں جانب "تلاش کا خانہ" نظر آتا ہے۔ جس موضوع پر مضمون بنانا چاہیں وہ تلاش کے خانے میں لکھیں، اور تلاش پر کلک کریں۔

آپ کے موضوع سے ملتے جلتے صفحے نظر آئیں گے۔ یہ اطمینان کرنے کے بعد کہ آپ کے مطلوبہ موضوع پر پہلے سے مضمون موجود نہیں، آپ نیا صفحہ بنا سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ ایک موضوع پر ایک سے زیادہ مضمون بنانے کی اجازت نہیں۔ نیا صفحہ بنانے کے لیے، تلاش کے نتائج میں آپ کی تلاش کندہ عبارت سرخ رنگ میں لکھی نظر آئے گی۔ اس پر کلک کریں، تو تدوین کا صفحہ کھل جائے گا، جہاں آپ نیا مضمون لکھ سکتے ہیں۔ یا آپ نیچے دیا خانہ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔


  • لکھنے سے قبل اس بات کا یقین کر لیں کہ جس عنوان پر آپ لکھ رہے ہیں اس پر یا اس سے مماثل عناوین پر دائرۃ المعارف میں کوئی مضمون نہ ہو۔ اس کے لیے آپ تلاش کے خانہ میں عنوان اور اس کے مترادفات لکھ کر تلاش کر لیں۔
  • سب سے بہتر یہ ہوگا کہ آپ مضمون تحریر کرنے کے لیے یہاں تشریف لے جائیں، انتہائی آسانی سے آپ مضمون تحریر کرلیں گے اور کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔


-- آپ کی مدد کےلیے ہمہ وقت حاضر
محمد شعیب 18:36، 25 اگست 2020ء (م ع و)

شہدائے بدر کے نام ترمیم

شہدائے بدر

                 جنگ ِ بدر میں کل چودہ مسلمان شہادت سے سرفراز ہوئے جن میں سے چھ مہاجر اور  آٹھ انصار تھے۔ شہداء مہاجرین کے نام یہ ہیں :  (۱) حضرت عبیدہ بن الحارث(۲)حضرت عمیر بن ابی وقاص(۳)حضرت ذوالشمالین عمیر بن عبد عمرو (۴) حضرت عاقل بن ابی بکیر(۵) حضرت مہجع(۶) حضرت صفوان بن بیضاء اور انصار کے ناموں کی فہرست یہ ہے : (۷)حضرت سعد بن خیثمہ(۸)حضرت مبشر بن عبدالمنذر(۹)حضرت حارثہ بن سراقہ(۱۰)حضرت معوذ بن عفراء (۱۱) حضرت عمیر بن حمام (۱۲) حضرت رافع بن معلی (۱۳)حضرت عوف بن عفراء (۱۴)حضرت یزید بن حارث۔([2]) رضی اﷲ تعالیٰ عنہم اجمعین ( زُرقانی ج۱ ص ۴۴۴ و ص۴۴۵)
           ان شہداء بدر میں سے تیرہ حضرات تو میدان بدر ہی میں مدفون ہوئے مگر حضرت عبیدہ بن حارث رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنے چونکہ بدر سے واپسی پر منزل ’’صفرائ‘‘میں وفات پائی اس لئے ان کی قبر شریف منزل ’’صفرائ‘‘ میں ہے۔ ([3]) (زُرقانی ج۱ ص۴۴۵) نوید امجد طیب میرپوری (تبادلۂ خیالشراکتیں) 18:40، 25 اگست 2020ء (م ع و)

سسر نے بہو سے زنا کیا تو تعلق نکاح کا کیا حکم ہو گا? ترمیم

سوال- اگر سسر اپنی بہو سے زنا کر لے تو کیا وہ عورت اپنے خاوند پر حرام ہو جائے گی ؟ سائل کوئٹہ سے

 جواب از حافظ نوید امجد طیب
     زنا شریعت میں حرام فعل ہے جس کے بارے میں فرمان الہی ہے کہ "زنا کے قریب بھی نہ جاؤ" یعنی زنا کرنا تو دور کی بات اس کے قریب بھی نہ جاؤ ، زنا کتنا بڑا گناہ ہے؟ اس کا اندازہ اسکی  سزا سے لگایا جاسکتا ہے ،شادی شدہ زنا کرے تو اسکی سزا رجم، یعنی پتھر مار مار کر مجرم کوختم کرنا ہے اور اگر     کنوارہ زنا کرے تو اسکی سزا سرے عام سو کوڑے مارنا ہے۔ 

بوڑھے زانی کے بارے میں وارد ہوا ہے کہ جنت کی خوشبو نہیں پائے گا، اگر کسی نے ایسا کیا تو توبہ کرے ،زیادہ سے زیادہ نیکیان کمائے، ہمیشہ اللہ سےمعافی مانگتا رہے اور یہاں تک مسئلہ ہے کہ سسر نے بہو سے زنا کیا تو کیا خاوند پر حرام ہوجائے گی؟ یہ شبہ اور سوال اسلئے پیدا ہوا ہے کیونکہ اُسکا خاوند اُسکےسسر کا بیٹا ہے تو باپ کی منکوحہ بیٹے پر حرام ہوتی ہے تو کیا ایسی متاثرہ عورت بھی خاوند پر حرام ہو گئ ہے ؟ جواب نہیں ایسی عورت اپنے خاوند پر حرام نہیں ہوتی اسکی دلیل یہ ہے کہ کسی حرام کام سے کوئی بھی حلال چیز حرام نہیں ہوجاتی جیسا کہ  عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ نبي صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: لا يحرم الحرام الحلال کوئی حرام کام حلال کو حرام نہیں کرسکتا۔

