جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون کی تنظیم

جنوب ایشیائی علاقائی تعاون کی تنظیم یا سارک جنوبی ایشیا کے 8 ممالک کی ایک اقتصادی اور سیاسی تنظیم ہے۔ یہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی علاقائی تنظیم ہے جو تقریباً 1 اعشاریہ 47 ارب لوگوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ تنظیم 8 دسمبر 1985ء کو بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال، مالدیپ اور بھوٹان نے قائم کی تھی۔ 3 اپریل 2007ء کو نئی دہلی میں ہونے والے تنظیم کے 14 ویں اجلاس میں افغانستان کو آٹھویں رکن کی حیثیت سے تنظیم میں شامل کیا گیا۔

جنوب ایشیائی علاقائی تعاون کی تنظیم (سارک)
South Asia Association for Regional
Cooperation (SAARC)
  • दक्षिण एशियाली क्षेत्रीय सहयोग सङ्गठन (सार्क)  (نیپالی)
  • दक्षिण एशियाई क्षेत्रीय सहयोग संगठन (दक्षेस)  (ہندی)
  • দক্ষিণ এশীয় আঞ্চলিক সহযোগিতা সংস্থা (সার্ক)  (بنگالی)
  • ༄ ལྷོ ཨེསིཨ་ རེ་གིཨོནལ་ ཅོཨོཔེརཏིཨོན་ ཀོ་མི་ཏི། (زونگکھا)
  • දකුණු ආසියාතික කලාපීය සහයෝගිතා සංවිධානය (سنہالی)
  • தெற்காசிய நாடுகளின் பிராந்தியக் கூட்டமைப்பு (சார்க்)  (تمل)
  • ދެކުނު އޭޝިޔާގެ ސަރަޙައްދީ އެއްބާރުލުމުގެ ޖަމިއްޔާ (دیویہی)
  • اتحادیه همکاری‌های منطقه‌ای جنوب آسی (دری)
  • د سویلي اسیا لپاره د سیمه ایزی همکارۍ ټولنه (پشتو)
  • جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون کی تنظیم  (اردو)
  رکن ریاستیں   مبصر ریاستیں
  رکن ریاستیں
  مبصر ریاستیں
صدر دفترنیپال کا پرچم کھٹمنڈو، نیپال
انگریزی
Leaders
امجد حسین بی سیال
قیام8 دسمبر 1985ء
جی ڈی پی (پی پی پی)2014 تخمینہ
• کل
امریکی$ 9.05 ٹریلین [1]
جی ڈی پی (برائے نام)2014 تخمینہ
• کل
امریکی$ 2.599 ٹریلین [2]
ویب سائٹ
www.saarc-sec.org
  1. موجودہ سارک اجلاس میزبان

تاریخ

ترمیم
 
سارک رکن ممالک (گہرا نیلا) اور مبصرین (ہلکا نیلا) کا نقشہ

1970ء کی دہائی کے اواخر میں بنگلہ دیش کے صدر ضیاء الرحمٰن نے جنوب ایشیائی ممالک پر مشتمل ایک تجارتی بلاک کا خیال پیش کیا۔ 1981ء میں کولمبو میں ہونے والے ایک اجلاس میں بھارت، پاکستان اور سری لنکا نے بنگلہ دیشی تجویز کو تسلیم کیا۔ اگست 1983ء میں ان رہنماؤں نے نئی دہلی میں منعقدہ ایک اجلاس میں جنوب ایشیائی علاقائی تعاون کے معاہدے کا اعلان کیا۔ 7 ایشیائی ممالک جن میں نیپال، مالدیپ اور بھوٹان بھی شامل ہیں، نے مندرجہ ذیل شعبہ جات میں تعاون کا اظہار کیا:

  • زراعت و دیہی ترقی
  • مواصلات، سائنس، ٹیکنالوجی اور موسمیات
  • صحت و بہبود آبادی
  • ذرائع نقل و حمل
  • انسانی ذرائع کی ترقی

افغانستان کو 13 نومبر 2005ء کی بھارت کی تجویز پر 3 اپریل 2007ء کو مکمل رکن کی حیثیت سے تنظیم میں شامل کیا گیا۔ افغانستان کی شمولیت سے تنظیم کے رکن ممالک کی تعداد بڑھ کر 8 ہو گئی ہے۔ اپریل 2006ء میں ریاستہائے متحدہ امریکا اور جنوبی کوریا نے مبصر کی حیثیت سے تنظیم میں شمولیت کی باقاعدہ درخواست دی۔ یورپی یونین نے بھی مبصر کی حیثیت سے شمولیت میں دلچسپی ظاہر کی ہے اور جولائی 2006ء میں سارک وزراء کونسل میں اس حیثیت کے لیے باقاعدہ درخواست دی۔ 2 اگست 2006ء کو سارک وزرائے خارجہ کے اجلاس میں امریکا، جنوبی کوریا اور یورپی یونین کو مبصر کی حیثیت دے دی گئی۔ 4 مارچ 2007ء کو ایران نے بھی مبصر کی حیثیت کے لیے درخواست دی۔ [1]

