تصلیب مسیح سے مراد پہلی صدی عیسوی میں پیش آنے والا واقعہ جس میں مسیحی عقیدے کے مطابق یسوع مسیح کو صلیب پر چڑھا کر قتل کیا گیا۔ اس واقعے پر اسلام سمیت دیگر ابراہیمی مذاہب اپنا اپنا موقف رکھتے ہیں۔

مختلف مذاہب کے عقائد

صلیب کا واقعہ مذاہب عالم میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔ تینوں ابراھیمی مذاہب کا اس کے بارہ میں موقف مختلف ہے۔ رومیوں میں اس زمانہ میں باغیوں کو صلیب پر کھینچنا مروجہ سزا تھی۔ چنانچہ یہود نے رومی گورنر کے سامنے مسیح کے باغی ہونے کا ہی الزام لگایا تھا۔

مسیحی عقیدہ

مسیحی عقیدہ کے مطابق مسیح کو، جنہیں یسوع کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، یہود کے اصرار پر رومی حکمرانوں نے صلیب پر کھینچوا کر قتل کر دیا تھا۔ رومی گورنر پیلاطوس کے سامنے جب مسیح کو بطور باغی پیش کیا گیا تو اس نے ہر ممکن کوشش کی کہ مسیح کو کسی طور چھوڑ دیا جائے۔ لیکن یہود ان کو قرار واقعی سزا دلوانے پر مصر رہے۔ آخر پیلاطوس نے یہود کے اصرار پر مسیح کو صلیب پر سزائے موت دینے کے احکامات صادر کر دیے۔

جمعہ کے روز دن چڑھ آنے پر مسیح کو پہلے کوڑوں کی سزا دی گئی اور پھر مروجہ طریق کے مطابق انھیں اپنی صلیب خود ہی اٹھا کر شہر کی فصیل سے باہر مقرر مقام تک لے جانا پڑی۔[1] اس راستہ کو دکھوں کا راستہ کہا جاتا ہے اور بعض مسیحی حضرت مسیح کی یاد میں آج بھی اس راستہ پر صلیب اٹھا کر چلتے ہیں۔ گولگوتھا کے مقام پر پہنچ کر صبح تیسرے پہر (قریباً 9 بجے) مسیح کو صلیب پر چڑھا دیا گیا۔[2] اس کے لیے ان کے دونوں ہاتھوں کی کلائیوں میں لوہے کے کیل ٹھونکے گئے جس کے بعد ان کے دونوں پائوں بھی ایک ہی کیل کے ذریعہ صلیب سے ٹھونک دیے گئے۔ مصلوب کو اس طرح کئی کئی دن صلیب پر لٹکنا پڑتا تھا اور رفتہ رفتہ کمزوری اور خون بہنے کے باعث سسکتے رہتے تھے۔ مسیح کے ساتھ دو ڈاکو بھی صلیب دیے گئے۔[3]

یہودی عقیدہ کی روشنی میں یہ ضروری تھا کہ سبت کے شروع ہونے سے پہلے پہلے مصلوب شخص کو صلیب سے اتار لیا جائے۔[4] ادھر چھٹے پہر سورج گرہن یا آندھی کی وجہ سے اندھیرا چھا گیا۔[5] ایسی صورت میں صلیبی موت کے عمل کو تیز کرنے کے لیے مصلوببین کی ٹانگوں کی ہڈیاں توڑ دی جاتی تھیں تاکہ وہ اپنا وزن نہ اٹھا سکیں اور اس طرح سارا وزن کلائیوں پر پڑنے کی باعث جلد ہی موت واقع ہو جائے۔ چنانچہ اناجیل کے بیان کے مطابق اس روز بھی سبت کے شروع ہونے کے خوف سے مسیح اور ان کے ساتھ مصلیب دیے گئے دونوں مجرموں کی ٹانگیں توڑنے کا فیصلہ ہوا۔[6] لیکن اس کام پر مامور رومی سپاہی نے باقی دونوں مجرموں کی تو ٹانگیں توڑ دیں جبکہ مسیح کی ٹانگیں نہ توڑیں۔ اس قت وہ دونوں ڈاکو زندہ تھے۔ نویں پہر (قریباً 3 بجے بعد دوپہر) ۔[7] مسیح نے صلیب پر دعا کی کہ خدا کی مرضی پوری ہو اور جان جان آفریں کے سپرد کر دی۔ اسی لیے جب رومی سپاہی نے ان کی پسلی میں نیزہ بھونکا تو انھوں نے کوئی رد عمل نہ دکھایا[8]

 
مسیح صلیب پر، بلوخ کی تصویرکشی

ازاں بعد آرمتیہ کے یوسف نے پیلاطوس سے مسیح کی لاش حاصل کر لی۔[9] مسیح کو ان کے ساتھیوں نے ایک کمرہ نما قبر میں رکھا۔[10] جہاں وہ اتوار کو دوبارہ زندہ ہو گئے۔[11] چنانچہ اس کے بعد ایک عرصہ تک وہ مختلف جگہوں پر اپنے حواریوں کو نظر آتے رہے یہاں تک کہ آخر کار آسمان پر اٹھا لیے گئے[12] اور اس وقت خدا کے پاس موجود ہیں۔