(سنن ابن ماجہ ، داراقطني والبيهقي في معرفة السنن والآثار) 
  اس لئے سسر کے زنا کرنے سے وہ عورت لڑکے کی ماں نہیں بنی، بیوی ہی ہے  اس میں لڑکے کا کوئی قصور نہیں کہ اسے بیوی سے محروم کیا جائے  اور لڑکی  بھی بےقصور ہو سکتی ہے اس سے جبر بھی ہو سکتا ہے، زنا کو نکاح پر قیاس کرنا حرام کو حلال پر قیاس کرنا ہے جو عقلا وشرعا درست نہیں۔ 
                واللہ أعلم نوید امجد طیب میرپوری (تبادلۂ خیالشراکتیں) 11:40، 26 اگست 2020ء (م ع و)

متعصب کے بارے میں علامہ شوکانی کی راۓ ترمیم

علامہ شوکانی رحمہ اللہ پر کیا خوب فرما گئے: وَالْمُتَعَصِّبُ وَإِنْ كَانَ بَصَرُهُ صَحِيحًا فَبَصِيرَتُهُ عَمْيَاءُ، وَأُذُنُهُ عَنْ سَمَاعِ الْحَقِّ صَمَّاءُ. "متعصب کی بصارت اگرچہ صحیح ہو مگر اس کی بصیرت اندھی ہوتی ہے، اور اس کے کان حق سننے سے بہرے ہوتے ہیں۔" [فتح القدير: 277] نوید امجد طیب میرپوری (تبادلۂ خیالشراکتیں) 11:46، 26 اگست 2020ء (م ع و)

عورت کا مرد کو دیکھنا ترمیم

سوال ۔ کیا عورت مرد کو دیکھ سکتی ہے۔? مثلا بازار سے خریداری کرتے ہوئے

اور وہ حضرت عائشہ والی حدیث جس میں ایک نابینہ صحابی تھے وہ ضعیف ہے ؟؟؟

کیونکہ اس حدیث کی بنا پر عورتوں کا ٹی وی دیکھنا جائز بتایا جا رہا ہے۔ اور حضرت عائشہ نے جو حبشہ کے مردوں کا تماشہ دیکھا تھا سے استدلال کرتے ہیں ??

اس کو تفصیلی جواب چاہئیے (سائل سعودی عرب سے)

جواب ۔ از حافظ نوید امجد طیب میرپوری

جواب : ہاں نابینا والی حدیث ضعیف ہے ۔ لیکن حدیث ضعیف ہونے سے پورا مسئلہ ہی الٹ نہیں ہو جاتا خصوصا جب دیگر دلائل بھی موجود ہوں مثلا سورۃ نور آیت 31 (مسلمان عورتوں سے کہو کہ وه بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں - - - )

تو نگاہیں نیچی کس سے رکھنی ہیں ??? یعنی اگر دیکھنا ہی ہے تو نگاہیں نیچی کیسے ہوں گی? دوسرے اشکال کا جواب یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نابالغ تھی چپ کر دیکھ سکتی تھی

    آپ کی باقی آٹھ اور بھی ازاواج مطہرات تھی انہیں کیوں نہیں کھیل دیکھایا?
ثانیا اضافۃ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ غلام مسجد میں مشقیں کر رہے تھے پردے کے حوالے سے غلاموں کے احکام میں کچھ نرمی بھی ہے 

اور پھر پردے کے احکام کب نازل ہوئے یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

باقی ضرورت کے تحت عورت پردے میں رہ کر سبزی یا دیگر ضروریات بقدر الضرورۃ خرید سکتی ہے لیکن حدود میں رہ کر سبزی والے کی آنکھوں میں آنکھیں نہ ڈالے سائیڈ کیطرف دیکھ کر مخاطب ہو لہجہ سخت رکھے جی جی نہ کرے

(یَـٰنِسَاۤءَ ٱلنَّبِیِّ لَسۡتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ ٱلنِّسَاۤءِ إِنِ ٱتَّقَیۡتُنَّۚ فَلَا تَخۡضَعۡنَ بِٱلۡقَوۡلِ فَیَطۡمَعَ ٱلَّذِی فِی قَلۡبِهِۦ مَرَضٌ وَقُلۡنَ قَوۡلًا مَّعۡرُوفًا) [سورة الأحزاب 32] اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وه کوئی برا خیال کرے اور ہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو

لیکن آجکل کی عورتوں نے گرم لہجہ خاوند کے لۓ رکھا ہوا ہے باہر جی جی کرتی نہیں تھکتی

         واللہ اعلم نوید امجد طیب میرپوری (تبادلۂ خیالشراکتیں) 11:51، 26 اگست 2020ء (م ع و)