غیر موثریت

ترمیم

جنوبی ایشیا کی ترقی میں سارک کا کردار موثر نہ ہونے کی بڑی وجہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری سیاسی اور عسکری کشیدگی کو سمجھا جاتا ہے۔ انہی اقتصادی، سیاسی اور علاقائی کشیدگیوں کے باعث جنوب ایشیائی ممالک مشترکہ معیشت کا فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں۔ اپنے قیام سے آج تک یہ تنظیم "نشستند، گفتند، برخاستند" کی مثال بنی ہوئی ہے۔

سیاسی معاملات

ترمیم

سارک کی توجہ پاک بھارت تنازعۂ کشمیر اور سری لنکا کی خانہ جنگی جیسے اہم معاملات کی بجائے مندرجہ بالا معاملات پر رہی ۔ تاہم سیاسی معاملات سارک کے مختلف اجلاسوں میں زیر بحث رہے لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکل سکا۔ سارک اپنے رکن ممالک کے داخلی معاملات میں مداخلت سے بھی باز رہتا ہے۔ 12 اور 13 سارک اجلاس میں دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں سارک رکن ممالک کے درمیان تعاون بڑھانے پر زور دیا گیا تھا۔

آزاد تجارت کا معاہدہ

ترمیم

سارک رکن ممالک وقتاً فوقتاً آزاد تجارت کے معاہدے پر دستخط کے لیے اپنی عدم رضامندی کا اظہار کر چکے ہیں۔ حالانکہ بھارت، مالدیپ، نیپال، بھوٹان اور سری لنکا کے ساتھ متعدد تجارتی معاہدے کر چکا ہے لیکن پاکستان اور بنگلہ دیش کے اس نوعیت کے معاہدے فریقین کے خدشات کے باعث نہ ہو سکے۔ 1993ء میں ڈھاکہ میں سارک ممالک نے خطے میں بتدریج کم محصولات کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے۔ 9 سال بعد اسلام آباد میں 12 ویں سارک اجلاس میں سارک ممالک نے ایک اعشاریہ 4 ارب افراد کے لیے آزاد تجارتی علاقے کا ڈھانچہ ترتیب دینے کے لیے جنوب ایشیائی آزاد تجارت کے معاہدے پر غور کیا۔ یہ معاہدہ یکم جولائی 2006ء سے نافذ العمل ہے۔ اس معاہدے کے تحت سارک رکن ممالک 2007ء سے اپنے محصولات میں 20 فیصد کمی کریں گے۔

ارکان

ترمیم

مندرجہ ذیل ممالک سارک کے موجودہ ارکان ہیں:

ملک آبادی (ملین) خام ملکی پیداوار خام ملکی پیداوار
(مساوی قوت خرید)
فی کس خام ملکی پیداوار
(مساوی قوت خرید)
خام ملکی پیداوار شرح اضافی
(2014)
برآمدات
(2014)
براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری
(2013)
بیرونی ذخائر زرمبادلہ (ملین) دفاعی بجٹ(% خام ملکی پیداوار)
(2014)[2]
شرح خواندگی (مندرج عمر اور زیادہ بدعنوانی درجہ 2014
(شفافیت بین الاقوامی)
متوقع زندگی آبادی تحت خط غربت پرائمری اسکول اندراج [3] ثانوی اسکول اندراج [4] آبادی بلحاظ ناقص غذائیت(%)
(2015)[5]
  افغانستان 19394688632.007 $21.3 بلین $63.5 بلین $1,976 3.2% $0.3 بلین نامعلوم $6,442 نامعلوم 28.1%(عمر 15) 172/175 60 15.8% نامعلوم 54% 26.8%
  بنگلادیش 143369806159.857 $205.3 بلین $572.6 بلین $3,581 6.2% $31.2 بلین $0.66 بلین $24,072 $2.2 بلین(1.2%) 57.7%(عمر 15) 145/175 70 31.5% 92% 54% 16.4%
  بھوٹان 12101934220.779 $2.2 بلین $6.3 بلین $8,158 6.4% $0.7 بلین $63 ملین نامعلوم نامعلوم 52.8%(عمر 15) 30/175 68 23.7% 91% 78% نامعلوم
  بھارت 13540400001,276.2 $2308.0 بلین $7996.6 بلین $6,266 7.3% $464.0 بلین $31.0 بلین $351,557 $45 بلین(1.9%) 74.4%(عمر 7) 85/175 67 21.9% 94% 69% 15.2%
  مالدیپ 517705600.38 $3.0 بلین $5.2 بلین $14,980 4.5% $0.28 بلین نامعلوم $356 نامعلوم 99%(عمر 15) نامعلوم 77 16% نامعلوم نامعلوم 5.2%
  نیپال 5177056028.4 $21.6 بلین $70.7 بلین $2,488 5.5% $1.0 بلین $10 ملین $5,439 نامعلوم 66%(عمر 15) 126/175 68 25.2% 98% 67% 7.8%
  پاکستان 51770560190.4 $250 بلین $928.0بلین $4,886 4.2% $25.1 بلین $0.709 بلین(2014) $16,305 $7.4 بلین(3.5%) 55%(عمر 15) 126/175 66 22.6% 72% 34% 22%
  سری لنکا 5177056021.7 $80.4 بلین $233.7 بلین $11,068 7% $11.8 بلین $0.9 بلین $8,314 $1.4 بلین(2.3%) 98.1%(عمر 15) 85/175 75 8.9% 94% 99% 22%

