جلال الدین دوانی

عالم دین، فقیہ اور مصنف

جلال الدین دوانی (پیدائش:1426ء — وفات: 12 اکتوبر 1502ء) عالم دین، فقیہ اور مصنف تھے۔ علما نے انھیں محقق دوانی کے نام سے بھی یاد کیا ہے۔مسلم فلاسفہ میں گنتی کے چند افراد ’’محقق‘‘ کے خطاب سے علمی دنیا میں معروف ہیں، اُن میں محقق جلال الدین دوانی بھی شامل ہیں۔

جلال الدین دوانی
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1426ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دوان   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 12 اکتوبر 1502ء (75–76 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دوان   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت ایران   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اشعری [2]  ویکی ڈیٹا پر (P140) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر ،  فلسفی ،  متصوف ،  قاضی [3]  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان فارسی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل فلسفہ   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

جلال الدین الدوانی کا اصل نام محمد بن اسعد تھا۔ آپ کا تعلق کازرون کے قریب ایک گاؤں ودان سے تھا اور بعد میں شیراز چلے گئے۔ آپ ملک فارس کے بڑے عالم اور امام المعقولات اور فلسفی تھے۔ کئی علوم میں ماہر ہونے کی وجہ سے تمام اطراف سے بڑی تعداد میں لوگ آپ کے پاس علم کی پیاس بجھانے آتے تھے۔ آپ کی بڑی قدر و منزلت تھی یہاں تک کہ قاضی کا عہدہ بھی آپ کو سونپا گیا۔ آپ بہت کتابوں کے مصنف ہیں جن میں شرح التجرید للطوسی، شرح التھذیب اور حاشیہ علی العضد شامل ہیں۔ آپ نے علی الاختلاف 897ھ یا 918ھ میں وفات پائی۔[4]

سوانح

ترمیم

نام محمد، لقب جلال الدین اور آبائی علاقہ دوان کی نسب سے دوانی کہلاتے ہیں۔ والد کا نام سعدالدین اسعد، دوان کے منصبِ قضا پر فائز تھے۔ اُن کا سلسلہ نسب خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔ جلال الدین دوانی صوبہ شیراز کے ضلع گازرون میں دوان نامی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ یہ گاؤں گازرون کے شمال میں تقریباً نو فرسخ کے فاصلے پر واقع ہے۔

محقق دوانی نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سعد الدین اسعد سے حاصل کی جو اپنے دور کے نامور علما میں شمار ہوتے تھے۔ اِس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے شیراز چلے گئے۔ اُس وقت شیراز میں سید شریف جرجانی (متوفی 6 جولائی 1413ء) کے دو ممتاز شاگردوں خواجہ حسن بقال اور مولان محی الدین انصاری کوشنکاری سے اِکتسابِ فیض کیا۔ محقق دوانی نے اِن دونوں علما کی مجالس سے خوشہ چینی کی۔ بعض فارسی کتابیں مولانا ہمام الدین گلباری سے پڑھیں، جنھوں نے طوالع الانوار کی ایک مفید شرح لکھی تھی۔ علم حدیث کی تحصیل کے لیے شیخ صفی الدین ایجی کے حلقہ درس میں شامل ہونے اور اپنی خداداد صلاحیتوں کی بدولت عنفوانِ شباب ہی میں علومِ مروجہ کی تحصیل کرلی اور وقت کے جید علما میں آپ کا شمار ہونے لگا

علمی مشاغل

ترمیم

محقق دوانی کی علمی شہرت کو سنتے ہوئے امیرزادہ یوسف بن مرزا جہاں شاہ نے علمی مجلس کی صدارت پر معین کیا۔ کچھ عرصے کے بعد اِس منصب سے مستعفی ہوکر شیراز کے مدرسہ بیگم یعنی مدرسہ ’’دارالاتیام‘‘ میں فرائض تدریس انجام دینے لگے۔ اُس وقت عراق، فارس اور آذربائیجان کے حاکم سلطان یعقوب بائندری نے محقق دوانی کے علمی تبحر اور خداداد ذہانت کو دیکھتے ہوئے اُن کو فارس کا قاضی القضاۃ مقرر کر دیا۔فرائض منصبی کے دوران وہ تصنیف و تالیف کا کام برابر کرتے رہے۔ محقق دوانی کی عمر کا معقول حصہ سلاطین بائندری کی سرپرستی میں گذرا۔ 902ھ میں جب سلطان احمد شاہ بائندری عثمانی سلطان بایزید یلدرم کی مدد سے اقتدار پر قابض ہو گیا تو اُس نے محقق دوانی کی قدرو منزلت میں کوئی فرق نہ آنے دیا بلکہ سلطان احمد شاہ بائندری کی مہربانی و لطف و کرم کو دیکھتے ہوئے اُس کے مخالف قاسم بیگ نے محقق دوانی کو تنگ کرنا شروع کر دیا۔ دولت و ثروت کا ایک حصہ بھی چھین لیا۔ محقق دوانی نے قاسم بیگ کا لقمہ تر بننے کی بجائے یہی بہتر سمجھا کہ وہ شیراز چھوڑ دیں۔ چنانچہ وہ شیراز سے سکونت ترک کرکے جردن چلے گئے۔[5]

وفات

ترمیم

آخری ایام میں جب بائندری خاندان کے سلطان ابوالفتح بیگ نے دوبارہ اِقتدار حاصل کر لیا تو محقق دوانی واپس شیراز چلے آئے۔ ابوالفتح بیگ نے پرجوش اِستقبال کیا لیکن چند دن کے بعد ہی 9 ربیع الاول 908ھ مطابق 12 اکتوبر 1502ء کو مرضِ اِسہال میں محقق دوانی انتقال کرگئے اور دوان میں ہی دفن ہوئے۔

تصانیف

ترمیم
  • حاشیہ قدیم بر شرح تجرید
  • حاشیہ جدید بر شرح تجرید
  • حاشیہ اجد بر شرح تجرید
  • حاشیہ قدیم بر شرح مطالع
  • حاشیہ جدید بر شرح مطالع
  • حاشیہ شرح عضدی
  • حاشیہ حکمت العین
  • حاشیہ تہذیب المنطق والکلام
  • شرح ہیاکل النور
  • شرح اربعین نووی
  • شرح عقائد عضدی
  • اخلاق جلالی

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. ناشر: روٹلیجRoutledge Encyclopedia of Philosophy — اخذ شدہ بتاریخ: 11 اپریل 2017
  2. صفحہ: 188 — https://books.google.fr/books?id=KjYkDQAAQBAJ&pg=PT188
  3. https://referenceworks.brillonline.com/entries/encyclopaedia-of-islam-1/al-dawwani-SIM_1849?lang=fr
  4. البدر الطالع بمحاسن من بعد القرن السابع، محمد بن علي الشوكاني، دار المعرفة، بيروت،ج 2 ص129
  5. تذکرہ مصنفین درس نظامی: صفحہ 86۔