تحصیل پسرور
تحصیل پسرور ضلع سیالکوٹ، پنجاب، پاکستان کی چار تحصیلوں میں سے ایک تحصیل ہے۔[1] اس تحصیل کا صدر مقام پسرور ہے۔ اس میں 51 یونین کونسلیں ہیں۔
یونین کونسلز
ترمیم1معراجکے، 2پنڈی بھاگو، 3سبز کوٹ، 4کنگرہ،5مسیال، 6گڈگور، 7چارواہ
تاریخ
ترمیممغل شہنشاہ ظہیر الدین محمد بابر نے تزک بابری میں پسرور کا ذکر کیا ہے۔ یہاں مغل شہنشاہ نورالدین جہانگیر کے دور میں تعمیر کیا جانے والا ایک بڑا تالاب موجود ہے۔ پسرور کو شہر کے بانی پارس رام، برہمنکی طرف سے، kullay wali بلایا گیا تھا۔ پسرور سیالکوٹ اور Kalanaur درمیان ایک روک گاہ کے طور Baburnama میں مغل بادشاہ بابر کی طرف سے ذکر اور ایک بار کافی اہمیت کے کیا گیا ہے ہے کر رہا ہے۔ اس مغل شہنشاہ جہانگیر کے دور حکومت میں تعمیر کیا ایک بڑے ٹینک، کے حامل ہیں۔ اس فیڈ کو، درہ Shikoh ایک نہر کھود، جس کے نشانات اب بھی موجودہ ہیں۔ قریبی شاہ Daula طرف سے تعمیر ایک پل کی باقیات ہیں۔ [4] راجپوت آبادی اور سابق راجپوت ریاستوں جنوبی ایشیا کے زیادہ تر کے ذریعے پھیل پائے جاتے ہیں، خاص طور پر شمالی، مغربی اور پنجاب میں مرکزی سیالکوٹ میں۔
نسلی تشکیل
ترمیمآبادی پنجابی اور پنجابی زبان بولنے والے ہیں۔ اردو بھی وسیع پیمانے پر بولی جاتی ہے۔ آبادی کی اکثریت مسلمان ہے۔ جن میں مسلمان راجپوت اور جاٹوں کی اکثریت ہے۔سب سے بڑی برادریوں میں راجپوت سلہریا قوم اور جاٹ باجوہ قوم آباد ہیں، اس کے علاؤہ راجپوتوں میں کھوکھر، گکھڑ، پھلروان، منہاس ہیں اور جاٹوں میں سندھو، ڈھڈی اہم ہیں۔ اس کے علاؤہ ترکھان، لوہار، کمھار، چمیار، دھوبے اور نائی برادری کے لوگ بھی آباد ہیں۔
1965ء اور1971ء کی پاک بھارت جنگیں
ترمیم1965 کی بھارت پاکستان جنگ کے دوران ایک بھارتی ہوائی جہاز کو پاکستانی جانبازوں نے پسرور کے ایک چھوٹے گاؤں چاند کے ہوائی اڈے پر اتارا۔ سکھ پائلٹ کو گرفتار کر لیا گیا اور اس کے طیارے کو پاک فضائیہ نے اپنی تحویل میں لے لیا۔جو آج کل پاک فضائیہ میوزیم کی زینت ہے۔ یہاں کے لوگوں نے 1965ء اور 1971ء میں پاک فوج کے ساتھ ڈٹ کر بھارتی فوج کا مقابلہ کیا اور دونوں بار دشمن بھاری ہزیمت اٹھانے کے بعد دم دبا کر بھاگا۔ بیشک اس کے بدلے میں مقامی لوگوں کا بہت سا جانی و مالی نقصان بھی ہوا اور جنگی حالات کی وجہ سے عورتوں، بچوں اور بزرگوں کی عزت و جان کی حفاظت کے لیے بہت تگ و دو کرنی پڑی لوگ آج بھی اپنے آباؤاجداد کی بستیوں میں ڈٹ کر جی رہے ہیں اور منافق دشمن کے کسی بھی وار کا جواب دینے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔
اقوام
ترمیمپسرور کی اہم اقوام میں جٹ قبائل اور راجپوت اکثریت میں ہیں۔ راجپوتوں میں سلہریا راجپوت، گکھڑ، کھوکھر، جوئیہ، منہاس و دیگر ہیں۔ جاٹ قوم میں سندھو، ڈھڈی، باجوہ، جندراں وغیرہ آباد ہیں۔ اس کے علاؤہ کمی کمین قومیں بھی جیسے ترکھان، لوہار، کمھار، زرگر، نائی اور چمیار بھی ایک بڑی تعداد میں آباد ہیں۔
اہم شخصیات
ترمیمیہ علاقہ بہت سی اہم شخصیات کا مسکن بھی رہا ہے جنمیں امیر ملت پیر جماعت شاہ المعروف لاثانی سرکار اہم ہیں جنھوں نے جدوجہد پاکستان میں قائد اعظم کے ساتھ ملکر بہت محنت کی، اس کے علاؤہ مشہور سیاست دان زاہد حامد خان، چوہدری غلام عباس، رانا لیاقت علی، چوہدری مقصود احمد سلہریا، ڈاکٹر تنویر اسلام کا تعلق بھی اسی تحصیل سے ہے۔ یہاں کے سرحدی گاؤں چارواہ کے کے پاس ایک بزرگ کا مزار ہے جسے بابا چنبلیال کہا جاتا ہے، ان کے بارے میں مشہور ہے کہ انھوں نے کفار کے ساتھ جنگ میں حصہ لیا اور شہادت کا رتبہ پایا۔ بابا جی اصل مزار بھارتی حدود میں ہے مگر ہر سال یہاں بارڈر کے دونوں طرف عقیدت مندوں کی ایک بڑی اکثریت آتی ہے اور اپنی مرادیں پوری ہونے کی دعا مانگتے ہیں۔ یہاں کے بارے یہ بھی مشہور ہے کہ کوئی بھی جلد کی بیماری یہاں کی مٹی کے جسم پر لگانے سے ٹھیک ہو جاتی ہے۔