مبصرین

ترمیم

معتمدین عام

ترمیم

سارک اجلاس

ترمیم
# تاریخ ملک میزبان میزبان رہنما
1 7–8 دسمبر 1985   بنگلادیش ڈھاکہ Ataur Rahman Khan
2 16–17 نومبر 1986   بھارت بنگلور Jayanth M Gowda
3 2–4 نومبر 1987   نیپال کھٹمنڈو Marich Man Singh Shrestha
4 29–31 دسمبر 1988   پاکستان اسلام آباد بینظیر بھٹو
5 21–23 نومبر 1990   مالدیپ مالے Maumoon Abdul Gayoom
6 21 دسمبر 1991   سری لنکا کولمبو Ranasinghe Premadasa
7 10–11 اپریل 1993   بنگلادیش ڈھاکہ خالدہ ضیا
8 2–4 مئی 1995   بھارت نئی دہلی P V ناراsimha Rao
9 12–14 مئی 1997   مالدیپ مالے Maumoon Abdul Gayoom
10 29–31 جولائی 1998   سری لنکا کولمبو Chandrika Kumaratunga
11 4–6 جنوری 2002   نیپال کھٹمنڈو Sher Bahadur Deuba
12 2–6 جنوری 2004   پاکستان اسلام آباد ظفر اللہ خان جمالی
13 12–13 نومبر 2005   بنگلادیش ڈھاکہ خالدہ ضیا
14 3–4 اپریل 2007   بھارت نئی دہلی منموہن سنگھ
15 1–3 اگست 2008   سری لنکا کولمبو Mahinda Rajapaksa
16 28–29 اپریل 2010   بھوٹان تھمپو Jigme Thinley
17th 10–11 نومبر 2011[6]   مالدیپ ادو Mohammed Nasheed
18th (26–27 نومبر 2014)[تجدید درکار][7]   نیپال کھٹمنڈو Sushil Koirala

مستقبل کی رکنیت

ترمیم

متعلقہ مضامین

ترمیم

بیرونی روابط

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. People's Daily Online - Iran asks for observer status in south Asian group SAARC
  2. "CIA"۔ 2020-11-27 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-08-15
  3. Workd Bank
  4. World Bank
  5. UN
  6. "آرکائیو کاپی"۔ 2011-08-11 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2014-11-26
  7. "کھٹمنڈو, Nepal to host 18th SAARC Summit in November 2014"۔ IANS۔ news.biharprabha.com۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2014-02-20
  8. Arab News - Worldwide Latest Breaking News & Updates
  9. "VOA News - Afghanistan to be Offered SAARC Membership"۔ 2005-11-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2005-11-26
  10. India, Bhutan’s big question: China in SAARC
  11. "Web Page Under Construction"۔ 2008-05-16 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2007-05-04
  12. "آرکائیو کاپی"۔ 2020-12-22 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2007-05-04
  13. "آرکائیو کاپی"۔ 2009-02-11 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2007-05-04
  14. People's Daily Online - Russia keen on observer status at SAARC
  15. "آرکائیو کاپی"۔ 2007-12-02 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2007-05-04
  16. "آرکائیو کاپی"۔ 2007-12-02 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2007-05-04