*ابن تيمية رحمہ اللہ تاریخ ساز شخصیت* ترمیم

  • ابن تيمية رحمہ اللہ تاریخ ساز شخصیت*

از حافظ نوید امجد طیب میرپوری

 تاریخ کہتی ہے کہ ایک زمانے میں عیساٸیت پر ایسا جمود طاری تھا کہ جو اجتھاد یا ساٸنسی ایجادات کرتا، پادری اسے (تحریف شدہ)  مذہب کے خلاف گردان کر پابند سلاسل کر دیتے، یہاں تک کہ مجتھد تڑپ تڑپ کر سزاۓ اجتھاد کاٹتا اور مر جاتا جبکہ اصلی انجیل میں یقینا ایسا کوٸی جمود نہیں تھا،کچھ ایسا ہی دورِ جمود امتِ مسلمہ پر بھی گزرا ہے، جس کا سبب اندھی تقلید کا پھندا تھا،  اہل تاریخ نے لکھا کہ دورِ جمود میں حنفی مقلد شافعی عورت سے نکاح کرنا حرام کہتا اور شافعی مقلد حنفی عورت کے ساتھ نکاح کرنا نجس کرار دیتا اور اگر عوام بھولی بھالی کبھی ایسا کراس نکاح کر بیٹھتی تو مقلد مولوی تقلیدِ امام کی محبت میں نکاح فسخ کرنے بیٹھ جاتا اور تقلید سے خروج کو خروج عن الاسلام تصور کیا جاتا تھا، اجتھاد کا راستہ ایسے ہی بند کر دیا گیا تھا جیسے عیساٸیت نے اپنے پیروکاروں پر بند کیا تھا،ایسے جمود کے خلاف بعض جید علماء نے علمِ جہاد بلند کیا، جیلیں کاٹی ایسی ہی شخصیات میں سے تاریخِ اسلام میں ایک بڑا نام امام ابن تيميہ رحمہ اللہ کا بھی ہے،جو سر زمین دمشق کے باسی اور لقب شيخ الاسلام تھا آپ نے ہر موضوع پر قلم اٹھايا اور پایا تکمیل تک پہنچایا۔
  آپکی تصانیف پر نگاہ ڈالی جاۓ تو آپ بیک وقت مجدد، محدث، مصلح، فقہی اور مجاہد دیکھاٸی دیتے ہیں، امتِ مسلمہ کی نشأةِ ثانیة کا سہرا آپ کے سر ہے،آپ نے تمام باطل عقائد ونظریات کا رد کیا ، فقہ، فرقِ باطلہ، تصوف اور سياست،تفسير ،علمِ اصول، علمِ کلام، مسٸلہ امامت، اسماء وصفات باری تعالی، ختم نبوت ، گستاخِ رسول کی سزا جیسے اہم موضوعات کو زیر بحث لایا، علاوہ ازیں تاتاريوں اور باغيوں کے خلاف تلوار لے کر میدان جہاد  میں بھی اترے، آپ متعدد معارک کے غازی تھے۔
  امام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے اُس دور جمود میں جب اندھی تقلید سے نکلنا کفر سمجھا جاتا تھا ،كسى کی بھی پرواہ كيے بغير،جرأت مندانہ اپنی منفرد علمى تحقيقات پیش كى ، علمى مباحث اور فتاوی جات كى وجہ سے آپ نے سوا چھ سال تک قيد وبند كى صعوبتيں  برداشت كی، یہاں تک کہ اِس مجاہد کا جنازہ بھی جيل ہي سے نكلا قلعہ دمشق سوریہ میں بحالت قید و بند 20 ذوالقعدہ 728ھ میں وصال ہوا۔ 
کہتے ہیں کہ امت کا علمی مساٸل اور دلاٸل پر مبنی اختلاف رحمت ہوتا ہے یعنی جب نیت مخصوص طبقے کی حمایت نہ ہو بلکہ خود کو بدلنا مقصود ہو تو ایسا اختلاف اختلافِ محمود کہلاتا ہے یعنی قابل ِتعریف اختلاف اورجب قرآن وحدیث کے مغاٸر پہلے مسٸلہ گھڑا جاۓ پھر قرآن کو اپنے مسلک کا حمایتی بنانے کی ناکام کوشش کی جاۓ تو اسے اختلاف مذموم کہتے ہیں یعنی قابلِ مذمت اختلاف۔

