تہذیب نسواں (اخبار)
ہفت روزہ تہذیب نسواں ہفت روزہ اخبار تھا جسے شمس العلماء مولوی سید ممتاز علی نے 1898ء کو لاہور سے جاری کیا تھا۔ جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے یہ اخبار خواتین کے لیے جاری گیا تھا۔ اس اخبار کی اولین مدیرہ ان کی اہلیہ محمدی بیگم تھیں۔
ہفت روزہ تہذیب نسواں لاہور شمارہ 9 نومبر 1918ء | |
قسم | ہفت روزہ |
---|---|
بانی | مولوی سید ممتاز علی |
ناشر | دار الاشاعت پنجاب، لاہور |
مدیر | محمدی بیگم وحیدہ بیگم آصف جہاں امتیاز علی تاج حجاب امتیاز علی |
آغاز | یکم جولائی 1898ء |
زبان | اردو |
صدر دفتر | لاہور، برطانوی ہند |
تہذیب نسواں کا پہلا شمارہ یکم جولائی 1898ء کو منظر عام پر آیا۔[1][2]یہ ایک ہفت روزہ اخبار تھا۔ اس اخبار کا نام تہذیب الاخلاق سے مشابہ سر سید احمد خان نے تجویز کیا تھا۔ یہ دار الاشاعت پنجاب، لاہور چھپتا تھا۔ اس اخبار کی ادارت مولوی سید ممتاز علی کی اہلیہ محمدی بیگم کے سپرد تھی۔1908ء میں ان کی اہلیہ کے انتقال کے بعد مولوی ممتاز کی صاحبزادی وحیدہ بیگم نے اس اخبار کی ادارت سنبھالی۔ وحیدہ بیگم 1917ء میں اللہ کو پیاری ہوگئیں تو کچھ عرصے کے لیے مولوی ممتاز کی بڑی بہو آصف جہاں اس کی مدیرہ رہیں۔ اس کے بعد مولوی ممتاز کے صاحبزادے اور اردو کے نامور ادیب امتیاز علی تاج نے اس کی ادارت کے فرائض انجام دیے۔ انھیں دیگر علم دوست خواتین کے ساتھ اپنی اہلیہ ممتاز مصنفہ حجاب امتیاز علی کا تعاون بھی حاصل رہا۔ امتیاز علی تاج اس اخبار کے آخری مدیر تھے۔ اس اخبار کے صفحات شروع میں آٹھ اور پھر بارہ ہوئے، اس کے بعد سولہ اور آخر میں چوبیس ہو گئے۔[3] سالانہ چندہ تین روپے چار آنے تھا۔ یہ دو کالمی اخبار تھا۔ مضامین مختصر ہوتے تھے۔ تہذیب نسواں کے اپنے اجرا کے بعد بہت جلد ہندوستان کے متوسط طبقے کے اردو داں مسلم گھرانوں میں پہنچنے لگا اور اس کی وجہ سے معمولی تعلیم یافتہ پردہ نشین خواتین میں تصنیف و تالیف کا شوق پیدا ہوا۔ تہذیب نسواں میں تعلیم کے علاوہ اس وقت کے بدلتے ہوئے سماج میں عورتوں کے تمام موضوعات کو نہ صرف اپنے صفحات میں جگہ دی بلکہ اس پر بحث بھی کرائی، جس سے عورتوں کے جوہر کھل کر سامنے آنے لگے۔ تہذیب نسواں نے علمی و ادبی ذوق و شوق کو بڑھاوا دینے کے ساتھ ساتھ خواتین کے سماجی اور سیاسی شعور کوبیدا رکرنے میں اہم کردار ادا کیا۔[4]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ ڈاکٹر مسکین علی حجازی، پنجاب میں اردو صحافت، مغربی پاکستان اردو اکیڈمی لاہور، مئی 1995ء، ص 176
- ↑ ڈاکٹر جمیل اختر، اردو صحافت اور صحافتِ نسواں، بشمولہ: اردو صحافت کے دو سو سال (حصہ دوم)، مرتب ارتضیٰ کریم، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی، 2017ء، ص 595
- ↑ ممتاز گوہر، منتخباتِ تہذیب نسواں، مغربی پاکستان اردو اکیڈمی لاہور، ستمبر 1988ء، ص 7
- ↑ اردو صحافت کے دو سو سال (حصہ دوم)، 2017ء، ص 599