تیارت
تاہرت الجزائر کا ایک شہر و الجزائر کی بلدیات جو صوبہ تیارت میں واقع ہے۔[1] یہ شمال مغربی الجزائر کا ایک بڑا شہر ہے جو کاشت کاری کے حوالے سے صوبہ تاہرت کا زرخیز ترین علاقہ ہے۔ شہر اور خطہ دونوں الجزائر کے دار الحکومت الجزائر کے جنوب مغرب میں واقع پہاڑی سلسلہ الهضاب العليا کے تل الاطلس میں اور بحیرہ روم کے ساحل سے ۱۵۰ کلومیٹر (۹۳ میل) دُوری پر واقع ہے۔ شہر میں عبد الحفيظ بوصوف ائیرپورٹ واقع ہے جہاں سے عالمی مسافروں کی آمد و رفت جاری رہتی ہے۔
شہر | |
سرکاری نام | |
ملک | الجزائر |
صوبہ | صوبہ تیارت |
ضلع | Tieret District |
قیام | 778 |
رقبہ | |
• کل | 111.45 کلومیٹر2 (43.03 میل مربع) |
بلندی | 978 میل (3,209 فٹ) |
آبادی (2008 census) | |
• کل | 178,915 |
منطقۂ وقت | وقت (UTC+1) |
رمز ڈاک | 14000 |
وجہ تسمیہ
ترمیمبربری زبان میں اس شہر کے نام کا معنی شیرنی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ خطہ ماضی بعید میں بربری شیروں کا مسکن رہا ہو گا۔ مغربی مقامات کے نام جیسے وہران اور سوق اہراس جن کے معانی بالترتیب شیر اور شیروں کی منڈی کے ہیں، کے ناموں کے ماخذ تقریباً ایک ہی ہیں۔
آبادی
ترمیم۲۰۰۸ء کی مردم شماری کے مطابق شہر کی آبادی ایک لاکھ ۷۸ ہزار ۹ سو ۱۵ نفوس پر مبنی ہے۔ کل رقبہ ۱۱۵ء۴۵ مربع کلومیٹر ہے اور سطح زمین سے اس کی بلندی ۹۷۸ میٹر ہے۔
تاریخ
ترمیمیہ صوبہ زمانہ قدیم سے آباد ہے اور یہاں زمانہ قدیم کی متعدد یادگاریں موجود ہیں۔ یہ خطہ رومی دور میں ٹنگارشیا کے نام سے رومیوں کا مضبوط گڑھ اور قلعہ تھا۔ تاہرت کے نزدیک پہاڑی ٹیلے بھی کافی تعداد میں موجود ہیں جو دراصل زمانہ قدیم کے مقابر ہیں اور جنھیں مقامی عربی زبان میں جدار کہا جاتا ہے۔ پرانی عمارات کے جائزہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس خطے کے ابتدائی آباد کار سنگ تراشی کے فن کا ماہر بربر قبائل تھے۔
بربروں کی مقامی قبائلی ریاستوں کے ظہور کے ساتھ تاہرت کی سیاسی و معاشی ترقی کا آغاز ہوا۔ ان میں سے پہلی ریاست دولت رستمیہ تھی جس کے زمانہ حکومت میں تاہرت کا مقام دار الحکومت کا تھا۔ تاہم بنو رستم کا یہ دار الحکومت موجودہ تاہرت سے دس کلومیٹر (۶ یا ۷ میل) مغربی جانب واقع تھا۔ شہر کی بنیاد ایرانِ عظمیٰ سے تعلق رکھنے والا اور اباضیہ فرقہ کا پیروکار، عبد الرحمان بن رستم جو دولت رستمیہ کا بانی تھا، نے ۷۷۸ء میں رکھی تھی۔ شہر کا مزاج نسبتاً آزاد اور جمہوری تھا اور دولت رستمیہ کے ماتحت یہ علم و فن کا مرکز بن گیا جس نے دیگر فرقوں اور تحاریک خصوصاً معتزلہ کو پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا۔ تاہرت میں مذہبی آزادی اور رواداری کا یہ عالم تھا کہ یہاں پر یہودی بھی مکمل آزادی کے ساتھ رہا کرتے تھے چناں چہ دسویں صدی عیسوی میں ایک یہودی عالم اور طبیب یہودا بن قریش بھی تاہرت کا باشندہ تھا جسے امیر فاس کے دربار میں شاہی طبیب کا عہدہ حاصل ہوا تھا۔ ۹۰۹ء میں ابو عبد اللہ الشیعی کی قیادت میں فاطمیوں نے دولت رستمیہ کا چراغ گل کر کے تاہرت کا قبضہ پا لیا۔
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم
|
|