ے خود بدلتے نہیں قرآن بدل دیتے ہیں ہوۓ فقہانِ حرم اس درجہ بے توفیق

   ظاہر ہے ایسے فعل کی جتنی مذمت کی جاۓ کم ہے

علامہ ابن تیمیہ نے ایسا محمود اختلاف کیا جو رہتی دنیا تک امتِ مسلمہ کے لٸے رحمت ہے، جیسے: ایک مجلس میں بیک وقت دی گٸ تین طلاق، ابن تیمیہ کے نزدیک ایک ہی طلاق شمار ہوتی ہے;کیونکہ آپ کے نزدیک ایک وقت میں ایک ہی طلاق دی جا سکتی ہے باقی کا وقت نہیں ہے لہذا واقع نہیں ہوتی جیسے وقت سے پہلے نماز پڑھنے سے نماز ادا نہیں ہوتی، آپ کے اس فتوی سے کٸ گھر آباد ہوۓ ،محبتیں واپس آٸی، ہزاروں بچوں کو خوشیاں ملی، دو خاندان دوبارہ ملے،گھر اُجڑنے سے بچے،اولاد رُلنے سے بچی،عورت حلالہ جیسی لعنت سے بچی، مرد کو سبق سیکھنے کا موقعہ ملا ، علامہ ابن تیمیہ کے اس فتوی کو مضبوط دلاٸل کی بنا پر، متعدد اسلامی ممالک میں پذیراٸی ملی، سوڈن میں 1935ء،اردن میں1951ء، شام میں 1953ء، مراکش میں1958ء ،عراق میں 1959ء، مصر میں1929ء اور پاکستان میں1961ء میں بیک وقت تین طلاق کو ایک ہی شمار کرنے کا قانون بنایا گیا، حالانکہ اِن ممالک میں اِن کا اپنا فقہی مسلک اس فتوی کے مغاٸر تھا، آزاد کشمیر لاء میں بھی اتنی گنجاٸش رکھی گٸ کہ جو اپنے آپ کو اہل حدیث کہلواۓ یا ابن تیمیہ کا فالو کہلواۓ، اسکے ساتھ اسی مسلک کے مطابق سلوک کیا جاتا ہے یعنی اگر تین طلاق دے اور عدالت میں ثابت ہو جاۓ کہ بندہ اہل حدیث ہے، تو ایک طلاق ہی شمار ہو گی;کیونکہ پرسنل لاء فقہی مسلک کے مطابق لاگو ہوتا ہے، علامہ ابن تیمیہ کے اس فتوی کو دیگر مسالک کےچند بڑے علماء نے بھی قبول کیا، جیسے پاکستان میں اہل حدیث مسلک نے، بریلوی مسلک میں سے پیر کرم شاہ نے اور دیوبند میں سے مولانا محفوظ الرحمن وغیرہ نے ،اسلام کی دو بڑی یونیورسٹیز، مدینہ یونیورسٹی اور جامعہ أزھر کے علماء بھی علامہ ابن تیمیہ کا فتوی فالو کرتے ہیں ۔

ابن تیمیہ كى تصانيف چار ہزاراجزاء سے متجاوز ہيں ،جن میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں:

الصارم المسلول علیٰ شاتم الرسول، منہاج السنۃ ،درء تعارض العقل والنقل، الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح، کتاب الایمان،کتاب النبوات ،العقیدۃ الواسطیہ ،اقتضاء الصراط المستقیم، قاعدۃ جلیلۃ فی التوسل و الوسیلہ، الاستقامہ، ابطال وحدۃ الوجود والرد علی القائلین بھا،مسئلۃ صفات اللہ تعالیٰ و علوہ علیٰ خلقہ ،کتاب الرد علی المنطقیین، السیاسۃ الشرعیۃ فی اصلاح الراعی والرعیۃ،الفرقان بین اولیاء الرحمن و اولیاء الشیطان ،الکلم الطیب ،الرد علی الاخنائی ،الرد علی البکری ،مجموع الفتاویٰ ،کتاب الاربعین اکثرکتب کے اردو تراجم موجود ہیں،

بہت سے علماء نے آپ کی سوانح حیات عربی میں لکھی، جیسے: ابن قدامہ، مرعى حنبلى، عمر البزار، عبدالسلام حافظ،محمد ابو زہرہ، أحمد العمري،  محمد عبدالهادي وغيره 
 اردو ميں آپ كى سوانح حیات پر مفید معلومات بذیل کتب میں مل سکتی ہے
سیرت امام ابن تیمیہ از ڈاکٹر محمد یوسف کوکن عمری اور  تاريخ دعوت وعزيمت جلد دوم ازمولانا ابو الحسن على ندوى، امام ابن تيميہ، افضل العلماء از ڈاکٹر غلام جيلانى برق ۔  
علامہ ابن تیمیہ نے گستاخ رسول کی سزا پر مکمل کتاب الصارم المسلول على شاتم الرسول، یعنی *گستاخ رسول پر لٹکتی تلوار* لکھ کر امت پر احسانِ عظیم کیا اپنے موضوع پر مکمل کافی شافی، دنیا کی پہلی کتاب ہے، آپ کے بعد جس نے بھی گستاخ رسول پر کچھ لکھا اِسی کتاب سے نقل کیا ہے۔ 
 عرب ستان سے مٶرخ ن۔م طیب نے لکھا ہے کہ ”شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا مواد چوری کر کر کے بہت سے لوگوں نے شیخ الاسلام، اعلی حضرت اور مناظر اسلام بننے کی کوشش کی ہےاور اوپر سے ستم ظریفی یہ کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کو گالیاں بھی دیتے رہے تاکہ انکی چوری پکڑی نہ جاۓ“
 راقم کو اگر کوٸی پوچھے ابن تیمیہ کا دوسطر میں تعارف کرا دیں تو کہوں گا کہ علمی دنیا کا ارطغرل دیکھنا ہے تو ابن تیمیہ کو پڑھ لو جو کبھی گستاخِ رسول پر تلوار کا وارِ نایاب کرتا ہے اور کبھی جھمیہ ، مرجیٸہ،خوارج ، ماتریدیہ، غالیہ وغیرہ کو لتاڑتا ہے، کبھی فقہ میں اپنا لوہا منواتا ہے اور کبھی اسلامی عقاٸد میں ،کبھی سیرت اور تاریخ میں اور کبھی حدیث وتفسیر میں مرد آہن دیکھاٸی دیتا ہے، انسانیت دوست اتنا کہ تقلیدی تنگ نظری سے امت کو نکال کر امت کا بکھرا شیرازہ جمع کرتا دیکھاٸی دیتا ہے، کٸ پر کفرِ معین کے اُصول وضع کرتا ہے تاکہ کوٸی مسلم، مخالف مسلک پر کفر کا جاہلانہ فتوی نہ لگاۓ، امن کا داعی، ہر مسلم سے محبت رکھنے والے شخص کا نام ابن تیمیہ ہے ”رفع الملام عن الأئمة الأعلام“ لکھ کر چاروں آٸمہ سمیت جملہ علماءِ دین کا دفاع کیا اور عدل وانصاف پسند اتنا کہ یہودی وعیساٸی  قیدی بھی تاتاریوں سے چھڑا لاۓ، تصنیف میں اتنا عادل کہ  اپنے قلم سے کسی فرقے پر ظلم نہ کرے، باطل فرق کے بھی درجات بتاۓ۔ غالی متشددین لوگوں کے علاوہ تمام مسالک کے علماء نے علامہ ابن تیمیہ کی خدمات کو سراہا ہے، اگرچے خارجی تکفیری فرقہ انہیں کافر تک کہہ جاتا ہے;کیونکہ خارجیوں تکفیریوں کا کام ہی مسلمانوں کو کافر کہنا ہے، ہماری نوجوان نسل کو تاریخ اسلام کے چیدہ چیدہ علمی میدان اور جنگی میدان کے ھیروز کا علم ہونا چاہیے اور ان کی سیرت کا گہراٸی سے مطالعہ کرنا چاہیے ،کاش! میرے وطن کا ہر جواں ارطغرل دیکھنے کی بجاۓ ارطغرل بن کر ہماری جغرافیاٸی حدود کی حفاظت کرے اور ہر جواں ابن تیمیہ بن کر ہماری نظریاتی حدود کی حفاظت کرے زمانہ ہمارا منتظر ہے۔ نوید امجد طیب میرپوری (تبادلۂ خیالشراکتیں) 16:48، 28 اگست 2020ء (م ع و)