مسیح کی صلیب پر موت یہودی شریعت کے مطابق ایک لعنتی موت تھی۔ مسیحی عقیدہ کے مطابق بھی اس بات کو تسلیم کیا جاتا ہے۔[13] البتہ مسیحی عقیدہ میں مسیح کی صلیب پر لعنتی موت بنی نوع انسان کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے ضروری تھی۔ اس طرح گویا مسیح نے خود سخت تکلیف اٹھا کر اور موت کا جام پی کر تمام انسانوں کے گناہوں کا کفارہ ادا کیا۔ ان کا یہ اقدام خدا تعالیٰ کی انسانوں سے بے پایاں محبت کا مظہر ہے کہ اس نے اپنے بیٹے کو انسانوں کی خاطر قربان کر دیا۔ چنانچہ مسیحیت کی مذہبی بنیاد میں مسیح کا ابن اللہ ہونا، ان کی صلیب پر موت اور پھر مردوں میں سے دوبارہ جی اٹھنے کی کلیدی حیثیت ہے۔

یہودیوں کا عقیدہ

یہود بنیادی طور پر مسیحیوں کے ساتھ تصلیب مسیح کے متعلق متفق ہیں۔ ان کے نزدیک بھی مسیح کو صلیب پر کھینچا گیا اور وہ صلیب پر ہی فوت ہو گئے۔ چونکہ یہودی شریعت کے مطابق "لکڑی" پر مرنے والا لعنتی ہوتا ہے۔،[14] اس لیے مسیح کی صلیبی موت ایک لعنتی موت تھی۔ چنانچہ مسیح کا مقدس ہونا کسی بھی صورت ممکن نہیں۔ اناجیل میں بیان کردہ تفاصیل کے مطابق یہود کے نزدیک مسیح نے توہین الٰہی کی تھی۔ اس کی سزا یہود کے علما کے نزدیک موت تھی۔ چنانچہ یہودی عدالت میں پہلے مسیح کو اس جرم میں مجرم ثابت کیا گیا [15] اس کے بعد رومی گورنر کی عدالت میں مقدمہ پیش ہوا۔ اس مقدمہ میں مدعی یہود ہی تھے لیکن انھوں نے وہاں مسیح پر حکومت وقت سے بغاوت کا الزام لگایا۔

 
یسوع مسیح کوڑے مار کر منی چینجروں کو عبادت گاہ سے باہر نکال رہے ہیں۔ اس کے چند دنوں بعد انھیں صلیب پر سزائے موت دی گئی۔[16]

مسلمانوں کا عقیدہ

مسلمانوں میں مسیح ایک نبی اور خدا کے برگزیدہ بندے مانے جاتے ہیں۔ اس طرح ان کے کسی بھی طرح لعنتی ہونے یا صلیب پر مارے جانے کا عقیدہ اسلام میں موجود نہیں۔ اس کے برعکس قرآن میں واقعہ صلیب کے متعلق لکھا ہے کہ یہودی مسیح کو نہ تو صلیب دے سکے اور نہ ہی کسی اور طریق پر قتل کر سکے۔[17] چنانچہ تمام مسلمان اس امر پر متفق ہیں کہ مسیح صلیب پر یا قتل کے ذریعہ مارے نہیں گئے۔ البتہ صلیب پر چڑھائے جانے کے متعلق دو طرح کے خیالات پائے جاتے ہیں۔ اکثر علما کا خیال ہے کہ مسیح کی جگہ کسی اور شخص کو صلیب دی گئی تھی اور مسیح سرے سے صلیب پر کھینچے ہی نہیں گئے۔

مزید دیکھیے

بیرونی ربط

حوالہ حات

  1. مرقس کی انجیل، باب 15، آیت 21
  2. مرقس کی انجیل باب 15، آیت 25
  3. مرقس کی انجیل، باب 15، آیت 27۔28
  4. استثناء باب 21 آیت 22۔23
  5. مرقس کی انجیل باب 15، آیت 33
  6. یوحنا کی انجیل باب 19 آیت 31 تا 37
  7. مرقس کی انجیل اباب 15
  8. یوحنا کی انجیل، باب 19 آیت 31 تا 37
  9. مرقس کی انجیل باب 5، آیت 42۔43
  10. مرقس کی انجیل باب 15، آیت 46
  11. 1 کرنتھیوں باب 15 آیت 4
  12. مرقس کی انجیل باب 16، آیت 1
  13. گلیتیوں، باب 3 آیت 13
  14. استثناء باب 21 آیت 21۔22
  15. مرقس کی انجیل باب 14، آیت 63۔64
  16. Cleansing of the Temple
  17. النساء 157