جوہر آفتابچی

پادشاہ ہمایوں کے خادمِ خاص

جوہر آفتابچی (ت سولہویں صدی عیسوی) مغل شہنشاہ ہمایوں کے آفتابہ بردار اور خدمت گار تھے، جو ان کے عہدِ سلطنت میں بعض مناصب پر بھی فائز رہے۔[1] ان کی وجہ شہرت ان کی تصنیف تذکرۃ الواقعات ہے۔[2]

جوہر آفتابچی
معلومات شخصیت
شہریت مغلیہ سلطنت   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ گھریلو خدمت گزار ،  مورخ ،  سوانح نگار   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان فارسی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں تذکرۃ الواقعات   ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

حالات زندگی

ترمیم

جوہر اور ان زندگی کے حالات کے بارے میں بہت کم تفصیل معلوم ہے انتہائی مختصر حالات سوائے تذکرۃ الواقعات کے کسی دوسری جگہ نہیں ملتے اور وہ بھی دوسرے واقعات کے ضمن میں۔[3][2]

وہ نصیر الدین محمد ہمایوں کے آفتابہ بردار تھے اور ان کے وفادار خدمت گار کی حیثیت سے ہر وقت اور ہر دور میں چاہے وہ ان کی شوکت و عظمت کا دور ہو یا انحطاط و پستی کا ان کے ساتھ رہے۔ وہ ہمایوں کے راز داں اور انتہائی معتمد تھے۔ اہم اور نازک موقعوں پر انھیں حکومت کے خاص کام سپرد کیے گئے جس سے وہ کامیابی کے ساتھ عہدہ برآ ہوئے اُن کے مشوروں کو پوری وقعت دی جاتی تھی اور اس حیثیت سے انھیں "مِہتَر" کا اعزازی خطاب حاصل تھا۔ جوہر کی زندگی کے سفر کی ابتدا شاہی اصطبل میں ملازمت سے ہوئی اور پھر آفتابہ بردار کی حیثیت سے انھوں نے ہمایوں کی ایک عرصہ تک خدمت کی۔ ان کی خدمت کے اعتراف میں انھیں سنہ 962ھ (سنہ 1554ء یا 1555ء) میں پرگنہ ہیبت پور کا محصل مقرر کیا گیا۔ آگے چل کر انھیں تاتار خان لودھی کی جاگیر میں شامل دیہات کا بھی انتظام سونپ دیا گیا۔ اس دوران میں انھوں نے سرکاری خزانے سے مقامی افغانوں کے ذریعہ بنیوں اور ساہوکاروں سے قرض لی گئی ساری رقومات ادا کر کے افغان عورتوں اور بچوں کو آزاد کرایا جو ان کے پاس رہن تھے۔ یہ اخلاقی اور انسانی عمل شہنشاہ ہمایوں نے بے حد پسند کیا اور انھیں ترقی دے کر پنجاب اور ملتان صوبے کا خزانہ دار بنا دیا۔[1]

جوہر آفتابچی کی تاریخ وفات کے بارے میں بھی کوئی علم نہیں علاوہ اس بات کے کہ جوہر شہنشاہ ہمایوں کے انتقال کے بعد ان کے فرزند شہنشاہ اکبر کے دور میں حیات تھے اور اکبر کی طلب پر سنہ 995ھ مطابق 1586ء میں تذکرۃ الواقعات کی تالیف کی۔ جوہر اپنے مخدوم ہمایوں کے انتقال کے بعد گُم نامی کی زندگی بسر کرنے لگے۔[1]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ جوہر آفتابچی (2015)۔ تذکرۃ الواقعات۔ کاتب: مرزا حسین بیگ ہمدانی، مرتبہ: ساجدہ شیروانی۔ رامپور: رامپور رضا لائبریری، وزارتِ ثقافت، حکومتِ ہند۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 دسمبر 2024 
  2. ^ ا ب مولوی محمد شفیع (1971)۔ اردو دائرۂ معارف اسلامیہ۔ جلد 7۔ زیرِ اہتمام: دانش گاہِ پنجاب (پہلا ایڈیشن)۔ لاہور: جامعہ پنجاب۔ صفحہ: 529 
  3. جوہر آفتابچی (1955)۔ تذکرۃُ الواقِعات۔ مترجم: سید معین الحق (پہلا ایڈیشن)۔ کراچی: انجمن پریس۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 دسمبر 2024