حاملہ سے نکاح کا مسٸلہ ترمیم

سوال ۔ اگر آدمی نے کسی عورت سے زنا کیا اور وہ حاملہ بھی ہوگئ تو کیا حمل کی حالت میں اسی مرد کے ساتھ اس کا نکاح ہو سکتا ھے?

             (سائل سعودی عرب سے) 

جواب ۔ از حافظ نوید امجد طیب فاضل مدینہ یونیورسٹی

حاملہ عورت سے نکاح جائز نہیں چاہیے زنا سے حاملہ ہے یا فوت شدہ خاوند سے یا طلاق یافتہ حاملہ ہے اور چاہیے زنا کرنے والا نکاح کرنا چاہتا ہے یا کوئی دوسرا' اس پر کتاب وسنت کے متعدد دلائل موجود ہیں ملاحظہ ہو

 باب تحريم وطء الحامل المسبية 

 عن أبي الدرداء عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه أتى بامرأة مجح على باب فسطاط فقال لعله يريد أن يلم بها فقالوا نعم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لقد هممت أن ألعنه لعنا يدخل معه قبره كيف يورثه وهو لا يحل له كيف يستخدمه وهو لا يحل له 

          روى مسلم (1441)

معنی الحدیث ابو درداء راوی ہیں

شوال8 ھ،  غزوة أوطاس  میں فتح کے بعد غنائم تقسیم ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک خیمہ کے قریب حاملہ لونڈی کے پاس سے ہوا تو دیکھا لونڈی کا پیٹ حمل کیوجہ سے نکلا ہوا ہے تو خیمہ کے قریب دیکھ کر اندازہ ہوا کہ جس کے حصے میں آئی ہے وہ صاحب  استبراء رحم کا انتظار کیے بغیر وطئ کرنا چاہتے ہیں تو صحابہ سے پوچھا شاید اسکا مالک اس سے اس حالت میں وطئ کرنا چاہتا ہے صحابہ نے کہا بالکل ایسا ہی ہے، 

تو آپ نے فرمایا میرا ارادہ ہے کہ میں حاملہ سے وطئ نکاح کرنے والے پر ایسی لعنت کروں جو اسکے ساتھ قبر تک جائےکیونکہ وہ ایسا فعل کرتا ہے جو جائز ہی نہیں اس صاحب کو مسئلہ کا پتہ نہیں تھا لہذا ارادے پر عمل نہیں کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کرنے والے کو بھیجا کہ لوگوں میں اعلان کرو کہ حاملہ سے وطی نہ کرنا وضع حمل کا انتظار کرو اور جو لونڈی حاملہ نہیں ہے تو اس کے ایک حیض استبراء رحم کا انتظار کرو۔

    مذکورہ حدیث حاملہ سے مطلق طور پر وطئ کرنے کی حرمت پر واضح دليل ہے ' چاہے زنا سے ہی حاملہ ہوئی ہو کیونکہ رسول اللہ نے اس موقعہ پر یہ وضاحت طلب نہیں کی کہ زنا سے حاملہ تو نہیں?  اور نہ خود ذکر کیا کہ زنا سے حاملہ کا حکم اس سے مختلف ہے      
  تو ایسے مقام پر جب وضاحت کی ضرورت ہوحکم بیان کرنے میں تاخیر کرنا ناممکن ہے 

