تراویح
رمضان کے مہینے میں عشاء کی نماز کے بعد اور وتروں،سے پہلے باجماعت ادا کی جاتی ہے۔ جو بیس/ رکعت پر مشتمل ہوتی ہے اور دو دو رکعت کرکے پڑھی جاتی ہے۔ ہر چار رکعت کے بعد وقف ہوتا ہے۔ جس میں تسبیح و تحلیل ہوتی ہے اور اسی کی وجہ سے اس کا نام تروایح ہوا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان شریف میں رات کی عبادت کو بڑی فضیلت دی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلی تروایح کے باجماعت اور اول رات میں پڑھنے کا حکم دیا اور اُس وقت سے اب تک یہ اسی طرح پڑھی جاتی ہے۔ اس نماز کی امامت بالعموم حافظ قرآن کرتے ہیں اور رمضان کے پورے مہینے میں ایک بار سنت ہے اور زیادہ مرتبہ قرآن شریف پورا ختم کیا جا سکتا ہے حنفی ، شافعی ، مالکی اور حنبلی حضرات بیس رکعت پڑھتے ہیں اور اہل حدیث/سلفی آٹھ رکعت، تروایح کے بعد 3وتر بھی باجماعت پڑھے جاتے ہیں۔یعنی 11رکعات پڑہتے ہیں
نماز تراویح | |
---|---|
جامع مسجد قیروان میں نماز تراویح ادا کی جارہی ہے۔ | |
باضابطہ نام | صلاة التراويح |
عرفیت | رمضان کی رات کی نماز |
منانے والے | مسلمان |
قسم | اسلامی |
اہمیت | مسلمان ہر سال رمضان المبارک کے مہینے میں اللہ کے لیے نماز تراویح ادا کرتے ہیں۔ |
رسومات | سنت نمازیں |
آغاز | نماز عشاء |
اختتام | صبح صادق |
تکرار | سالانہ |
منسلک | نماز، نفل نماز، ارکان اسلام |
تراویح کے معنی
ترمیمبخاری شریف کی مشہور و معروف شرح لکھنے والے حافظ ابن حجر عسقلانی نے تحریر کیا ہے کہ تراویح، ترویحہ کی جمع ہے اور ترویحہ کے معنی: ایک دفعہ آرام کرنا ہے، جیسے تسلیمہ کے معنی ایک دفعہ سلام پھیرنا۔ رمضان المبارک کی راتوں میں نمازِ عشاء کے بعد باجماعت نماز کو تراویح کہا جاتا ہے، کیونکہ صحابہٴ کرام کا اتفاق اس امر پر ہو گیا کہ ہر دوسلاموں (یعنی چار رکعت ) کے بعد کچھ دیر آرام فرماتے تھے ۔[1][2]
اکابرین امت کے اقوال
ترمیمامام ابو حنیفہ
ترمیمامام فخر الدین قاضی خان لکھتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ رمضان میں ہر رات بیس یعنی پانچ ترویحہ وتر کے علاوہ پڑھنا سنت ہے۔ ([3] علامہ علاء الدین کاسانی حنفی لکھتے ہیں کہ جمہور علما کا صحیح قول یہ ہے کہ عمر فاروق نے حضرت ابی بن کعب کی امامت میں صحابہٴ کرام کو تراویح پڑھانے پر جمع فرمایا تو انھوں نے بیس رکعت تراویح پڑھائی اور صحابہ کی طرف سے اجماع تھا۔[4]
امام مالک
ترمیمامام مالک کے مشہور قول کے مطابق تراویح کی 36 رکعت ہیں؛جبکہ ان کے ایک قول کے مطابق بیس رکعت سنت ہیں۔ علامہ ابن رشدقرطبی مالکی فرماتے ہیں کہ امام مالک نے ایک قول میں بیس رکعت تراویح کو پسند فرمایا ہے۔[5] مسجد حرام میں تراویح کی ہر چار رکعت کے بعد ترویحہ کے طور پر مکہ کے لوگ ایک طواف کر لیا کرتے تھے، جس پر مدینہ منورہ والوں نے ہر ترویحہ پر چار چار رکعت نفل پڑھنی شروع کر دیں تو اس طرح امام مالک کی ایک رائے میں 36رکعت (20 رکعت تراویح اور 16 رکعت نفل) ہوگئیں۔
امام شافعی
ترمیمامام شافعی فرماتے ہیں کہ مجھے بیس رکعت تراویح پسند ہیں، مکہ مکرمہ میں بیس رکعت ہی پڑھتے ہیں۔[6] ایک دوسرے مقام پر امام شافعی فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شہر مکہ مکرمہ میں لوگوں کو بیس رکعت نماز تراویح پڑھتے پایا ہے۔[7]علامہ نووی شافعی لکھتے ہیں کہ تراویح کی رکعت کے متعلق ہمارا (شوافع) مسلک وتر کے علاوہ دس سلاموں کے ساتھ بیس رکعت کا ہے اور بیس رکعت پانچ ترویحہ ہیں اور ایک ترویحہ چار رکعت کا دوسلاموں کے ساتھ، یہی امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب اور امام احمد بن حنبل اور امام داوٴد ظاہری کا مسلک ہے اور قاضی عیاض نے بیس رکعت تراویح کو جمہور علما سے نقل کیا ہے۔[8]
امام احمد بن حنبل
ترمیمفقہ حنبلی کے ممتاز ترجمان علامہ ابن قدامہ لکھتے ہیں : امام ابو عبد اللہ (احمد بن حنبل) کا پسندیدہ قول بیس رکعت کا ہے اور سفیان ثوری بھی یہی کہتے ہیں اور ان کی دلیل یہ ہے کہ جب عمر فاروق نے صحابہٴ کرام کو ابی بن کعب کی اقتداء میں جمع کیا تو وہ بیس رکعت پڑھتے تھے، نیز امام احمد ابن حنبل کا استدلال یزید وعلی کی روایات سے ہے۔ ابن قدامہ کہتے ہیں کہ یہ بمنزلہ اجماع کے ہے۔ نیز فرماتے ہیں جس چیز پر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ عمل پیرا رہے ہوں، وہی اتباع کے لائق ہے۔[9]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ فتح الباری شرح صحیح البخاری، کتاب صلاة التراویح
- ↑ "معنى اسم صلاة تراويح"۔ 3rabica.org۔ أرابيكا۔ 20 مارچ 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 مارچ 2023
- ↑ فتاوی قاضی خان ج1ص112
- ↑ بدائع الصنائع
- ↑ بدایہ المجتہد ج1 ص 214
- ↑ قیام اللیل ص 159
- ↑ ترمذی ج 1 ص 166
- ↑ المجموع
- ↑ المغنی لابن قدامہ ج2 ص139، صلاة التراویح