جمیلہ ہاشمی
جمیلہ ہاشمی (1929ء / 1934ء – 1988ء) ایک پاکستانی ناول نگار اور مختصر کہانی نویس تھیں۔ انھوں نے اردو میں کام کیا۔ انھوں نے اپنا پہلا ناول ’’ آتشِ الفت ‘‘ کے نام سے تحریر کیا تھا جس پر ایک ٹی وی سیریل بھی بنائی گئی۔ بعد میں انھوں نے تلاش بہاران لکھا، یہ ناول بعد میں آدم جی ادبی ایوارڈ کا وصول کنندہ بنا۔ انھوں نے شارٹ سٹوریز بھی لکھیں جن میں رنگ بھوم، آپ بیتی-جگ بیتی وغیرہ۔[1]
جمیلہ ہاشمی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1934ء امرتسر، (برطانوی ہندوستان) |
وفات | سنہ 1988ء (53–54 سال) پاکستان |
شریک حیات | سردار احمد اویسی |
عملی زندگی | |
مادر علمی | فورمن کرسچین کالج |
تعلیمی اسناد | ایم اے |
پیشہ | ناول نگار، کہانی نویس |
اعزازات | |
آدم جی اعزاز (1960) |
|
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
جمیلہ 1934 میں برطانوی ہندوستان کے علاقے امرتسر میں پیدا ہوئی تھیں۔
بعض مورخین کے مطابق 17 نومبر 1929ء کو گوجرہ میں پیدا ہوئیں ان کے والد صاحب کا نام برکت علی تھا ۔ جمیلہ ہاشمی نے میٹرک اور ایف-اے کا امتحان ہندوستان میں پاس کیا. تقسیم ہند کے بعد ان کا گھرانہ 1947 میں ساہیوال منتقل ہو گیا۔ وہاں سے اعلی تعلیم کے حصول کے لیے وہ لاہور آگئیں اور 1952 میں ایف-سی کالج لاہور سے انگریزی میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی.
18 اگست 1959 میں ان کی شادی بہاولپور کی مشہور خانقاہ شریف کے سجادہ نشین اور صوبہ پنجاب کے ایم-پی-اے جناب سردار احمد اویسی سے ہوئی جو بہت بڑے زمیندار اور آٹھ پشتوں سے گدی نشین تھے۔ خانقاہ شریف پہنچ کر جمیلہ ہاشمی وہاں کے رنگ میں رنگی گئیں۔ جمیلہ ہاشمی نے شادی سے پہلے ہی لکھنا شروع کر دیا تھا. "تلاش بہاراں" وہ 1954-55 میں لکھ چکی تھیں. مگر اس کی اشاعت شادی کے بعد 1961 میں عمل میں آئی. 1960 میں جمیلہ ہاشمی نے مشرقی پاکستان ڈھاکہ میں ایک انجمن مصنفین (رائیٹرز گلڈ) کے سالانہ اجلاس میں شرکت کی تھی. 1961 میں انھیں "تلاش بہاراں" پر انعام بھی ملا. 1983 تک ان کی دوسری کتابیں "آتش رفتہ"، "روہی"، "چہرہ بہ چہرہ" اور "دشت سوس" شائع ہو چکی تھیں. [1] [2]
وفات
ترمیم9 جنوری 1988 کو جمیلہ ہاشمی دل گرفتگی کا شکار ہوئیں اور 10 جنوری کو اس دار فانی سے رخصت ہوگئیں.
جمیلہ ہاشمی کی وفات پر احمد ندیم قاسمی نے فرمایا:
"مرحومہ اعلی پائے کی ادیبہ تھیں. ایک عظیم ناول نگار اور افسانہ نگار کے روپ میں وہ ہمیشہ زندہ رہیں گیں. ان کی بے وقت موت سے اردو ادب اور اس کے مستقبل کو زبردست دھچکہ لگا."
ان کی وفات پر عقیل زوبی نے انھیں منظوم خراج تحسین یوں پہش کیا:
تو زندہ رہے گی
- جب تک لفظوں اور معنی میں ربط رپے گا
- جب تک کوئی بات کہے گا کوئی سنے گا
- جب تک یہ دل اس دنیا کے ظلم سہے گا
- جب تک محکوموں پہ حاکم راج کرے گا
- اس دن تک، اس لمحے تک تو زندہ رہے گی
- تیری ہر تحریر ان سب کا درد کہے گی.
کیریئر
ترمیمانھوں نے متعدد ناول اور مختصر کہانیاں لکھیں جن میں خاص طور پر پنجابیوں کی ثقافت، زندگی اور سکھ فن اور ثقافت پر توجہ دی گئی تھی۔ انھوں نے شیری کے نام سے ایک ناول بھی لکھا جسے الحمرا آرٹس کونسل میں ایک پاکستانی سماجی کارکن شیما کرمانینے ڈرامے کی شکل میں پیش کیا۔ [1] ان کی کتاب 'جب یادیں بننے سے تکلیف دہ ہوجاتی ہیں ' تقسیم ہند کے ارد گرد گھومتی ہے۔ [3]
ان کے ناول 'دشت سوس'، 'چہرہ با چہرہ'، 'روبرو'، 'تلاش بہاراں' غیر حقیقی کرداروں پر مشتمل ہیں۔ ان کی ایک شارٹ سٹوری جس کا نام "بینشد" میں ایک مسلمان لڑکی کو دکھایا گیا ہے جسے تقسیم ہند کے وقت تشدد سے پریشانی ہوتی ہے۔ [4]
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب پ Shahab Ansari (2016-02-12)۔ "Play on Jamila Hashmi's short story – Lahore"۔ The News International۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 مارچ 2021
- ↑ "Military Inc: enter at your own risk – Islamabad"۔ The News International۔ 2007-06-08۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 مارچ 2021[مردہ ربط]
- ↑ "When Memories Become Traumatic : A Reading of Jamila.۔۔"۔ Bartleby۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 مارچ 2021
- ↑ "The Temporal Transcendentalism In Characters Of Jamila Hashmi"۔ Naya Daur۔ 2020-06-11۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 مارچ 2021
بیرونی روابط
ترمیم- جمیلہ ہاشمی کی تصنیفات ریختہ میں
مزید پڑھیے
ترمیم- سیدہ شہربانو کاظم (2016-02-15)۔ "جمیلہ ہاشمی کو خراج عقیدت"۔ DAWN.COM۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 مارچ 2021