تفصیل کے لۓ دیکھیے

"المفهم شرح مسلم" (4/171).
    فقہاء میں سے  مالكية 'حنابلة ' ایک روایت امام ابوحنیفہ  کے علاوہ  امام أبو يوسف کا بھی یہی فتوی ہے            کیونکہ حدیث میں ہے کہ  : نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: 
(لا توطأ حامل حتى تضع).
       رواه أبو داود والحاكم وصححه، 

" حامل سے وضع حمل سے پہلے نکاح نہ کرو"

وروي عن سعيد بن المسيب : " أن رجلا تزوج امرأة ، فلما أصابها وجدها حبلى ، فرفع ذلك إلى النبي صلى الله عليه وسلم ففرق بينهما ، وجعل لها الصداق ، وجلدها مائة ) رواه سعيد  .  سعيد بن المسيب سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے شادی کی تو اسے معلوم ہوا کہ عورت حاملہ ہے رسول اللہ کے پاس معاملہ آیا تو آپ نے دونوں میں تفریق ڈال دی-

حاملہ سے کیا ہوا نکاح باطل ہے اگر کسی نے ایسا کر لیا ہے تو  دونوں میں جدائی کرائی جاہے گی اگرچے اس کے دس بچے بھی ہو گے ہوں استبراء رحم کے بعد اگر چاہے تو نئے سرے سے نکاح کیا جائے ۔  
ارشاد باری تعالیٰ  ہے:

﴿وَلا تَعزِموا عُقدَةَ النِّكاحِ حَتّىٰ يَبلُغَ الكِتـٰبُ أَجَلَهُ...﴾... سورة البقرة ٢٣٥

’’اور جب تک عدت پوری نہ ہو جائے  نکاح کا پختہ ارادہ نہ کرنا۔‘‘

اب دیکھتے ہیں کہ کسی بھی حاملہ عورت کی عدت کتنی مقرر ہے?

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَأُولـٰتُ الأَحمالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعنَ حَملَهُنَّ...﴾... سورة الطلاق ٤

’’اور حمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل (بچہ جننے) تک ہے۔‘

اس حالت میں زانی سے بھی شادی نہیں کرے گی کیونکہ وہ بچہ شرعا زانی کا بیٹا نہیں اور نہ ہی اس کی طرف منسوب ہو سکتا ہے اور نہ اس کا شرعی وارث ہے بلکہ بچہ صرف ماں کیطرف منسوب ہو گا  نبي ﷺ نے فرمایا: الولد للفراش وللعاهر الحجر. (البخاري ومسلم.)

بچہ اسی کا ہے جس کے بستر پر پیدا ہوا جبکہ زانی کو بچہ نہیں پتھر (رجم) ملیں گے زانی کیلئے پتھر ہیں ۔

اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ( لا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسقي ماءه زرع غيره). رواه أبو داود. جسکا اللہ اور آخرت پر ایمان ہے یعنی جو مسلمان ہے اسکے لئے حلال نہیں کہ وہ اپنا پانی دوسرے کی کھیتی کو پلائے تو ظاہر ہے جب کھیتی اسکی نہیں تو کھیتی کا نتاج بھی اسکو نہیں ملے گا اور حالت حمل میں وہ اس کھیتی کو مذکورہ آیات کی روشنی میں حاصل بھی نہیں کر سکتا۔

 *جس نے حاملہ سے نکاح کیا اور مزید اولاد بھی ہو گئ تو کیا نکاح صحیح ہو جائے گا اور اولاد کیا اس کی طرف منسوب ہو سکتی ہے?*

الجواب

اولاد ہونے سے نکاح صحیح نہیں ہو جائے گا بلکہ صحیح کرنا پڑے گا محتاط بات یہ ہے کہ تفریق اور استبراء رحم کے بعد دوبارہ نکاح کرے ولی اور گواہ رکھے جیسا کہ عام نکاح کا طریقہ ہے الشیخ صالح المنجد وغیرہ اسی طرف گے ہیں

اور جہاں تک اولاد کا مسئلہ ہے تو امام ابن تیمیہ وغیرہ نے نقل کیا ہے کہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اولاد باپ کیطرف ہی منسوب ہو گی اور اسکی وارث بھی بنے گی چاہیے نفس الامر میں نکاح باطل تھا جیسے کوئی جاہل عدت میں نکاح کر جائے تو بالاتفاق اولاد اسی کی طرف منسوب ہو گی استدلالا الولد للفراش کہ بچہ اسی کیطرف منسوب ہو گا جس کے بستر پر پیدا ہوا ہے

مختار بتصرف من

         "مجموع الفتاوى" (34/13).

اسی طرح اگر کسی کو نکاح کے بعد پتہ چلا کہ عورت تو حاملہ ہے یا پتہ ہونے کے باوجود نکاح کر گیا تو کیا حکم ہے ?

