جرمنی میں فرانس کے بعد مغربی یورپ میں سب سے بڑی مسلم آبادی ہے۔ تقریبًا 30 سے 35 لاکھ مسلمان جرمنی میں رہتے ہیں۔ ان میں سے 80٪ جرمن شہریت نہیں رکھتے ہیں۔ حالیہ اعداد و شمار میں مسلسل اضافہ ظاہر ہوا ہے۔ 608000 مسلمانوں کوجرمن شہریت حاصل ہے جبکہ قریب ایک لاکھ جرمن شہریوں نے اسلام قبول کیا ہے۔

جرمنی میں اسلام
معلومات ملک
نام ملک  جرمنی
کل آبادی 82,400,996
ملک میں اسلام
مسلمان آبادی 44 لاکھ
فیصد 5.4٪[1]

جرمنی میں جرمن نژاد مزدوروں کی قلت کے پیش نظر 1960 کے دہے میں شروع ہوا۔ اس کے تحت مسلمان آبادی کا 70 فیصد ترکی سے نقل مقام کرنے والوں پر مشتمل ہے۔ ان مزدوروں کو ان کے کام کے مکمل ہونے کے بعد جرمنی چھوڑنے کی توقع کی گئی تھی، تاہم ان میں سے نصف ملک میں رہ گئے۔ سب سے پہلے امیگریشن کی غالب اکثریت مردوں کی تھی، لیکن انھوں نے بالآخر کو بھی یہیں بلالیا۔ مسلمانوں برلن، کولون، فرینکفرٹ، سٹٹگارٹ، ڈارٹمنڈ، ایسن، ڈیوسبرگ، میونخ، نیورمبرگ اور گپینگین (GÖPPINGEN) کے صنعتی علاقوں کے ارد گرد آباد اور ہیمبرگ میں آباد ہے۔ اس کے برعکس صرف چند مسلمانوں سابق مشرقی جرمنی کے علاقے میں رہتے ہیں۔

ملک میں اسلام کا بڑھتا ہوا اثر

ترمیم

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اعتراف کرتے کہا ہے کہ ’اسلام جرمنی کا حصہ ہے‘۔[2] چونکہ امیگریشن اور قبول اسلام سے مسلمانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، اس وجہ کئی حلقوں سے صدائے مخالفت بھی بڑھ رہی ہے۔ ملک کی ایک سیاسی دائیں محاذ کی جماعت اے ایف ڈی اسلام اور تارکینِ وطن مخالف جماعت کے طور پر جانی جاتی ہے اور وہ کلون میں اس موضوع پر 2017ء میں ایک کانفرنس بھی کر چکی ہے۔ اس کانفرنس کے خلاف زبر دست مظاہرے ہوئے اور عام جرم شہریوں نے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر درج تھا کہ ’ نازیوں کو روکا جائے۔‘[3]


عبادت گاہیں

ترمیم

جرمنی میں ڈھائی ہزار مسلم عبادت گاہیں ہیں۔ ان میں کل ملاکر140 مسجدیں ہیں جن کے مینار اور گنبد عام مساجد کی طرح بنائے گئے ہیں۔[4]

حوالہ جات

ترمیم