جنگ سبیطلہ 647ء
"جنگ سبیطلہ" یا "جنگ سفیطلہ" 647ء میں لڑی گئی ایک اہم جنگ ہے جس کے نتیجے میں خلافت راشدہ نے بازنطینی سلطنت کے شمال افریقہ کے طرابلس، فزان اور برقہ قلمرو یعنی موجودہ لیبیا کے علاقے کو فتح کر لیا تھا-
جنگ سبیطلہ عرب - بازنطینی رومی جنگیں | |
---|---|
سلسلہ المغرب کی اسلامی فتح | |
عمومی معلومات | |
| |
متحارب گروہ | |
بازنطینی روم | خلافت راشدہ |
قائد | |
کوتوال گریگوری | عبداللہ بن سعد بن ابی السرح ؓ عبداللہ ابن زبیر ؓ |
قوت | |
100,000 | 40,000 |
نقصانات | |
بھاری | درمیانی |
درستی - ترمیم |
پس منظر
ترمیمگریگوری شریف زادہ نامی شخص آل ھرکل سے تعلق رکھتا تھا چنانچہ کنستانس دوم کا رشتہ دار تھا، جس کی مدد سے وہ بازنطینی سلطنت کے شمالی افریقہ کا صوبہ دار و امیر مقرر ہوا- مگر کوتوال گریگوری نے 647ء میں بازنطینی سلطنت سے مذہبی اختلافات کی بنا پر بغاوت کی اور اپنی خود مختاری کا اعلان کیا-تفریق دراصل راسخ الاعتقاد کلیسیا، مونوثیلیہ اور مونوفیزیہ کے ایک الحاد نظریہ واحد قوت پر تھی- امازیغ قوم کی ایک بڑی تعداد بھی اس کے ساتھ شریک ہوئی-
اس نے مرکزی تیونس میں سبیطلہ شہر کو اپنا دار الحکومت بنایا تاکہ مؤثر طور پر بازنطینی جوابی کارروائی کا سامنا کر سکے، تاہم، اس وقت، عرب پورے مشرق وسطی میں سب سے طاقتور قوم کی حیثیت سے ابھر رہے تھے- نتیجے میں فلسطین، شام و مصر سے پناہ گزین قرطاجنہ میں جمع ہو رہے تھے خاص کر ملكانیہ مسیحی- یہ مذہبی کشیدگی کا باعث بھی بنے لیکن سب سے اہم بات یہ ثابت ہوئی کہ عربوں کی پیش رفت کو روکنا ضروری ہے ورنہ وہ بازنطینی شمالی افریقہ کے علاقے تک پہنچ جائیں گے-
جنگ
ترمیمخلیفہ حضرت عثمان ابن عفان () کو جب شمالی افریقہ کے بدلتے سیاسی حالات سے آگاہ کیا گیا تو فیصلہ ہوا کہ حضرت عبداللہ بن سعد بن ابی السرح () مدینہ سے 20،000 کے قریب فوجی دستہ لے کر مصر کی جانب روانہ ہوں اور وہاں سے شمالی افریقہ کو فتح کرنے کی کوشش کی جائے- اس فوج میں بطور افسر حضرت عبداللہ ابن زبیر () بھی شامل تھے- مصر پہنچتے ہی مزید 20،000 افراد کو لے کر کسی بھی مزاحمت کے بغیر برقہ کو پانے میں کامیاب ہوئے- طرابلس پر 647ء میں حملہ کیا اور دوبارہ بغیر کسی مناسب مزاحمت کے اس علاقے کو بھی فتح کر لیا-
کوتوال گریگوری کو معلوم تھا کہ مسلمانوں کا اگلا ہدف سبیطلہ ہے- اس نے شہر کے دفاع کی تیاریاں شروع کیں اور شاید ایک اندازے کے مطابق 100،000 امازیغ اس کی فوج میں شامل ہوئے-
جنگ سے متعلق کئی باتیں غیر واضح ہیں- جنگ سے پہلے فوجی جھڑپیں ہوئیں جن میں مسلمان گھات لگاتے اور رومی و افریقی فوج ان کا تلاش یا پیچھا کرتے اور موقع پر عربی ان پر حملہ آور ہوتے- یہ سلسلہ مہینوں تک جاری رہا جس سے کوتوال گریگوری کی فوج کو بڑا نقصان اٹھانا پڑا- اس طریقہ وار کی تجویز ایک قبطی مسیحی نے حضرت عبداللہ بن سعد بن ابی السرح () کو بطور مشیر دی تھی- لیکن مسلمان بھی اس فَرسُودگی کی جنگ سے تنگ آچکے تھے، جن میں حضرت عبداللہ ابن زبیر () بھی تھے- انھوں نے تجویز دی کہ مسلمان ایک فیصلہ کن لڑائی سبیطلہ میں ہی کریں چونکہ اب نہ صرف کوتوال گریگوری کی فوج کمزور ہو چکی تھی بلکہ اس کی فوج کو قیام مقام پر ایک انضباطی جنگ لڑنا نہیں آتا کیونکہ اس کی فوج بیشتر اکثر امازیغ قبائلیوں پر مشتمل تھی جو اس انداز لڑائی سے غافل تھے-
حضرت عبداللہ بن سعد بن ابی السرح () اس مشورے پر عمل کرتے ہوئے سبیطلہ آ پہنچے- کوتوال گریگوری اپنی رومی و افریقی فوج سمیت اپنی دار الحکومت کے دفاع کے لیے آ پہنچا- حضرت عبداللہ ابن زبیر () نے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے مشورہ دیا کہ کچھ اعلی معیار فوجیوں کو گھوڑوں اور چھاونی کی حفاظت کرنے کے لیے پیچھے بھیجا جائے تاکہ بھاگنے کا راستہ کھلا رہے اور دن کے دوران طویل لڑائی کے ذریعے کوتوال گریگوری کی فوج کو تھکا کر دوپہر یا شام کے وقت ایک پر زور حملہ کیا جائے- یہ حکمت عملی کامیاب رہی-
شروع میں عربی لڑائی جتنی دیر تک جاری رکھ سکتے تھے، رکھتے رہے، بعد میں دوپہر کے اس وقت جب ایک نیزہ کا سایہ دو نیزوں کے برابر ہوا، مسلمانوں نے تازہ سپاہیوں کی مدد سے تھکے اور پیچھے ہٹتے رومی و افریقی فوج پر تمام سمتوں سے حملہ آور ہوئے- ان حالات میں امازیغ بھاگے اور کوتوال گریگوری کی فوج بکھر گئی- صرف کوتوال گریگوری، اعلی افسران اور امازیغ شرفا و جاگیردار اپنے حفاظتی سپاہیوں کے ساتھ ڈٹے رہے، لیکن اس حملے میں یہ سب مارے گئے اور جیت مسلمانوں کی ہوئی- کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن زبیر () نے خود کوتوال گریگوری کو میدان جنگ میں مارا تھا-