   جواب:  نکاح باطل ہے تفریق واجب ہے استبراء رحم کے بعد نکاح کرنا چاہتا ہے تو دوبارہ نئے سرے سے ولی گواہ مہر کا پراسس مکمل کر کے کر ایسا کر سکتا ہے  یہی ابن باز رحمہ اللہ کا فتوی ہے۔


                                واللہ أعلم بالصواب نوید امجد طیب میرپوری (تبادلۂ خیالشراکتیں) 16:51، 28 اگست 2020ء (م ع و)

یقظہ میں اسم محمد کا دیدار ترمیم

سوال: ایک اہلحدیث خطیب ہیں کثرت سے درود پڑھتے ہیں ان کو متعدد بار یقظہ میں اسم محمد لکھے ہوئے الفاظ کا خوبصورت بادلوں میں دیدار ہوا ہے اسکی کیا تعبیر ہو گی ? (سائل محمد خالد سیف اللہ)

جواب ۔ از حافظ نوید امجد طیب فاضل مدینہ یونیورسٹی

دن کو خواب دیکھے یا رات کو , خوابوں سے کوئی شرعی حکم ثابت نہیں ہوتا

البتہ اسم محمد دیکھے, لکھے یا پڑھے اس پر درود صلی اللہ علیہ وسلم پڑھنا چاہیے

محتاط رہے تشھیر نہ کرے تشھیر سے فتنے میں دوسرے کو یا خود کو مبتلاء کرنے کا خدشہ ہوتا ہے

عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کا واقعہ ذہن میں رکھے کہ وہ عبادت میں مشغول تھے اچانک ہر طرف خوبصورت نور ہو گیا پھر نور سے آواز أئی کہا میں تمھارا رب بول رہا ہوں تمھیں مزید ریاضتوں کی ضرورت نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ انہوں نے سوچا عبادت سے چھٹی تو کسی نبی کو بھی نہیں ملی فورا اعوذ باللہ پڑھا ساری روشنیاں غیب ہو گئ کیونکہ وہ شیطان تھا گمراہ کرنے آیا تھا پھر کہنے لگا اے عبدالقادر تجھے تیرے علم نے بچا لیا جیلانی رحمہ اللہ نے پھر اعوذ باللہ پڑھا کہ ابھی مجھے تکبر میں مبتلاء کرنا چاہتا ہے تو شیطان مع اپنی خوبصورت روشنیاں بھاگ گیا ۔

ہمارے استاذ مولانا احمد علی رحمہ اللہ کے پاس آخری کلاس کا ایک افغانی طالب علم آیا کہ شیخ میں نے اللہ کو دیکھا ہے مولانا نے اسے تشھیر سے منع کیا اور فتنوں سے ہوشیار رہنے کا کہااور کہا اعوذ باللہ پڑھو مولانا کہتے تھے چند دن بعد وہ تسبیح رولتا پھرتا تھا پھر کئ شاید پیری مریدی کے چکر میں چلا گیا

مذکورہ صاحب کشف کو ہر حال میں اتباع سنت کو سامنے رکھنا چاہیے چاہے کچھ لکھا نظر آئے یا نہ آئے ۔

غالبا امام شافعی کا قول ہے جس کی تشریح و مفہوم اپنے الفاظ میں بیان کیا جائے تو کچھ اس طرح ہے کہ اگر ہم کسی کو ہوا میں اڑتا ہوا اور پانی پر چلتا ہوا بھی دیکھ لیں تو اسکی کرامتوں پر نہیں بکیں گے بلکہ اس کے عمل کو دیکھیں گے اگر اسکے اعمال قرآن وسنت کے مطابق ہیں تو ٹھیک ہے مسلمان ہے , اگر عمل قرآن وسنت کے

مخالف ہے تو فراڈیہ جادو گر شعبدہ باز ہے .

ایسے کشفات میں فتنے کا ڈر زیادہ ہوتا ہے خصوصا آج کے سوشل میڈیا کے دور میں۔

اللہ ہم سب کو فتن ۔ آزمائش۔ امتحان سے محفوظ رکھے

 ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب نوید امجد طیب میرپوری (تبادلۂ خیالشراکتیں) 16:54، 28 اگست 2020ء (م ع و)