اہم گذرگاہیں
ترمیمیہ علاقہ اپنے دفاعی اور جغرافیائی لحاظ سے ہمیشہ اہمیت کا حامل رہا ہے۔ تقسیم ہند سے پہلے جموں و کشمیر کو جانے والے راستوں میں سے بیشتر یہاں سے ہی گزرتے تھے، چونکہ یہاں سے لاہور اور جموں کا سفر قریباً یکساں ہیں اس لیے دونوں اطراف سے آنے والے مسافر اس علاقے میں رکنا مناسب سمجھتے تھے۔ یہاں ایک سرحدی قصبہ چوبارہ ایک وقت میں سوداگروں کے لیے ایک تجارتی منڈی کی حیثیت رکھتا تھا۔ تقسیم کے بعد جغرافیائی حدود بدلنے سے تحصیل پسرور کی اہمیت بالکل ختم ہو گئی ہے اور یہی وجہ ہے اب یہاں حکومتیں بھی زیادہ توجہ نہیں دیتی۔ باوجود اس کے یہاں سے لاہور، نارووال، شکرگڑھ، ظفروال، گوجرانولہ اور سیالکوٹ کو جانے والے راستے یہاں سے ہو کر ہی گزرتے ہیں۔ اس لیے مرکز میں ہونے کی وجہ سے آج بھی اس علاقے کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ یہاں کی مشہور شاہراہوں میں ظفروال تا سیالکوٹ روڈ براستہ کنگرہ موڑ سبزپیر، ناروال تا سیالکوٹ روڈ اور لاہور روڈ اہم ہیں۔ اس کے علاوہ چھوٹی موٹی سڑکوں کا ایک وسیع جال پھیلا ہوا ہے، جدید لاہور-سیالکوٹ-راولپنڈی موٹروے بھی تحصیل پسرور سے ہو کر گذر رہی ہے۔
اہم فصلیں
ترمیمیہاں کا زیادہ تر زمین ہموار اور زرخیزی سے مالا مال ہے جس کی وجہ یہاں سے نالہ ڈیک اور سرکاری نہر کے گزرنے کے ساتھ ساتھ سال بھر بارش کی بڑی مقدار ہے۔ نالہ ڈیک اور رابطہ نہریں یہاں ہر سال پہاڑوں سے آئے پانی کے ذریعے معدنیات سے بھرپور مٹی کی تہ بچھاتی ہیں جو یہاں کے رقبے کو اور بھی زرخیز کرتی ہیں۔ تحصیل پسرور سب سے اہم اور مشہور فصل باسمتی چاول ہے جس کا دنیا بھر میں کوئی ثانی نہیں۔ اس کے علاؤہ گندم، گنا، دالیں ہر طرح کی سبزیوں کے لیے یہاں کا موسم اور زمین نہائت سازگار ہیں۔ اگر حکومت اس علاقے پر توجہ دے اور مقامی کاشتکاروں کو روایتی کاشتکاری سے ہٹ کر جدید بیج اور زرعی اوزار فراہم کیے جائیں تو ناصرف تحصیل پسرور خوراک میں خودکفیل ہو گی بلکہ پاکستان کی خوراک کی ضروریات میں بھی اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ باوجود اس کے کہ یہاں کے گنے میں بہت زیادہ مٹھاس ہوتی ہے، یہاں صرف ایک شوگر مل ہے جو سالہا سال بند رہنے کے بعد اب کھلی ہے مگر ابھی بھی وہاں کاشتکاروں وہ فوائد نہیں مل رہے جو ملنے چاہیے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس معاملے کی طرف بھی توجہ دے تاکہ اس زرخیز خطے سے بڑے پیمانے پر گنے کی پیداث حاصل کرکے چینی کی ملکی ضروریات کو پورا کیا جاسکے۔ اس کے علاؤہ یہاں بہت سے پھلدار درختوں کی افزائش بھی نہائت آسان اور منافع بخش ہے۔ خاص طور پر امرود، جامن، شہتوت، مالٹا، بیر، اسٹرابیری اور الیچی کے باغات یہاں ناصرف عرصہ دراز سے پھل پھول رہے ہیں بلکہ ان کی بہت اقسام نہائت معیاری اور لذیذ ہیں۔ اگر ان پر توجہ دی جائے تو یہاں کے سازگار ماحول سے فایدہ اٹھاتے ہوئے ان پھلوں کو ناصرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی برآمد کیا جا سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس علاقے کی طرف توجہ دی جائے۔
ضلع سیالکوٹ کی دیگر تحصیلیں
ترمیممزید دیکھیے
ترمیمبیرونی روابط
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ "ضلع سیالکوٹ کی تحصیلیں اور یونین کونسلیں" (بزبان انگریزی)۔ حکومت پاکستان