جائزہ لسانیات ہند (انگریزی: Linguistic Survey of India) برطانوی راج کے تحت ہندوستان کا ایک بڑا سروے پروجیکٹ تھا۔ اس کے تحت ، 1894 سے 1928 تک ہندوستانی سول سروس کے افسر جارج ابراہام گیریسن کی ہدایت پر کام کیا گیا۔ اس میں کل 364 ہندوستانی زبانوں اور بولیوں کا تفصیلی سروے کیا گیا۔جارج ابراہام گیریسن نے ستمبر 1896 میں ویانا میں منعقد ہونے والی ساتویں عالمی اورینٹل کانگرس میں شرکت کی۔ اس کے بعد انھوں نے زبانوں کے جائزے کی تجویز پیش کی۔ حکومت ہند نے پہلے پہل اُن کی تجویز رد کر دی۔جارج ابراہام نے حکومت سے اپنی تجویز پر اصرار کیا اور حکومت کو قائل کیا کہ یہ سروے حکومت اہلکاروں کے پہلے سے موجود نیٹ ورک کی مدد سے بہت مناسب اخراجات میں کیا جا سکتا ہے۔اس کے بعد حکومت نے 1891 میں اس سروے کی منظوری دے دی۔تاہم یہ سروے 1894 میں شروع ہو سکا۔یہ سروے تقریباً 30 سال تک جاری رہا۔ اس کے نتائج 1928 میں شائع کیے گئے۔ اس سروے کا ایک آن لائن سرچ ایبل ڈیٹا بیس بھی دستیاب ہے[1] اس میں جارج کے اصل پبلی کیشن کے ہر لفظ کا اقتباس ہے۔اس کے علاوہ کے ساؤنڈ آرکائیو میں اس کی گرامو فون ریکارڈنگ بھی موجود ہے[2]، جس میں فونولوجی کا ریکارڈ ررکھا گیا ہے۔

سروے کا طریقہ اور تنقید ترمیم

جارج حکومتی افسران کی مدد سے سارے ہندوستان سے ڈیٹا جمع کیا۔ جارج نے مختلف فارم اور رہنمائی کا مواد ترتیب دیا تاکہ حکومتی افسران اُن کی مدد سے ڈیٹا جمع کر سکیں۔ اس جمع کیے ہوئے ڈیٹا میں بہت سے مسائل تھی۔ اہم مسائل میں ڈیٹا کے جمع کرنے میں  یکسانی (uniformity ) کی کمی تھی اور یہ سمجھنے میں ابہام سے پاک(clarity of understanding) نہیں تھا۔ ایک افسر نے اپنی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ اسے ایک گھر سے زبان کا نام تک لکھنے میں بہت مشکل پیش آئی۔ انٹرویو دینے والے اپنی ذات کے بعد اپنی زبان بتاتے۔ یہ ڈیٹا آج تک سیاسی مقاصد کے لیے بھی استعمال ہو رہا ہے۔ جارج کے بیان کیے ہوئے نقشوں اور اُن کی سرحدوں سیاسی گروپس ریاستی شناخت حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتے رہتے ہیں۔

جلدوں کی فہرست ترمیم

1898 سے 1928 تک شائع ہونے والی جارج کی شائع کی گئی جلدوں کی فہرست کچھ اس طرح ہے:

  • جلد اول: حصہ اول۔ تعارف
    حصہ دوم ہندوستانی زبانوں کا تقابلی ذخیرہ الفاظ
  • جلد دوم:جنوبی ایشیائی زبانیں (Mon–Khmer) اور تائی زبانوں کے خاندان
  • جلد سوم: حصہ اول۔ ہمالیائی لہجے اور شمالی آسام گروپس
    حصہ دوم۔ تبتی- برمن (Tibeto-Burman) زبانوں کے بوڈو-ناگا اور کوچین گروپس
    حصہ سوم۔تبتی-برمن زبانوں کے کوکی-چن(Kuki-Chin) اور برما گروپس
  • جلد چہارم: منڈا زبانیں اور دراوڑی زبانیں
  • جلد پنجم: ہند آریائی زبانیں, (مشرقی گروپ)
حصہ اول بنگالی-آسامی
حصہ دوم بہاری زبانیں اور اڑیہ زبان
حصہ اول۔ سندھی زبان اور لہندا زبانیں
حصہ دوم داردی زبانیں یا پساچا(Pisacha) زبانیں (بشمولکشمیری زبان)
  • جلد نہم: انڈو-آریائی زبانیں، مرکزی (سنٹرل) گروپ
حصہ اول مرکزی ہندوستانی زبانیں اور پنجابی زبان
حصہ دوم راجستھانی زبان اور گجراتی زبان
حصہ سوم بھل(Bhil ) زبانیں، بشمول خاندیسی (Khandesi) زبانیں، بنجاری(Banjari) یالابھانی(Labhani)، باہروپیا(Bahrupia) وغیرہ
حصہ چہارم شمالی ہند آریائی زبانیں اور گوجری(Gujuri)

