جوگندر پال
جوگندر پال (انگریزی: Joginder Paul) بھارت کے ایک مشہور اردو ادیب تھے۔
جوگندر پال | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 5 ستمبر 1925 سیالکوٹ، برطانوی ہند |
وفات | اپریل 22، 2016 حیدرآباد، بھارت |
(عمر 90 سال)
قومیت | بھارتی |
عملی زندگی | |
پیشہ | انگریزی کے مدرس، پوسٹ گریجویٹ کالج کا پرنسپل |
وجہ شہرت | اردو ادیب |
درستی - ترمیم |
پیدائش
ترمیمجوگندر پال 5 ستمبر 1925ء کو سیالکوٹ، برطانوی ہند میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ تقسیم ہند کے وقت بھارت آ گئے۔ ان کی مادری زبان پنجابی تھی تاہم ان کی ابتدائی اور وسطانوی تعلیم اردو ذریعہ تعلیم سے مکمل ہوئی اور یہی ان کے ادبی اظہار خیال کی زبان بنی۔[1]
تعلیم اور ملازمت
ترمیمجوگندر نے ایم اے انگریزی ادب میں کیے اور پیشہ درس وتدریس سے جڑگئے۔ وہ مہاراشٹر کے ایک پوسٹ گریجویٹ کالج کے پرنسپل کے طور پر وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوئے۔[1][2]
اردو ادب سے وابستگی
ترمیمجوگندر کا یہ نقطہ نظر تھا کہ اردو ایک زبان نہیں بلکہ ایک تہذیب کی نمائندگی کرتی ہے اور ان کے لیے تہذیب کا حصہ ہونا ادب سے وابستہ ہونا ہی تھا۔ وہ ترقی پسند تحریک کا حصہ تھے۔ ان کی افسانہ نگاری بھارت ہی میں نہیں بلکہ پاکستان کے ادبی حلقوں میں پزیرائی پائی۔[1][2]
تحریریں
ترمیمجوگندر کی تخلیقات میں دھرتی کا کال (1961ء)، میں کیوں سقیم؟ (1962ء)، کھودو بابا کا مقبرہ (1994ء)، پرندے (2000ء) (سبھی افسانے)، نہیں رحمان بابو (افسانوں کا مجموعہ جس میں کچھ دوسطری تھے)، آمدورفت (1975ء)، بیانات (1975ء) (دو مختصر ناول)، بے محاورہ (1978ء)، بے ارادہ (1981ء)، نادید (1983ء)، خواب رو (1991ء) (دونوں ناول) زیادہ مشہور ہوئے تھے۔[1][2]
لائبریری آف کانگریس کی دلچسپی
ترمیملائبریری آف کانگریس کی نئی دہلی کے دفتر کے جنوب ایشیائی ادبی تحفظ منصوبہ (South Asian Literary Recordings Project) کے تحت جوگندر کی اور ان سے متعلق 22 تخلیقات حاصل کیے گئے تھے۔[1][2]
اعزازات
ترمیمتخلیقی کام کے تراجم
ترمیمجوگندر کی کہانیوں اور ناولوں کا ہندی، انگریزی اور کئی زبانوں میں ان کی بیوی کرشنا پال، بیٹی سُکریتا اور بھانجی اُوشا ناگپال اور کئی مصنفوں کی جانب سے ترجمہ کیا گیا تھا۔[1]