*تتہ پانی کی سیر* ترمیم

  • تتہ پانی کی سیر*

تحریر: حافظ نوید امجد طیب

 ناواقف قاری کو پہلے تتہ پانی کا تعارف کرائے دیتا ہوں ، تتہ پانی آزاد کشمیر  ضلع کوٹلی کا آخری کونہ جو ہجیرہ  کے ساتھ لگتا ہے اسے کہتے ہیں اور تتہ پانی جگہ کا نام ہے، وجہ تسمیہ دریائے پونچھ کے کنارے ایک گڑھا سا ہے جس سے قدرے زیادہ گرم پانی نکل کر بہتہ رہتا ہے اور اس کے ساتھ کندھک کی آمیزش بھی دیکھائی دیتی ہے اور یہی آمیزش پانی کے گرم ہونے کا سبب ہے، دور دراز سے لوگ اسے دیکھنے اور نہانے آتے ہیں اور مبالغہ آرائیاں بھی کرتے رہتے ہیں کہ اس پانی میں انڈے رکھو تو خود ابل جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ جبکہ یہ سب مبنی بر سفید جھوٹ ہے مرغی کے انڈے سارا دن رکھ کر بیٹھ جاو تو نہیں ابلتے کسی کے اپنے ابل گے ہوں تو پتہ نہیں البتہ پانی تتہ ہے اور کھڈے کے ارد گرد دو تین ریسٹ ہاوس بنے ہوئے ہیں جن میں باتھ روم بھی ہیں جن کے اندر گرم پانی بذریعہ موٹر دستیاب ہے غالبا بیس روپے دے کر آدمی وہاں نہا سکتا ہے، پہلی دفعہ میں اپنے ایک دوست کے ہمراہ پلندری کی تحصیل بلوچ گیا تو واپسی پر شارٹ کٹ مارنے کے لئے موٹرسائیکل کو  ایک لنک روڈ پر ڈالا جو جا کر بمقام تتہ پانی نکلا تو اسی بہانے ہم نے تتہ پانی بھی دیکھ لیا ، جس کے بارے میں لوگوں سے بہت سے فضائل بھی سن رکھے تھے جیسے کوئی آب حیات ہے، جی چا آج اس میں نہا کر چودہ طبق روشن کر لوں تاکہ ہر بیماری دور ہو جائے، زم زم اندر کی بیماریاں دور کرتا ہے تو شاید یہ باہر کی دور کر دے گا، ریسٹ ہاوس کے چوکیدار سے پوچھا کہ غسل کے کتنے روپے لیتے ہو، کہنے لگا بیس تیس، ہم نے کہا چلیں پھر غسل خانہ کھول دیں تاکہ نہا لیں، اسوقت گرمیوں کا موسم تھا کہنے لگا نہانے کا آپشن صرف موسم سرما کے لئے ہے آپ موسم سرما میں تشریف لانا ،بڑا تعجب ہو کہ بے وقوف عوام سرما گرما میں دوڑتی رہتی ہے پھر پتہ نہیں  یہ موسم گرما میں پیسے کیوں نہیں بٹورتا سرما کا انتظار کر رہا ہے، بہرحال یہ حکمت تو نہ پوچھی البتہ تتہ پانی کو حسرت بھری نگاہوں سے باربار دیکھا اور بغیر بیماریاں موکائے واپس پلٹ آئے کہ پتہ نہیں موسم سرما تک زندگی وفا کرے گی کہ نہیں ،اللہ اللہ کر کے پھر موسم سرما آگیا تو  ہم کسی بہانے پھر سے تتہ پانی پہنچ گے، جلدی جلدی بیس روپے نکال کر چوکیدار کو دیے کہ جلد یار غسل خانہ کھولو پھر کہیں گرمیاں نہ آ جائیں، اس نے غسل خانے کھول دیے، اندر جا کر خوب نہائے، جسم پر خوب پانی ملا کہ کہیں کوئی بیماری رہ نہ جائے، پانی بھی خوب بالٹیاں کی بالٹیاں ھنڈیل ماری اور عینکیں لگا لگا کر دیکھا کہ کون کون سی بیماری پانی میں بہتی جا رہی ہے، آدھا گھنٹہ بعدیہ جان کر باہر نکلا کہ شاید جوانی لوٹ آئی ہو گی یا زیادہ پانی بہانے کے باعث کہیں بچپنا نہ لوٹ آیا ہو، باہر آکر سنہ ھجری پوچھی وہ تو کسی کو پتہ نہ تھی ،سوچا اس سے پہلے کا کوئی دور نہ ہو، خلیفہ وقت کا نام پوچھا تو معلوم ہوا کہ عمران خان ہی ہے،مایوسی کے عالم میں ایک عمر رسیدہ شخص سے پوچھا بابا جی اس پانی کے کیا کیا فائدے ہیں، اس نے بتایا کہ نہانے سے تو کچھ خاص نہیں ہوتا ، البتہ اگر چشمے کے بھاؤ کیطرف بیٹھ کر بھاپ لی جائے تو نیند نیناں اور سکھ چیناں حاصل ہوتا ہے، ہم نے سوچا کیوں نہ ہو یہ بے وقوفی بھی کر لی جائے، باقی دن بہاو میں بیٹھ کر گزارہ لیکن سوائے کندھک کی بدبو اور کھرک کے کچھ حاصل نہ ہوا ، واپسی کی راہ لی اور غم غلط کرنے کے لئے راستہ سے مالٹے امرود لے کر کھائے،  ساتھ ساتھ اس بوڑھے کا سنہری قول یاد کیا جو کڑاکے کی دھوپ میں کوٹلی اڈے پر بیٹھا ہوا تھا ایک کنڈیکٹر آوازے لگا رہا تھا تتہ پانی، تتہ پانی، بابا تتہ پانی جبکہ بوڑھا کہہ رہا تھا سخت گرمی میں میں کیا کروں تتہ پانی کو مجھے ٹھنڈا پانی دے . نوید امجد طیب میرپوری (تبادلۂ خیالشراکتیں) 17:06، 28 اگست 2020ء (م ع و)

حرام مال کو صدقہ کرنا ترمیم

سودی یا حرام رقم کسی صورت مسجد پر خرچ نہیں کی جا سکتی۔ ایسی رقم سے خلاصی حاصل کرے جس کا طریقہ یہ ہے کہ کسی محتاج کو سامنے آۓ بغیر اس تک پہنچا دے تاکہ کسی پر احسان نہ ہو اور اللہ سے اس کبیرہ گناہ پر سچی توبہ بھی کرتا رہے۔ اور اس عمل کا کوٸی ثواب نہیں بلکہ حرام مال سے جان چھڑانا کا ایک طریقہ ہے۔ نوید امجد طیب میرپوری (تبادلۂ خیالشراکتیں) 16:53، 4 ستمبر 2020ء (م ع و)

ذو الشمالین ترمیم

وجہ تسمیہ 154.91.163.5 18:58، 22 جنوری 2024ء (م ع و)

ذوالشمالین وجہ تسمیہ ترمیم

ذو الشمالین وجہ تسمیہ 154.91.163.5 18:59، 22 جنوری 2024ء (م ع و)