محمدی بیگم

اردو زبان کی مصنفہ، خواتین کے اخبار تہذیب نسواں کی مدیرہ

محمدی بیگم (یا سیدہ محمدی بیگم ) ایک مسلمان مصنفہ اور صحافی اور تعلیم نسواں کی مایہ ناز حامیوں میں سے تھی۔ انھوں نے رسالہ تہذیب نسواں شروع کیا اور اس کی اولین مدیرہ بنیں۔بطور خاتون، انھیں کسی اردو رسالے کی ادارت کا اولین شرف حاصل ہے۔ وہ سید ممتاز علی کی اہلیہ تھیں۔ ان کی معروف تصانیف میں آدابِ ملاقات، صفیہ بیگم، شریف بیٹی اور رفیقِ عروس وغیرہ شامل ہیں۔

سیدہ

محمدی بیگم
ذاتی
پیدائش22 مئی 1878
وفات2 نومبر 1908(1908-11-02) (عمر  30 سال)
مذہباسلام
شریک حیاتسید ممتاز علی
اولادامتیاز علی تاج (بیٹا)
قابل ذکر کامتہذیب نسواں

حالات زندگی

ترمیم

محمدی بیگم 22 مئی 1878 کو شاہ پور، سرگودھا میں پیدا ہوئی۔[1]انھوں نے قرآن حفظ کیا اور اپنے بھائیوں سے اردو زبان سیکھی۔[2] انھوں نے اپنی بہن کی 1886 میں شادی کے بعد ان سے خط کتابت جاری رکھنے کے لیے خط لکھنا سیکھے۔[2]

1897 میں محمدی بیگم نے سید ممتاز علی سے عقد کیا، جو ایک عالم اور دار العلوم دیوبند کے فاضل تھے۔[3][4] محمدی بیگم کی تعلیم کے لیے کئی ٹیوٹر رکھے گئے۔ ایک استانی ان کو انگریزی سکھاتی تھی اور ایک ہندو خاتون انھیں ہندی پڑھاتی تھی۔[5] ایک لڑکا انھیں حساب سکھاتا تھا اور خود ان کے شوہر سید ممتاز علی انھیں ایک روز عربی اور ایک روز فارسی پڑھاتے تھے۔[5] یوں وہ عورتوں کے اخبار کی ادارت کے قابل ہوگئیں۔[5] 1 جولائی 1898 کو دونوں میاں بیوی نے ہفتہ وار زنانہ رسالہ تہذیب نسواں جاری کیا۔ یہ رسالہ اسلام میں حقوق نسواں کی رو سے ایک شاہکار سمجھا جاتا ہے۔[6] محمدی بیگم تاوفات اس رسالے کی مدیرہ رہیں۔[7]مبینہ طور پر محمدی بیگم پہلی خاتون تصور کی جاتی ہیں جس نے کسی اردو رسالے کی ادارت کے فرائض انجام دیے ہوں۔[4]

محمدی بیگم نے صرف ماؤں کے لیے ایک ماہوار رسالہ مشیرِ مادرکے نام سے 1904 میں نکالا، جس میں ماؤں کے لیے نہایت مفید ہدایات اور مضامین چھپتے تھے۔[5] یہ رسالہ زیادہ عرصہ تک جاری نہ رہ سکا۔ اس لیے کہ محمدی بیگم کو تہذیب نسواں کی وجہ سے مہلت ہی نہیں ملتی تھی، تاہم بچوں کی نگہداشت اور تعلیم و تربیت کے سلسلے میں وہ جو مشورے اور ہدایات مشیر مادر میں دیتی تھی، اس کا سلسلہ انھوں نے تہذیب نسواںمیں شروع کر دیا۔[5]

محمدی بیگم نے 1907 میں "انجمن خاتونانِ ہمدرد" کی بنیاد رکھی، تاکہ عورتوں کو آمادہ عمل کیا جا سکے۔ [5]اس انجمن کے تحت ایک "دار النسواں" بھی تھا جس میں غریب اور نادار خواتین کی ہر ممکن امداد کی جاتی تھی اور انھیں مختلف دستکاریاں سکھا کر روزی کمانے کے قابل بنایا جاتا تھا۔[5] کچھ دنوں بعد انھوں نے "انجمن تہذیب نسواں" قائم کی جس کی وہ صدر مقرر ہوئیں۔ [5]انھی کی کوششوں کے نتیجے میں ہندوستان میں خواتین کانفرنس منعقد ہوئی[کب؟] جس میں ملک بھر کی ممتاز خواتین نے شرکت کی۔[5]

محمدی بیگم کا 30 سال کی عمر میں شملہ میں 2 نومبر 1908 میں انتقال ہوا۔[4]

تصانیف

ترمیم

محمدی بیگم کی کچھ نمایاں تصانیف درج ذیل ہیں:[1]

  • آدابِ ملاقات
  • صفیہ بیگم
  • شریف بیٹی
  • آج کل
  • چندن ہار
  • خانہ داری
  • سگھڑ بیٹی
  • رفیقِ عروس

آثار و نقوش

ترمیم

محمدی بیگم کے پوتے نعیم طاہر نے سیدہ محمدی بیگم اور ان کا خاندان کتاب لکھی ہے۔[8]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب ثروت علی (10 مئی 2020)۔ "Stuff legends are made of"۔ دی نیوز۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 فروری 2021 
  2. ^ ا ب سمت سرکار، تانکا سرکار (2008)۔ Women and Social Reform in Modern India: A Reader [جدید بھارت میں خواتین اور سماجی اصلاح: ایک مطالعہ]۔ صفحہ: 363۔ ISBN 9780253352699۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اگست 2020 
  3. نایاب حسن قاسمی۔ "مولانا سید ممتاز علی دیوبندی"۔ دار العلوم دیوبند کا صحافتی منظر نامہ۔ دیوبند: ادارہ تحقیق اسلامی۔ صفحہ: 147–151 
  4. ^ ا ب پ رئوف پاریکھ (2 نومبر 2015)۔ "Muhammadi Begum and Tehzeeb-e-Niswan" [محمدی بیگم اور تہذیب نسواں]۔ ڈان۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 اگست 2020 
  5. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح مولوی محبوب عالم۔ اردو صحافت کی ایک نادر تاریخ (1992 ایڈیشن)۔ لاہور: مغربی پاکستان اردو اکیڈمی۔ صفحہ: 162–164 
  6. Mansoor Moaddel (1998)۔ "Religion and Women: Islamic Modernism versus Fundamentalism"۔ Journal for the Scientific Study of Religion۔ 37 (1): 116۔ JSTOR 1388032۔ doi:10.2307/1388032 
  7. طاہر کامران (8 July 2018)۔ "Re-imagining of Muslim Women - II"۔ thenews.com.pk۔ دی نیوز۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 فروری 2021 
  8. آصف فرخی (16 ستمبر 2018)۔ "A PIONEERING WOMAN OF LETTERS"۔ ڈان۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 فروری 2021