ہندوستان میں بعد میں ہونے والے سروے ترمیم

اس سروے کے بعد 1984 میں ہندوستان میں دوسرا لسانی سروے ہوا۔ یہ سروے لینگوئج ڈویژن آف آفس آف دی رجسٹرار جنرل اینڈ سنسس کمشنر آف انڈیا کی ہدایات کے تحت ہوا۔ یہ پراجیکٹ ابھی تک جاری ہے۔ اس کے تحت 2010 کے آخر تک صرف 40 فیصد سروے مکمل ہوا ہے۔ اس سروے کے مقاصد کافی محدود ہیں۔ اس کا مقصد جارج کے بعد ہونے والی لسانی تبدیلیوں کی صورت حال کو دیکھنا ہے۔ بہت سے ماہرین لسانیات نے اس سروے پر کافی تنقید کی ہے۔ اُن کی تنقید کی وجہ  اس طریقہ کار پر ہے، جو جارج نے اپنایا تھا۔ اس طریقہ کار کی غلطیاں اب دوبارہ دوہرائی جا رہی ہیں۔ موجودہ پروجیکٹ میں بھی حکومتی اہلکاروں اور زبانوں کے مقامی استادوں کی مدد سے ڈیٹا جمع کیا جا رہا ہے۔ ،ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈیٹا جمع کرنے کے لیے ایسے لوگ ہونے چاہیے جو اس سے متعلقہ نہ ہوں۔ بھارت کی 1991 کی مردم شماری کے مطابق گرائمر کے الگ الگ ڈھانچے(سٹرکچر) کے ساتھ ملک میں 1576 مادری زبانیں ہیں۔ 1796 زبانوں کو دیگر مادری زبانوں کی درجہ بندی میں رکھا گیا ہے۔بھارت میں بہت سے حلقے ایک مکمل اور لسانی جائزے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جارج نے جو لسانی سروے کرایا تھا اس میں  غیر تربیت یافتہ عملہ استعمال کیا تھا۔ اس میں سابقہ برما یا موجودہ میانمار، سابقہ مدراس یا موجودہ چینائی اور نوابی ریاستوں حیدرآباد اور میسور کو نظر انداز کیا تھا، اس وجہ سے ایل ایس آئی میں ان ریاستوں کو کم نمائنددگی ملی۔ بھارتی حکومت نے  بھارت کے لسانی سروے کو پھیلانے اور اس میں تبدیلی کا اعلان کیا، جس کے لیے گیارہویں پانچ سالہ منصوبے (2007-2012) میں اس پراجیکٹ کے لیے 2.8 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی[3]۔ اس منصوبے کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ ایک حصہ تو بھارت کے نئے لسانی سروے سے متعلق تھا اور دوسرا حصہ کم بولی جانے والی چھوٹی اور خطرے سے دوچار زبانوں کے سروے کے حوالے سے تھا۔میسور میں قائم سنٹرل انسٹی ٹیوٹ آف انڈین لینگوئجز اور  ادایا نارایاناسنگھ (Udaya Narayana Singh) کی زیر ہدایت اس پراجیکٹ میں  54 یونیورسٹیوں، 2000 تفتیش کاروں (انویسٹی گیٹرز)  اور 10 ہزار ماہرین لسانیات کے ساتھ دس سال تک جاری رہنا تھا۔ 2010 کے ٹائمز آف انڈیا کے ایک مضمون میں بتایا گیا کہ مندرجہ بالا پراجیکٹ ختم کر دیا گیا ہے ، اس کی بجائے ایک نیا پراجیکٹ شروع کیا گیا ہے۔ یہ سروے جارج کے ایل ایس آئی کی طرح تھا۔ اسے پیپلز لینگوئسٹک سروے آف انڈیا یا پی ایل ایس آئی کا نام دیا گیا۔ اسے بھاشا ریسرچ اینڈ پبلی کیشنز سنٹر نامی این جی او کی سرپرستی میں شروع کیا گیا۔ اس کے چیئر پرسن گنیش این ڈیوی تھے۔ یہ پراجیکٹ ہمالیائی زبانوں کے سروے سے شروع ہوگا۔ اطلاعات کے مطابق یہ سروے بھی کھٹائی میں پڑنے کا امکان ہے کیونکہ حکومت اس میں پوری طرح دلچسپی نہیں لے رہی۔

حوالہ جات ترمیم

  1. دیکھٰںDSAL آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ dsal.uchicago.edu (Error: unknown archive URL)
  2. دیکھیںBritish Library Sound Archive آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ bl.uk (Error: unknown archive URL)
  3. "جائزۂ لسانیاتِ ہند اور مابعد۔۔۔حافظ صفوان محمد"۔ 20 اکتوبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اکتوبر 2019